فضلہ کہتے ہیں کہ چوں کہ ان طیاروں کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی لیے بعض ممالک ان طیاروں کی سکیورٹی پر سمجھوتہ کر کے اُنھیں دیر تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔
سی 130 کے گر کر تباہ ہونے کا ذکر ہو تو پاکستان میں اکثر لوگوں کو 17 اگست 1988 کا وہ دن یاد آ جاتا ہے جب سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق ایسے ہی ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
بہاولپور کے قریب پیش آنے والے اس مبینہ فضائی حادثے میں صدر جنرل ضیا الحق، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر رحمان، امریکی سفیر آرنلڈ لوئس رافل سمیت 30 کے قریب افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
11 نومبر کو ترکی میں ایک ایسا ہی حادثہ پیش آیا۔۔۔ جب ترک ایئر فورس کا سی 130 طیارہ جارجیا میں گر کر تباہ ہو گیا۔۔۔ اس میں جان کی بازی ہارنے والے 20 فوجیوں کے ساتھ ساتھ اس ٹرانسپورٹ طیارے کی تاریخ پر بھی بات شروع ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ یہ طیارہ کیسے اور کیوں تباہ ہوا جبکہ ماضی میں پیش آنے والے حادثات کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔
بی بی سی ترکی نے کئی ایوی ایشن ماہرین اور یہ طیارہ بنانے والی امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر محفوظ سمجھے جانے والے اس طیارے کی تباہی کے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔

اس حادثے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
ترکی کی وزارت برائے نیشنل ڈیفینس نے 13 نومبر کو اس حادثے سے متعلق تفصیلی بیان جاری کیا تھا۔
بیان کے مطابق سی 130 ای ٹائپ طیارے نے 11 نومبر کو ترکی کے قیصری ہوائی اڈے سے صبح نو بجے اُڑان بھری۔ طیارے نے 11 بجے آذربائیجان کے صوبے گانجا کے ہوائی اڈے پر لینڈنگ کی۔
طیارے نے اُسی روز ترکی واپس آنے کے لیے اُڑان بھری۔ اس میں آذربائیجان کیوکٹری ڈے پریڈ کے دوران ایف سولہ طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے آنے والی ٹیم کے ارکان بھی تھے۔ طیارے میں مجموعی طور پر 20 افراد سوار تھے۔
طیارے نے آخری ریڈیو رابطہ تبلیسی ایئر ٹریفک کنٹرول سینٹر سے دوپہر 1:50 پر کیا۔ حادثے کی اطلاع دوپہر دو بج کر 34 منٹ پر دی گئی۔
جارجیا میں سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم طیارے کی تباہی کے مقام پر سہ پہر تین بج کر دو منٹ پر پہنچی۔
بلیک باکس کو 13 نومبر کو انقرہ لایا گیا تھا۔
14 نومبر کو جان کی بازی ہارنے والے فوجیوں کے لیے منعقدہ تقریب کے بعد ان کی میتیں ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کر دی گئیں۔
سی 130 کیسا طیارہ ہے؟
سی-130 چار انجن والے ملٹری ٹرانسپورٹ طیارے ہیں جو کارگو اور فوجیوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے تیار کردہ طیارے فوجی سازو سامان، اہلکار، گولہ بارود اور یہاں تک کے ٹینکس لیجانے کے کام بھی آتے ہیں۔ یہ طیارے پیرا ٹروپرز اور پیراشوٹ لوڈ ڈراپنگ مشن کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
بی بی سی ترکی سے بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ ایئر پائلٹ بریگیڈیئر جنرل ڈاکٹر حسین فضلہ نے کہا کہ شہری کارگو طیاروں سے سی-130 کا فرق اس کی پائیداری، جنگی ماحول کے لیے موزوں اور مشکل سطحوں (گھاس، مٹی، صحرا، برف) پر اترنے اور ٹیک آف کرنے کی صلاحیت ہے۔

