ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز جیسے بین الاقوامی ایونٹ میں جب سب کی نظریں ایک سنسنی خیز پاک بھارت سیمی فائنل کی منتظر تھیں، بھارتی ٹیم نے ایک بار پھر اپنی پرانی روش دہراتے ہوئے میدان سے بھاگنے کا فیصلہ کرلیا۔ پاکستان کے خلاف نہ صرف گروپ میچ کھیلنے سے انکار کیا گیا بلکہ اب سیمی فائنل سے بھی پیچھے ہٹ گئی، بھارتی انکار کے بعد شاہینوں کو واک اوور مل گیا اور وہ فائنل میں پہنچ گئے۔
یہ محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ برسوں سے جاری اس رویے کا تسلسل ہے جس میں بھارت کسی بھی سطح پر پاکستان سے کھیلنے سے کتراتا رہا ہے. چاہے وہ دو طرفہ سیریز ہو، آئی سی سی کا ایونٹ یا اب لیجنڈز کی نمائشی چیمپئن شپ۔ ہر بار ’سیاست‘ کو جواز بنایا جاتا ہے، لیکن اصل میں یہ کرکٹ کی روح کو کچلنے کے مترادف ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی ٹیم کی بزدلی کو مزید تقویت اس وقت ملی جب ٹورنامنٹ کے مرکزی اسپانسر نے بھی میچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اسپانسر کمپنی کے سربراہ نشہات پیٹی نے ’ایکس‘ پر ٹوئٹ کیا کہ "پاکستان کے خلاف شیڈول سیمی فائنل صرف ایک اور میچ نہیں ہے، بطور اسپانسر کمپنی ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان ڈبلیو سی ایل میچ سے دستبردار ہو رہے ہیں، کچھ چیزیں کھیل سے بڑھ کر ہوتی ہیں، پہلے قوم، بعد میں کاروبار"
البتہ کرکٹ کے شائقین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق اصل حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے لیے پاکستان سے ٹکرانا اب صرف میدان کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ ہر پلیٹ فارم پر راہ فرار اختیار کرنا گویا قومی پالیسی بنتی جا رہی ہے۔ یہاں نہ جذبہ ہے، نہ برداشت، نہ ہی وہ حوصلہ جس کی توقع ایک کرکٹنگ لیجنڈ ٹیم سے کی جاتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ پاکستان کو واک اوور ملے گا یا نہیں، سوال یہ ہے کہ بھارت آخر کب تک کرکٹ کو اپنی ضد، تکبر اور سیاسی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھاتا رہے گا؟ جب دنیا کرکٹ کو دوستی اور یکجہتی کا ذریعہ بنا رہی ہے، بھارت کا یہی رویہ اسے تنہا کرنے کے لیے کافی ہے۔
اگر یہی طرز عمل جاری رہا تو تاریخ یہی یاد رکھے گی کہ ایک ٹیم تھی جو ہر بڑے مقابلے سے پہلے میدان سے غائب ہو جاتی تھی. کیونکہ اسے ہار سے نہیں، پاکستان سے ڈر لگتا تھا۔