It was narrated from Muhammad bin 'Abdur-Rahman bin Thawban that they asked Fatimah bint Qais about her story and she said:
My husband divorced me three times, and he used to provide me with food that was not good. She said: By Allah, if I were entitled to maintenance and accommodation I would demand them and I would not accept this. The deputy said: You are not entitled to accommodation or maintenance. She said: I came to the Prophet and told him about that, and he said: 'You are not entitled to accommodation nor maintenance; observe your 'Iddah in the house of so-and-so.' She said: 'His Companions used to go to her.' Then he said: 'Observe your 'Iddah in the house of Ibn Umm Maktum, who is blind, and when your 'Iddah is over, let me know.' She said: When my 'Iddah was over, I let him know. The Messenger of Allah said: 'Who has proposed marriage to you?' I said: 'Mu'awiyah and another man from the Quraish.' He said: 'As for Mu'awiyah, he is a boy among the Quraish and does not have anything, and as for the other he is a bad man with no goodness in him. Rather you should marry Usamah bin Zaid.' She said: I did not like the idea. But he said that to her three times so she married him.
أَخْبَرَنِي حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنِ الْحَارِثِ بن عبد الرحمن، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، أَنَّهُمَا سَأَلَا فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، عَنْ أَمْرِهَا ؟ فَقَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، فَكَانَ يَرْزُقُنِي طَعَامًا فِيهِ شَيْءٌ فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ كَانَتْ لِي النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لَأَطْلُبَنَّهَا وَلَا أَقْبَلُ هَذَا فَقَالَ الْوَكِيلُ: لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: لَيْسَ لَكِ سُكْنَى وَلَا نَفَقَةٌ، فَاعْتَدِّي عِنْدَ فُلَانَةَ، قَالَتْ: وَكَانَ يَأْتِيهَا أَصْحَابُهُ، ثُمَّ قَالَ: اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ أَعْمَى، فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ آذَنْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَنْ خَطَبَكِ ؟ فَقُلْتُ: مُعَاوِيَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا مُعَاوِيَةُ، فَإِنَّهُ غُلَامٌ مِنْ غِلْمَانِ قُرَيْشٍ لَا شَيْءَ لَهُ وَأَمَّا الْآخَرُ، فَإِنَّهُ صَاحِبُ شَرٍّ لَا خَيْرَ فِيهِ، وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ، قَالَتْ: فَكَرِهْتُهُ، فَقَالَ لَهَا ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَنَكَحَتْهُ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے ان کے معاملہ کے متعلق پوچھا ( کہ کیسے کیا ہوا؟ ) تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں اور کھانے کے لیے مجھے جو خوراک دینے لگے اس میں کچھ خرابی تھی ( اچھا نہ تھا ) تو میں نے کہا: اگر نفقہ اور سکنی میرا حق ہے تو اسے لے کر رہوں گی لیکن میں یہ ( ردی سدی گھٹیا کھانے کی چیز ) نہ لوں گی، ( میرے شوہر کے ) وکیل نے کہا: نفقہ و سکنی کا تمہارا حق نہیں بنتا۔ ( یہ سن کر ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے اس ( بات چیت ) کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ” ( وہ سچ کہتا ہے ) تیرے لیے نفقہ و سکنی ( کا حق ) نہیں ہے ۱؎، تم فلاں عورت کے پاس جا کر اپنی عدت پوری کر لو“ ۲؎ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ان کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آتے جاتے رہتے تھے۔ ( پھر کچھ سوچ کر کہ وہاں رہنے سے بےپردگی اور شرمندگی نہ ہو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے یہاں رہ کر اپنی عدت پوری کر لو کیونکہ وہ نابینا ہیں ۳؎، پھر جب ( عدت پوری ہو جائے اور ) تو دوسروں کے لیے حلال ہو جاؤ تو مجھے آگاہ کرو“، چنانچہ جب میں حلال ہو گئی ( اور کسی بھی شخص سے شادی کرنے کے قابل ہو گئی ) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باخبر کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کس نے شادی کا پیغام دیا ہے؟“ میں نے کہا: معاویہ نے، اور ایک دوسرے قریشی شخص نے ۴؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہا معاویہ تو وہ قریشی لڑکوں میں سے ایک لڑکا ہے، اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، رہا دوسرا شخص تو وہ صاحب شر اور لاخیرا ہے ( اس سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے ) ۵؎، ایسا کرو تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو“ فاطمہ کہتی ہیں: ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تو لیکن وہ مجھے جچے نہیں ) میں نے انہیں پسند نہ کیا، لیکن جب آپ نے مجھے اسامہ بن زید سے تین بار شادی کر لینے کے لیے کہا تو میں نے ( آپ کی بات رکھ لی اور ) ان سے شادی کر لی۔