سی 130 کو امریکہ نے پہلی مرتبہ 1951 میں متعارف کرایا۔ پرواز کا ٹیسٹ رن 1954 میں ہوا جبکہ اسے 1964 میں ترک فضائیہ میں شامل کیا گیا۔
ترکی میں پہلا سی 130 طیارہ 1968 میں اکیسر کے علاقے میں گر کر تباہ ہوا۔ اس واقعے میں سات فوجیوں کی جانیں گئیں۔
حسین فضلہ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے 1980 اور 2013 کے درمیان فضائیہ میں اپنے وقت کے دوران کبھی کسی حادثے کا مشاہدہ نہیں کیا۔
اُن کے بقول اس کے بارے میں مشہور تھا کہ ’یہ وہ طیارہ ہے جو کبھی تباہ نہیں ہوتا۔‘
ترکی کی وزارت برائے نیشنل ڈیفینس کے مطابق 12 نومبر سے سی 130 طیاروں کی پروازیں معطل کر دی گئی ہیں۔
تجربہ کار پائلٹ فضلہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اس کی اصل وجہ تلاش نہیں کی جاتی یہ درست فیصلہ ہے۔
سی 130 طیارے کب تک قابلِ استعمال ہیں؟
فضائیہ کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل فضلہ کا کہنا ہے کہ لڑاکا طیاروں کے لیے ایک عام ’ڈیزائن لائف‘ ہے۔
مثال کے طور پر ایف-16 جیٹ طیارے آٹھہزار سے 12 ہزار گھنٹے تک اُڑان بھر سکتے ہیں۔ تاہم نقل و حمل کے لیے مخصوص طیاروں اور سٹریٹجک بمباروں کے لیے ایسی کوئی حد نہیں ہے۔
فضلہ کہتے ہیں کہ چوں کہ ان طیاروں کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی لیے بعض ممالک ان طیاروں کی سکیورٹی پر سمجھوتہ کر کے اُنھیں دیر تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان طیاروں کو وقتاً فوقتاً دیکھ بھال اور پرزوں کی تبدیلی کے ذریعے استعمال میں رکھا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان معائنوں کے دوران ’ونگ ٹو باڈی جنکشن عام طور پر سب سے کمزور پوائنٹ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے نازک حصوں میں دراڑیں ہیں، تو مرمت یا تبدیلی کی جاتی ہے۔‘
گر کر تباہ ہونے والے طیارے کو انوینٹری میں کب شامل کیا گیا؟
وزارت قومی دفاع نے اعلان کیا کہ گر کر تباہ ہونے والا طیارہ 21 جنوری 2012 کو سعودی عرب سے خریدا گیا تھا اور دیکھ بھال کے بعد 2014 میں اسے انوینٹری میں شامل کیا گیا۔
وزارت کے حکام نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ سعودی عرب نے اس طیارے کو ناقابل استعمال قرار دیا تھا۔ اُن کے بقول سعودی عرب نے اسے فروخت کیا تھا، کیونکہ یہ اُن کی ضرورت سے زیادہ تھا۔
وزارت کا کہنا تھا کہ طیارے کو سنہ 2022 میں مرمت کے بعد دوبارہ استعمال میں لایا گیا۔
بی بی سی ترکی نے مزید تفصیلی معلومات کے لیے وزارتِ دفاع سے رابطہ کیا لیکن اسے بتایا گیا کہ پریس کو عام بریفنگ کے علاوہ کوئی تبصرہ نہیں دیا جائے گا۔
طیارے کو جدید کیسے بنایا گیا؟
بی بی سی ترکی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے، دفاع اور ہوابازی کے ایڈیٹر تولگا ازبیک نے کہا کہ سی-130 ماڈل کے طیاروں کی جدید مسافر طیاروں کی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
اُن کے بقول اس میں نئی سکرینز کے ساتھ ساتھ کاک پٹ کی ڈیجیٹائزیشن شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر یہ دعوے کیے گئے تھے کہ طیارے کی دیکھ بھال انگلینڈ میں کی گئی تھی۔
ترکی نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ اس نے برطانیہ سے 12 سیکنڈ ہینڈ C-130 J قسم کے طیارے خریدے ہیں۔
یہ طیارے کیمبرج میں قائم مارشل ایرو سپیس کے ذریعے پرواز کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔
