صوبہ پنجاب کے محکمہ تعمیرات کے مختلف ڈویژن کی جانب سے کنٹریکٹرز کو کروڑوں روپے کی اضافی ادائیگیاں کی گئیں ہیں جس کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ ادائیگیاں سرکاری افسران اور کنٹریکٹرز کی ملی بھگت سےہوئی ہیں جس کے ذریعے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا ہے۔
آڈیٹرز جنرل آف پاکستان کی رپورٹ 2024.25 میں محکمہ تعمیرات پنجاب کے مختلف ٹھیکوں میں بڑے پیمانے پر مبینہ ہیر پھیر کی نشاندہی کی گئی ہے جب کہ ہیر پھیر کے ذمہ دارا ن کا تعین کرکے ان سے لوٹی گئی رقم واپس لینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ میں محکمہ تعمیرات فیصل آباد ڈویژن کے 13 مختلف کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں کنٹریکٹرز کو بہت زیادہ ریٹ دیے گئے لیکن یہ ریٹ کس بنیاد پر دیے گئے اس کا ریکارڈ دستیاب نہیں۔ ان تمام کیسز میں 33 کروڑ روپے سے زائد کی اوور پے منٹ کی گئی ہے۔
اسی طرح محکمہ تعمیرات شیخوپورہ ڈویژن میں کنٹریکٹر کی جانب سے اسٹیل کےاضافی مقدار کی استعمال ظاہر کر کے 8 کروڑ 63 لاکھ روپے وصول کیے گئے۔ محکمہ تعمیرات ایگزیکٹیو انجینئر 5 کے ٹھیکوں میں 7 مختلف کیسز میں بے ضباطگیاں سامنے آئی ہیں جس میں اسٹیل، سیمنٹ، ڈیزل اور مزدوروں کی مد میں اخراجات میں مبینہ ہیر پھیر کرکے 8 کروڑ 43 لاکھ روپے زیادہ خرچ ظاہر کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔
محکمہ تعمیرات کے ایگزیکٹیو انجنیئر 6 کے ٹھیکوں میں 14 مختلف کیسز سامنے آئے ہیں جس میں المونیم ونڈوز ،ٹائلز ورک، ووڈ ورک، اینٹوں میں مارکیٹ سے زیادہ نرخ لگا کر کنٹریکٹرز کو 8 کروڑ 4 لاکھ روپے دیے گئے۔ شیخوپورہ ڈویژن میں شٹرنگ اور آر سی سی ورک میں 3 کروڑ 48 لاکھ روپے کی اضافی ادائیگی کی گئی۔ شیخوپورہ ،فیصل آباد اور اکاوڑہ میں ایکسویٹر کے استعمال میں ٹھیکدار وں کو 3 کروڑ 8 لاکھ روپے کی اضافی ادائیگی کی گئی۔
لاہور اور شیخوپورہ ڈویژن میں بجری کیرانہ ہلز سرگودھا سے ظاہر کیا گیا جس کا فاصلہ 195 سے 210 کلومیٹر ہے حالانکہ اس کا مختصر راستہ 175 سے 186 کلومیٹر بھی تھا، طویل راستہ ظاہر کرکے 93 لاکھ روپے زیادہ وصول کیے گئے۔ گوجرانوالہ ڈویژن میں الیکٹریکل آئٹمز میں کنٹریکٹرز کو 20 فیصد منافع دیا گیا جو قانون کے مطابق 12.5 فیصد ہونا چاہیے تھا، زیادہ ادائیگی کرکے کنٹریکٹر 71 لاکھ روپے کا منافع دیا گیا، مظفر گڑھ ڈویژن میں اسٹیل کی زیادہ مقداد ظاہر کرکے 55 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں لاہور ڈویژن میں پلاسٹر آف پیرس کے استعمال اور سیلنگ کے کام کا ایک معاملہ بھی سامنے آیا ہے جس میں 75 روپے فی اسکوائر فٹ منظور کیا گیا تھا لیکن 225 روپے فی اسکوائر فٹ دیا گیا اور ٹھیکدار کو 34 لاکھ روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔ ملتان میں ایک کنٹریکٹر کام مکمل نہ کرسکنے کی وجہ سے ڈیفالٹ کرگیا جس پر بقیہ کام دوسرے کنٹریکٹر کو دیا گیا، پہلے کنٹریکٹر سے 12 کروڑ 76 لاکھ روپے وصول ہونے ہیں لیکن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے صرف 4 کروڑ روپے وصول کیے جاسکے ہیں لیکن 2 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود کنٹریکٹر سے 8 کروڑ 76 لاکھ روپے وصو ل نہیں کیے جاسکے۔
میانوالی میں جاری ترقیاتی کام میں ٹھیکیدار نے ظاہر کیا کہ سکھن والی سے پتھر لائے گئے جو سائٹ سے 136 کلو میٹر دور ہے حالانکہ قریب میں 21 کلومیٹر موسیٰ خیل کی کان سے منظوری دی گئی تھی ٹھیکیدار کو دور سے پتھر سپلائی ظاہر کرنے پر ایک کروڑ 13 لاکھ روپے سے زائد کی غیر قانونی ادائیگی کی گئی جس پر آڈٹ رپورٹ میں اعتراض لگا کر حکام کو فوری اقدامات کی سفارش کی ہے۔