ضلع پاکپتن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے نے ایک بار پھر سرکاری نظامِ صحت پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ صرف ایک ہفتے کے دوران 20 نومولود بچوں کی اموات نے نہ صرف علاقے میں خوف اور غم کی فضا پیدا کی، بلکہ پورے صوبے میں نظام صحت کی کارکردگی پر تشویش بڑھا دی ہے۔
یہ سانحہ 16 سے 22 جون کے دوران پیش آیا، جس میں کمزور طبی سہولیات، مبینہ غفلت اور بروقت علاج نہ ملنے کو بچوں کی جانوں کے ضیاع کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ صرف 19 جون کو پیڈیایٹرک وارڈ میں پانچ بچے دم توڑ گئے، جس نے صورتحال کی سنگینی کو نمایاں کر دیا۔
ابتدائی معلومات کے مطابق جاں بحق ہونے والے بیشتر بچے پہلے ہی نازک حالت میں اسپتال لائے گئے تھے، جن میں سے کچھ نجی اسپتالوں سے ریفر ہوئے جبکہ چند کی پیدائش گھروں میں ہوئی۔ مگر والدین اور لواحقین نے ذمہ داری براہ راست اسپتال انتظامیہ اور عملے پر ڈال دی ہے—ان کے مطابق بچوں کو بروقت آکسیجن نہیں ملی، عملے کی لاپروائی نمایاں تھی اور وارڈز میں بنیادی سہولیات تک موجود نہیں تھیں۔
واقعے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کمشنر ساہیوال کی ہدایت پر ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں محکمہ صحت اور ساہیوال ٹیچنگ اسپتال کے نمائندے شامل ہیں۔ کمیٹی نے انکوائری مکمل کر لی ہے اور اپنی رپورٹ 2 جولائی کو پیش کرے گی، جس سے یہ تعین ہو سکے گا کہ اصل کوتاہی کہاں اور کس سطح پر ہوئی۔
ادھر ضلعی انتظامیہ نے بھی تاخیر سے سہی، لیکن کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ متعدد غیر رجسٹرڈ نجی اسپتالوں کو سیل کیا گیا ہے، جو بغیر کسی ضابطے اور نگرانی کے کام کر رہے تھے۔
یہ واقعہ نہ صرف ان والدین کے لیے ناقابل تلافی صدمہ ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو کھویا، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک الارم ہے کہ صحت کے نظام میں موجود خامیاں اب جان لیوا صورت اختیار کر رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ تحقیقاتی رپورٹ محض رسمی کارروائی تک محدود رہتی ہے یا واقعی کسی بہتری کا آغاز بنتی ہے۔