صدارتی محل کا دروازہ توڑنے والا ٹینک اور اجتماعی قبرستان: جب امریکہ کو ویتنام میں شکست تسلیم کر کے اپنی فوجیں نکالنی پڑیں

صرف سات دن بعد شمالی ویتنامی فوجیوں نے سائگون میں صدارتی محل کے دروازے کو توڑ دیا اور اس کے اوپر کمیونسٹ پرچم لہرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ویتنام کی جنگ ختم ہو گئی۔
ویتنام
Getty Images

23 اپریل 1975 کو جب امریکی صدر جیرالڈ روڈولف فورڈ نیو اورلینز کی ٹولین یونیورسٹی میں تقریر کرنے کے لیے سٹیج پر پہنچے تو تقریباً ایک لاکھ شمالی ویتنامی فوجی سائگون کے مضافات میں جمع تھے۔

پچھلے تین مہینوں میں وہ جنوبی ویتنام کی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔

مشرقی ایشیائی تنازعات میں امریکہ کے ملوث ہونے کے کئی دہائیوں بعد، امریکہ جو کبھی دنیا کی سپر پاور سمجھا جاتا تھا، جنگ میں اپنے 58 ہزار فوجیوں کو کھونے کے بعد شکست کے دہانے پر کھڑا تھا۔

صدر فورڈ نے اپنی تقریر میں کہا کہ 'ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری قوم ویتنام کی جنگ سے پہلے کی حالت کو بحال کر لے گی۔

'تاہم یہ اس ختم ہونے والی جنگ کو دوبارہ لڑنے سے حاصل نہیں ہو گا۔ اب متحد ہونے، قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے اور مفاہمت کی کوشش کرنے کا وقت ہے۔'

صرف سات دن بعد شمالی ویتنامی فوجیوں نے سائگون میں صدارتی محل کے دروازے کو توڑ دیا اور اس کے اوپر کمیونسٹ پرچم لہرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ویتنام کی جنگ ختم ہو گئی۔

نکسن
Getty Images

’ویتنام جنگ پر امریکی معاشرہ منقسم تھا‘

ویتنام جنگ میں بہادری کے کئی تمغے جیتنے والے سیکنڈ لیفٹیننٹ فل جویا نے اپنی سوانح عمری Danger Close!: A Vietnam Memoir میں لکھا ہے کہ ’ویت نام کی جنگ نے امریکی عوام کے دلوں کو توڑ دیا، اور یہ ملک میں گہری تقسیم کا باعث بنا۔

’خانہ جنگی کے بعد ایسی تقسیم کبھی نہیں دیکھی گئی اور ہم ابھی تک اس سے خود کو نکال نہیں پائے۔‘

ایک اور امریکی مصنف کارل مارلنٹس نے اپنی کتاب 'What It Is Like to Go to war' میں لکھا ہے کہ ’امریکی تاریخ کے اس بہت بڑے واقعے کے بارے میں بات کرنے سے امریکی اب بھی شرماتے ہیں۔ ہم نے برسوں سے اس کے بارے میں بات نہیں کی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کا باپ حد سے زیادہ شراب نوشی کرتا ہو لیکن ہم ان کے بارے میں کسی سے بات نہ کریں۔‘

مشہور کتاب 'ویتنام اے ہسٹری' کے مصنف سٹینلے کارنوف نے شمالی ویتنام کی فوج کے سربراہ جنرل وونھان جاپ سے پوچھا تھا کہ آپ کب تک امریکی فوج سے لڑتے رہتے؟ انھوں نے فوراً جواب دیا کہ ’بیس سال، شاید سو سال تک۔ جب تک ہم فتح حاصل نہیں کر لیتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس ویتنام سے تقریباً پانچ لاکھ امریکی فوجیوں کو نکالنے کی صلاحیت نہیں تھی، لیکن یہ ہمارا مقصد بھی نہیں تھا۔ ہم جنگ جاری رکھنے کے امریکی عزم کو توڑنا چاہتے تھے۔‘

ہیلی کاپٹر
Getty Images

ہیلی کاپٹروں کا بے تحاشہ استعمال

ویتنام کی جنگ کو دنیا کی پہلی ہیلی کاپٹر جنگ کہا جاتا ہے۔ پوری جنگ کے دوران امریکی ہیلی کاپٹروں نے تقریباً 36 ملین پروازیں کیں۔

انھوں نے دشمن کے سرزمین پر پروپیگنڈہ کے کتابچے گرائے اور جنگی علاقے میں فوج اہلکار اور سامان پہنچایا اور زخمیوں کو جنگی علاقوں سے ہسپتالوں تک پہنچایا۔

