کہا جاتا ہے کہ خیبرپختونخوا کا دارالحکومت پشاور شہر ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت کا امین ہے، جہاں ماضی میں تجارتی مرکز ہونے کے باعث مختلف ممالک کے سوداگر یہاں کاروباری لین دین کے سلسلے میں آئے اور پھر اسی شہر کے باسی بن گئے۔ پشاور شہر میں مغلیہ اور سکھوں کے دور کی عظیم تعمیرات موجود ہیں جو آج بھی اس کی عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔ بالخصوص اندرون شہر جہاں سے سکھ اور ہندو برادریوں کی اکثریت تو قیام پاکستان کے وقت انڈیا ہجرت کرگئی مگر ان کے بیشتر مکانات اور آثار آج بھی اصل حالت میں قائم ہیں۔محکمۂ آثار قدیمہ کے مطابق پشاور فصیل شہر کی حدود میں پرانی تہذیب و تمدن کے 1844 مقامات موجود ہے جبکہ پورے پشاور میں دو ہزار آرکیالوجیکل سائٹس موجود ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ پشاور میں بہت سے اہم تاریخی مقامات کی ابھی نشاندہی ہونا باقی ہے۔لیکن اتنے شاندار تاریخی ثقافتی ورثے کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کی طرف سے موثر کوششوں کا ابھی تک فقدان ہے اور شہر میں کئی تاریخی مکانات خستہ حالی کی وجہ سے زمین بوس ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ عمارتوں کو انتظامیہ کی ناک کے نیچے راتوں رات گرایا جا رہا ہے اور محکمۂ آثار قدیمہ کی سو سالہ پرانے گھروں کو گرانے سے روکنے کے لیے لگائی گئی پابندی کی خلاف ورزی بھی ہو رہی ہے۔بوسیدہ عمارتوں کو گرانے کا سلسلہ ایک طرف، کچھ جگہوں پر زمین کی گہری کھدائی کرکے آثار قدیمہ کو نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔’زیر زمین سے کوئی چیز مل جائے تو بہت مہنگی بکتی ہے‘ نوید سلطان اندرون پشاور کے علاقے محلہ گنج کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کے گھروں کے نیچے سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ یہاں پر معمول ہے کہ پرانے مکانات کو گرانے کے بعد سونے کی تلاش میں زمین کئی کئی فٹ گہری کھودی جاتی ہے۔ نوید سلطان کے مطابق لوگوں کا خیال کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ گنج اور یکہ توت کے کئی مکانات کے نیچے کھدائی کے دوران لوگوں کو نوادرات اور زیورات ملے ہیں۔’اگر آپ کو زیر زمین اس طرح سے کوئی چیز مل جائے تو یہ پھر بہت مہنگی قیمت پر بکتی ہے۔‘
خیبر پختونخوا حکومت نے مسجد محبت خان کی بحالی کا کام بھی کیا ہے۔ (فوٹو: محکمۂ آثار قدیمہ)
اندرون پشاور کے سابق چیئرمین افضال احمد کے مطابق زمین کے نیچے خزانے کی دریافت صرف کہانی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایک ٹھیکیدار کو کھدائی کے دوران لوہے کا صندوق ملا تھا جس میں بہت سا قیمتی سامان تھا۔‘ افضال احمد نے بتایا کہ مقامی لوگوں کو قدیم عمارتوں کے نیچے پرانے قبروں کے ساتھ نوادرات اور مورتیاں بھی ملی ہیں تاہم یہ ضروری نہیں کہ ہر زمین کے نیچے سے قیمی اشیاء برآمد ہوں۔ ’لیکن لوگوں کو پھر بھی یقین ہے کہ پرانے زمانے کے لوگ مرنے سے پہلے زیورات دبا گئے تھے جو کہ زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔‘پرانے گھر گرانے والا مافیاتاہم محکمۂ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد کہتے ہیں کہ پشاور کے نیچے خزانے کی موجودگی محض ایک افسانہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’پرانے زمانوں کے لوگ تو ہم سے زیادہ غریب تھے، وہ سونا کہاں سے دبا کر گئے؟‘ ڈاکٹر عبدالصمد کے خیال میں پشاور کی زمین کے نیچے سونے کی تلاش بے وقوفی ہے۔ ’ہم نے پشاور میں 30 مختلف مقامات میں کھدائیاں کی ہیں، ہمیں کوئی خزانہ نہیں ملا۔ لیکن آثار قدیمہ کی باقیات ضرور دریافت ہوئی ہیں جس سے شہر کی تاریخی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ شہری خزانے کے لالچ میں محکمۂ آثار قدیمہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں کئی اہم تاریخی مقامات پر بھی کھدائی کی کوشش ہوئی ہے، ان مقامات پر تاریخ کے ورثے کو غیر ضروری کھدائی سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘ ڈاکٹر عبدالصمد بتاتے ہیں کہ اندرون شہر میں ایک منظم مافیا موجود ہے جو پرانے گھروں کو گرانے کے لیے سرگرم ہے، وہ خزانے کی من گھڑت باتیں پھیلا رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ شہر میں قدیم مکانات کو متاثر کرنے کے الزام میں متعدد شہریوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
پشاور میوزیم میں مختلف ادوار کی اشیا رکھی گئی ہیں۔ (فوٹو: محکمۂ آثار قدیمہ)
زمین سے نکلنے والے نوادرات کس کی ملکیت ہیں؟
پشاور میں پرانے گھروں کی کھدائی کے دوران زمین سے دریافت ہونے والے نوادرات میں زیادہ تر قدیم برتن، پیالے اور مورتیاں وغیرہ شامل ہیں۔ محکمہ آثار قدیمۂ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد کا کہنا ہے کہ ایسے تمام نوادرات ان کے محکمے کی ملکیت ہیں۔ اس حوالے سے آثار قدیمہ کے تحفظ کا قانون موجود ہے جس کے تحت زمین کی کھدائی کے دوران اگر کوئی بھی چیز کسی شہری کو ملے تو اسے سات دن کے اندر آثار قدیمہ حکام کو اطلاع دینا ہوگی بصورت دیگر انٹیکویٹی ایکٹ 2016 کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ زمین سے ملنے والے نوادرات کی اطلاع دینے پر شہری کی مرضی کے مطابق اس چیز کو رکھنے کی اجازت مل سکتی ہے تاہم آثار قدیمہ پیسوں کے عوض وہ نواردات خریدنے کا قانونی اختیار رکھتا ہے۔‘ ڈاکٹر عبدالصمد نے مزید کہا کہ پرانا پیالہ یا برتن اگر دریافت ہو جائے تو وہ ہمارے لیے سب سے زیادہ قیمتی تصور ہوتا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں شہریوں کی آگاہی کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ وہ غیرقانونی کام سے بچ سکیں۔