مارشل ایرو اسپیس کے ترجمان نے بی بی سی ترکی کو بتایا کہ گر کر تباہ ہونے والے طیارے کا دیکھ بھال کی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’ترک فضائیہ کے ساتھ ان کا معاہدہ صرف C-130 'J' قسم کے طیاروں کا احاطہ کرتا ہے، اور یہ طیارے ابھی بھی استعمال کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔‘
تباہ ہونے والے طیارے کے بارے میں لاک ہیڈ مارٹن نے کیا کہا؟
سی-130 تیار کرنے والی امریکی دفاعی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے پریس ترجمان کرس کارنس نے بی بی سی ترک کو بتایا کہ وہ تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔
کارنس نے سی 130 ستر سال سے قابلِ اعتماد طیارہ ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی ان کی اولین ترجیح ہے۔ ’ہم اپنے صارفین کی مدد کرنے اور سروس میں موجود تمام سی-130 طیاروں کی حفاظت اور آپریشنل حیثیت کو یقینی بنانے کے لیے معلومات کا اشتراک کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔‘
طیارہ گر کر تباہ کیوں ہوا؟
وزارت قومی دفاع نے 13 نومبر کو ایک بیان میں کہا کہ طیارے کے گرنے کی وجہ حادثے کی تحقیقات کے بعد سامنے لائی جائیں گی۔
لیکن ہوا بازی کے ماہرین اس حوالے سے کچھ اندازے لگا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی غیر مصدقہ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ طیارہ ہوا میں ٹوٹتا ہوا زمین کی طرف آتا ہے اور پھر شعلوں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔
میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر تخریب کاری کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
فضلہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طریقہ کار کی وجہ سے غیر ملکی افراد کے لیے اجازت کے بغیر طیارے میں داخل ہونا ممکن نہیں ہے اور یہ کہ طیارے زمین پر ہوتے ہوئے بہت زیادہ محفوظ ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ طیارہ 22 ہزار فٹ کی اُونچائی پر تھا اور اسے زمین سے کسی راکٹ لانچر سے نشانہ بنانا ناممکن ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ طیارہ ایک مقرر کردہ روٹ پر پرواز کر رہا تھا اور اتنی اُونچائی پر پرندوں کے ٹکرانے کا بھی امکان نہیں ہے۔
کیا فوجی ہوائی جہازوں سے کود سکتے ہیں؟
جارجیا کی ایوی ایشن اتھارٹی نے اعلان کیا کہ ترکی کا ایک فوجی طیارہ ’الارم سگنل جاری کیے بغیر‘ ریڈار سے غائب ہو گیا۔
امریکی فضائیہ کے سی-130 کے ریٹائرڈ ماہر جارڈ فلپس نے روئٹرز کو بتایا کہ ’فوٹیج میں پرواز کے دوران دم کا حصہ الگ ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے اور ونگ ٹِپ والوز سے ایندھن بہہ رہا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ عملہ ہنگامی لینڈنگ کے لیے ایندھن پھینک رہا ہو گا۔‘
فضلہ کے مطابق انجن کی خرابی کی صورت میں طیارہ کسی مناسب جگہ پر گلائیڈ کر سکتا تھا۔

تو کیا جہاز میں موجود فوجیوں کو پیراشوٹ کے ذریعے باہر نکالنا ممکن تھا؟
ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل فضلہ کے مطابق، نہیں۔
فضلہ کا کہنا ہے کہ ان پروازوں کی منصوبہ بندی مسافر طیاروں کی طرح کی جاتی ہے اور عام مشن کے دوران، کاک پٹ میں موجود افراد سمیت کسی کے پاس پیراشوٹ نہیں ہوتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پیراشوٹ جمپ ٹریننگ خاص طور پر منصوبہ بند مشن ہیں اور تب ہی اہلکار پیراشوٹ کے ساتھ ہوائی جہاز پر سوار ہوتے ہیں۔