امریکی فضائیہ کے زخمی ہونے کی اوسط شرح سویلین فوجیوں سے زیادہ تھی۔

امریکی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ رون فیریزی نے اس بارے میں کہا کہ ’بعض اوقات ہم اتنی نیچی اور سست پرواز کرتے کہ ہمیں دشمن کی نظریں بھی دکھ جاتیں۔ میرا کام خود پر حملہ کروانا ہوتا تھا تاکہ ہم یہ معلوم کر سکیں کہ دشمن کہاں چھپا ہوا ہے۔ کھی سانہ (ویتنامی علاقہ) پر قبضے کے دوران، ہم نے بعض اوقات اتنی نچلی پروازیں کیں کہ دشمن ہمیں نشانہ بنانے سے بھی قاصر تھا۔‘

ویتنام
Getty Images

لاشوں کا اجتماعی قبرستان

مارچ 1968 میں 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کے سیکنڈ لیفٹیننٹ فل جویا نے ہیو شہر پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد دریائے پرفیوم کے ساتھ اپنی پلاٹون کے ساتھ مارچ کیا۔

وہ اس علاقے میں دشمن کے پیچھے چھوڑے گئے ہتھیاروں کی تلاش میں تھے۔ پھر جویا کے سارجنٹ روبن ٹوریس نے زمین سے کچھ نکلتے ہوئے دیکھا۔

اس نے سوچا کہ یہ کسی درخت کی جڑ ہے۔۔۔ لیکن یہ کسی کی کہنی نکلی۔

امریکی فوجیوں نے فوراً زمین کھودنے کا سامان نکالا اور وہاں زمین کھودنا شروع کر دی۔ کچھ ہی دیر میں پورا علاقہ سڑے ہوئے گوشت کی بدبو سے بھر گیا۔

بدبو اتنی شدید تھی کہ کھدائی کرنے والے لوگوں کو الٹیاں ہونے لگیں۔

فل جویا لکھتے ہیں کہ ’پہلے تو ہم نے سوچا کہ ہمیں وہ جگہ مل گئی ہے جہاں بھاگنے والے دشمن نے اپنے مردہ ساتھیوں کو دفن کیا تھا، لیکن جب ہمیں پہلی لاش ملی تو وہ ایک خاتون کی تھی۔ اس نے سفید بلاؤز اور کالی پینٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ اس کی پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ اسے سر کے پچھلے حصے میں گولی ماری گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک بچے کی لاش بھی تھی۔‘

تب ہی معلوم ہوا کہ یہ دشمنوں کی لاشیں نہیں ہیں۔ جوئیہ اور ان کے ساتھیوں کو اس جگہ سے مردوں، خواتین اور بچوں کی کُل 123 لاشیں ملیں‘

اگلے چند مہینوں میں مزید اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جن میں تقریباً 2800 کیتھولک پادریوں، بدھ راہبوں، شہریوں اور کینیڈا، فلپائن اور امریکہ کے رضاکار کارکنوں کی لاشیں تھیں۔

شمالی ویتنامی حکومت نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی کہ اس نے ہیو میں غیرملکی شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ بعد میں شواہد سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے بعد قتل کیا گیا۔

لوگوں کو سبق سکھانے کے لیے کچھ لوگوں کو سرعام قتل کیا گیا جبکہ کچھ کو تنہائی میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔

سر پر گولی لگنے سے ویتنامی جاسوس ہلاک

خبررساں ادارے اے پی کے فوٹوگرافر ایڈی ایڈمز ویتنام جنگ کے دوران سائگون کی سڑکوں سے گزر رہے تھے جب انھوں نے دیکھا کہ جنوبی ویتنام کے فوجی شارٹس اور چیک کی قمیض پہنے ایک شخص کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس کے ہاتھ اس کی پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ اس پر تشدد کیا گیا ہے۔

اس شخص کا نام نگوئن وین لیم تھا۔ وہ نیشنل لبریشن فرنٹ کا ایجنٹ تھا۔

جیفری وارڈ اور کین برنز اپنی کتاب ’دی ویتنام وار این انٹیمیٹ ہسٹری‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جنوبی ویتنام کی نیشنل پولیس کے نگوین گاؤک لون نے اپنے ایک سپاہی کو قیدی وین لیم کو گولی مارنے کا حکم دیا، جب سپاہی نے ہچکچاہٹ کی تو لون نے اپنا پستول نکالا اور وین لیم کے سر میں گولی مار دی۔‘

پھر اس نے اے پی کے فوٹوگرافر ایڈی ایڈمز کو بتایا جو اس کے ساتھ تھے کہ اس شخص اور اس کے ساتھیوں نے میرے اور تمھارے بہت سے آدمیوں کو قتل کیا ہے۔

