وَقَالَ :سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى ، وَكَانَ أَصْحَابُهُ يُعَظِّمُونَهُ ، فَذَكَرُوا لَهُ ، فَذَكَرَ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ ، فَحَدَّثْتُ بِحَدِيثِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ : فَضَمَّزَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِهِ ، قَالَ مُحَمَّدٌ : فَفَطِنْتُ لَهُ ، فَقُلْتُ : إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ فَاسْتَحْيَا ، وَقَالَ : لَكِنْ عَمُّهُ لَمْ يَقُلْ ذَاكَ ، فَلَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ ، فَسَأَلْتُهُ ، فَذَهَبَ يُحَدِّثُنِي حَدِيثَ سُبَيْعَةَ ، فَقُلْتُ : هَلْ سَمِعْتَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِيهَا شَيْئًا ؟ فَقَالَ : كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ : أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ وَلَا تَجْعَلُونَ عَلَيْهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4 .
اور سلیمان بن حرب اور النعمان نے بیان کیا، کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے اور ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں ایک مجلس میں جس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے موجود تھا۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت الحارث کا عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے بیان کیا کہ اس پر ان کے شاگرد نے زبان اور آنکھوں کے اشارے سے ہونٹ کاٹ کر مجھے تنبیہ کی۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔ اگر میں ان کی طرف بھی جھوٹ نسبت کرتا ہوں تو بڑی جرات کی بات ہو گی مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب اس پر شرمندہ ہو گئے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا لیکن ان کے چچا تو یہ بات نہیں کرتے تھے۔ ( ابن سیرین نے بیان کیا کہ ) پھر میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا وہ بھی سبیعہ والی حدیث بیان کرنے لگے لیکن میں نے ان سے کہا آپ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو انہوں نے کہا کیا تم اس پر ( جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور وہ حاملہ ہو۔ عدت کی مدت کو طول دے کر ) سختی کرنا چاہتے ہو اور رخصت و سہولت دینے کے لیے تیار نہیں، بات یہ ہے کہ چھوٹی سورۃ نساء یعنی ( سورۃ الطلاق ) بڑی سورۃ النساء کے بعد نازل ہوئی ہے اور کہا «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» الایۃ اور حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