US
Getty Images

تصویر جس نے جنگ کا ماحول بدل دیا

وائٹ ہاؤس کو توقع تھی کہ اگلے دن کے اخبارات جنرل ویسٹ مورلینڈ کی پریس کانفرنس کی خبروں سے بھرے ہوں گے، لیکن اگلے دن کے اخبارات کے صفحہ اول پر ایڈمز کی تصویر تھی جس میں وین لیم کو گولی مار دی گئی تھی۔

جیسا کہ پروفیسر سیموئل ہائنس نے بعد میں کہا کہ فوٹو گرافر اس وقت بہت قریب کھڑا تھا جب اس شخص کو گولی ماری گئی۔

جیسے ہی افسر نے اپنے پستول کا ٹریگر دبایا، اس نے اپنے کیمرے سے تصویر کھینچ لی۔

تصویر اتنی واضح تھی کہ آپ دیکھ سکتے تھے کہ جس جگہ سے گولی نکلنے والی تھی اس شخص کا سر پھول گیا تھا۔

لاکھوں امریکیوں نے اس تصویر کو دیکھا اور سوال پوچھنا شروع کر دیا کہ کیا وہ غلط سائیڈ کی حمایت کر رہے ہیں۔

بعد ازاں امریکی وزیر خارجہ ڈین رسک نے فوٹوگرافر کو تصویر لینے اور شائع کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

انھوں نے کہا کہ ایک ہاتھ بندھے قیدی کا سرعام قتل کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ اسے اس طرح دکھایا جائے۔

جنوبی ویتنام کے ایک رہنما فان کوانگ ٹو نے بعد میں اعتراف کیا کہ ’ہم نے اس تصویر کی بھاری قیمت ادا کی، کیونکہ اس نے امریکی عوام کو حیران کر دیا کہ ہمیں اپنے پیسے ایسے لوگوں پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے جن کے نظام نے یہ سب کچھ ہونے دیا۔‘

نیپالم بموں سے ہونے والی تباہی

آٹھ جون 1972 کو اسوسی ایٹڈ پریس کے لیے 21 سالہ جنوبی ویتنامی فوٹوگرافر نک جنوبی ویتنامی فوجیوں کے ساتھ ہائی وے نمبر 1 پر چل رہے تھے۔

یہ فوجی شمالی ویتنامی فوجیوں کو ہٹانے کے لیے ٹرانگ بانگ گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے جو ایسٹر کے بعد سے وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔

نک اپنا کیمرہ بند کرنے اور سائگون واپس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ جنوبی ویتنام میں ایک طیارے نیچی پرواز کرتے ہوئے فرار ہونے والے پناہ گزینوں پر بم گرا رہا ہے۔

جب گاؤں پر نیپلم بم گر رہے تھے، نک نے اپنا کیمرہ آن کیا اور تصویریں بنانا شروع کر دیں۔

پھر اس نے دیکھا کہ اٹھتے ہوئے سیاہ دھوئیں کے درمیان کچھ بچے اس کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اس میں ایک لڑکی بھی تھی جس کے سارے کپڑے جل گئے تھے۔ نک تصاویر بناتے رہے۔

vietnam
Getty Images

’جب لڑکی فوٹوگرافر کے قریب پہنچی تو اس نے بھاگنا چھوڑ دیا‘

جیفری وارڈ اور کین برنز لکھتے ہیں کہ ’جب لڑکی نک کے قریب پہنچی تو اس نے بھاگنا چھوڑ دیا اور ویتنامی میں چیخنا شروع کر دیا ’بہت گرمی ہے، بہت گرمی ہے۔ میری مدد کرو، میری مدد کرو!‘ اس کی پیٹھ جل رہی تھی اور نک نے ایک جنوبی ویتنام کے فوجی سے رین کوٹ لیا اور اس کے جسم کو ڈھانپ دیا۔‘

وہاں موجود بی بی سی کا ایک رپورٹر دوڑ کر اس کے لیے پانی لے آیا۔ نک یہ دیکھنے کے لیے اے پی کے ڈارک روم میں گیا کہ اس نے کیا تصویر بنائی ہے لیکن جب اس کے فوٹو ایڈیٹر نے تصویریں دیکھیں تو اس نے انھیں آگے بھیجنے سے انکار کر دیا کیونکہ تصویروں میں موجود لڑکی کے کپڑے مکمل طور پر جل چکے تھے۔

جب نک کے باس ہورسٹ فاس نے تصاویر دیکھیں تو اس نے فوٹو ایڈیٹر کے مشورے کے خلاف نیویارک میں اے پی کے ہیڈ کوارٹر کو تصاویر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ نک کی وہ تصویر دنیا کے تمام بڑے اخبارات کے صفحۂ اول پر شائع ہوئیں۔ یہی نہیں اس تصویر کو اسی سال ’پلٹزر انعام‘ بھی ملا تھا۔

اس تصویر کا اثر یہ ہوا کہ جو لوگ اس وقت جنگ کی حمایت کر رہے تھے وہ یہ ماننے لگے کہ اب یہ لڑائی ختم ہو جانی چاہیے۔

Us
Getty Images

’آپریشن فریکوینٹ ونڈ‘

29 اپریل 1975 کو جب شمالی ویتنام کی افواج سائگون میں داخل ہوئیں تو وہاں موجود امریکی سفارت خانے نے اپنے عملے کو نکالنے کے لیے 'آپریشن فریکوینٹ ونڈ' شروع کیا۔

اگلے 18 گھنٹوں کے دوران، بحریہ کے 70 ہیلی کاپٹروں نے طیارہ بردار بحری جہاز اور شہر کے درمیان مسلسل پروازیں کیں، جس سے ایک ہزار سے زیادہ امریکیوں اور چھ ہزار ویتنامیوں کو امریکی سفارت خانے کے احاطے سے طیارہ بردار بحری جہاز تک پہنچایا گیا۔

سٹینلے کارنوف نے اپنی کتاب 'ویتنام اے ہسٹری' میں لکھا ہے کہ 'یہ آپریشن کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ابتدائی طور پر منصوبہ یہ تھا کہ لوگوں کو مقررہ وقت پر سائگون کے مختلف مقامات سے بسوں کے ذریعے اٹھا کر ہیلی پیڈز پر لے جایا جائے گا۔ لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔'

وہ لکھتے ہیں کہ 'وہاں، ہزاروں لوگوں کے ہجوم نے فرار ہونے کی امید میں بسوں کو گھیر لیا۔ ان کے درمیان ایک افواہ پھیل گئی کہ شمالی ویتنام کی فوج جلد ہی ان پر گولہ باری شروع کرنے والی ہے، جس سے ان کے خوف میں مزید اضافہ ہو گیا۔

'جبکہ حقیقت یہ تھی کہ شمالی ویتنام کے فوجی جان بوجھ کر گولیاں نہیں چلا رہے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لوگوں کو اس طرح مار کر انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔'

جنوبی ویتنام میں امریکی سفیر گراہم مارٹن نے آخری لمحات تک اپنا سامان سفارت خانے سے باہر نہیں منتقل کیا۔ وہ سائگون چھوڑنے والے آخری امریکی بننا چاہتا تھا۔

لیکن صبح جب ایک ہیلی کاپٹر سفارت خانے کی چھت پر اترا تو یہ صدر فورڈ کی طرف سے سفیر کے لیے ایک پیغام لے کر آیا، جس میں مارٹن کو فوری طور پر سائگون چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

’میں صبح سے آپ کو اقتدار منتقل کرنے کا منتظر تھا‘

ایک سپاہی نے سیڑھیاں چڑھ کر صدارتی محل کی بالکونی پر سرخ اور پیلے رنگ کا ویت کانگ کا جھنڈا لہرایا۔

کالے سوٹ میں ملبوس جنرل من اور ان کی کابینہ کے ارکان دوسری منزل پر ایک بڑے کمرے میں کھڑے تھے۔

سٹینلے کارنوف لکھتے ہیں کہ ’کرنل بوئی ٹن ایک ٹینک پر سوار صدارتی محل کے صحن میں داخل ہوئے۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو جنرل من نے ان سے کہا، ’میں صبح سے انتظار کر رہا ہوں کہ آپ کو اقتدار منتقل کیا جائے۔‘

کرنل بوئی ٹن نے جواب دیا کہ ’آپ سے اقتدار کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ ایسی چیز نہیں دے سکتے جو آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘

اسی دوران باہر فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ جنرل من کے کچھ وزرا خوفزدہ ہو کر زمین پر لیٹ گئے۔ اس موقع پر کرنل بوئی ٹن نے مختصر تقریر کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان گولیوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لوگ صرف اس جیت کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم میں سے کوئی جیتنے والا اور کوئی ہارنے والا نہیں ہے۔ صرف امریکی ہارے ہیں۔ اگر آپ محب وطن ہیں تو اسے خوشی کا موقع سمجھیں۔‘

جلد ہی فاتحین نے سائگون کا نام بدل کر ہو چی من سٹی رکھ دیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.