’ایلا واڈیا‘۔۔۔ یہ نام اور اس سے متعلق پوسٹس شاید آپ نے بھی اپنے سوشل میڈیا پرپچھلے ایک دو روز میں بہت دیکھی ہوں گی اور اس کی وجہ اس نوجوان خاتون کی گلیمرس لباس میں پیرس کی ایک فیشن تقریب میں شرکت سے زیادہ ان کی بانیِ پاکستان سے نسبت رہی۔
’ایلا واڈیا‘۔۔۔ یہ نام اور اس سے متعلق پوسٹس شاید آپ نے بھی اپنے سوشل میڈیا پر گذشتہ ایک دو روز میں بہت دیکھی ہوں گی اور اس کی وجہ اس نوجوان خاتون کی گلیمرس لباس میں پیرس کی ایک فیشن تقریب میں شرکت سے زیادہ ان کی بانیِ پاکستان سے نسبت رہی۔
جی ہاں انڈیا کے کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے والی ایلا واڈیا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ محمد علی جناح کی بیٹی کی نواسی ہیں۔
ایلانے 2025 کے ’لے بال‘ ایونٹ میں شرکت کی۔ یہ فرانس کا ایسا فیشن ایونٹ ہے جس میں دنیا بھر سے امرا کے خاندانوں کی 21 برس سے کم عمر لڑکیوں کو شرکت کے لیے چنا جاتا ہے۔
اس فیشن ایونٹ میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بہترین ڈیزائنرز کے بنائے لباس پہن کر شرکت کرتے ہیں۔
ماضی میں جن انڈین لڑکیوں نے اس بال میں شرکت کی ان میں اداکارہ اننیا پانڈے، جیتی مودی، امیتابھ بچن کی نواسی نویہ نویلی نندا، شہزدای اکشیتا بھانج دیو کے علاوہ مکیشن امبانی کی بیٹی ایشا امبانی بھی شامل ہیں۔
اس فیشن ایونٹ میں شرکت کی وجہ سے ایلا واڈیا کو اتنی توجہ کیوں مل رہی ہے؟
اس سوال کا سادہ سا جواب تو شاید یہی ہے کہ محمد علی جناح سے ان کا رشتہ لیکن اس سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا صارفین ان کی شہریت اور خاندان کے علاوہ محمد علی جناح سے ان کی بیٹی کے ٹوٹے ہوئے تعلق پر بات ہو رہی ہے۔
لیکن پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ’لے بال‘ کے نام سے یہ ایونٹ ہے کیا؟
لے بال ایونٹ کیا ہے؟
Le Bal des Débutantes جسےمختصراً ’لے بال‘ بھی کہا جاتا ہے، ایک ڈیبیوٹنٹ بال اور فیشن ایونٹ ہے جو ہر سال نومبر میں پیرس میں منعقد ہوتا ہے۔
ہر سال 16 سے 21سال کی عمر کی تقریباً 20لڑکیاں جو مختلف پس منظر اور امیر خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں، منتخب کی جاتی ہیں اور اس تقریب میں صرف وہی لوگ شرکت کرتے ہیں جنھیں دعوت نامے دیے جاتے ہیں۔
یہ بال 1994 سے فرانسیسی پبلک ریلیشنز ایگزیکٹو اوفیلی رینوارڈ کی جانب سے منعقد کیا جاتا ہے، جو ان کی اعلیٰ سوسائٹی میں شمولیت کی علامت ہے۔
ڈیبیوٹینٹ بال کا تصور ثقافتی طور پر اٹھارہویں صدی کی انگریزی روایت سے جڑا ہوا ہے، جس میں نوجوان لڑکیوں کو ملکہ کے سامنے معاشرے سے متعارف کرایا جاتا تھا۔
سنہ 1994 میں اس بال کی بانی اوفیلی رینوارڈ نے ایک جدید ورژن ایجاد کیا جسے لے بال دے ڈیبیوتانٹس کہا گیا، جو جلد ہی اس روایت کو جاری رکھنے کے لیے مقبول ہو گیا۔
اپنے آغاز سے ہی ’لے بال‘ نے شاہی خاندانوں، سلور سکرین لیجنڈز اورچمک دھمک میں گھری خواتین کو متوجہ کیا ہے۔
رواں برس یہ بال 29نومبر 2025کو پیرس کے شنگریلا ہوٹل میں منعقد ہوا، جو آئفل ٹاور کے قریب ہے۔
’لے بال‘ نامی یہ تقریب پہلے کرلون بال کہلاتی تھی اور اس کا آغاز 1958 میں ہوا۔ اب یہ امیر خاندانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی ایک پر تکلف ملاقات بن چکی ہے۔
یہ تقریب تھینکس گیونگ ویک اینڈ پر منعقد ہوتی ہے، جہاں ڈیبیوٹانٹس کوٹیور گاؤنز میں ہوتی ہیں، جن کی قیمت اکثر 50ہزار ڈالر سے ایک لاکھ ڈالر تک ہوتی ہے۔
فانوس کی روشنی سے چکمتے کمروں میں گھومتی یہ حسین لڑکیاں آئفل ٹاور کے پہلو میں موجود عمارت میں بیش قیمتی زیورات پہنے ہوئے ہوتی ہیں۔
اس بال کا آغاز کرنے والی خالق ایونٹ پلانر اوفیلی رینوارڈ وضاحت کرتی ہیں کہ لے بال نوجوان خواتین کو شادی کے لیے پیش کرنے کے لیے نہیں، جیسے تاریخی طور پر ڈیبیوٹنٹ بالز میں ہوا کرتا تھا۔
اس کے بجائے یہ ایک جشن ہے جس کا مرکز یہ نوجوان لڑکیاں اور ان کا سٹائل ہے، یہ رات ان کے لیے پریوں کی کہانی جیسی ہوتی ہے۔
اگرچہ یہ واقعی ایک حسین نظارہ ہوتا ہے، لے بال کا مقصد اپنے تاریخی پیشروؤں کے اصل ارادوں سے آگے بڑھ کر نوجوان خواتین کی حمایت کرنے والی فلاحی تنظیموں کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے۔
لے بال ہر سال 1100 سے زائد لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔
اس کے علاوہ نیو یارک سٹی کے سیلینی انسٹیٹیوٹ کی بھی معاونت کی جاتی ہے جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو نوعمر ماؤں کی ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور معاونت فراہم کرتا ہے۔ عطیات مکمل طور پر شرکا کی صوابدید پر دیے جاتے ہیں۔
ایلا واڈیا کون ہیں؟
ایلا واڈیا دراصل انڈیا کی کاروباری شخصیت جہانگیر واڈیا اور سیلینا واڈیا کی بیٹی ہیں۔
ان کے والدین فیشن برانڈ سی فیم کے مالک ہیں۔ جہانگیر واڈیا بمبئی ڈائینگ، گو فرسٹ اور بمبئی ریئلٹی کے منیجر ہیں اور ان کی والدہ ایک فیشن ڈیزائنر ہیں۔
جہانگیر واڈیا کے والد نوسلی واڈیا دراصل دینا جناح کے بیٹے ہیں۔
دینا جناح جو محمد علی جناح کی دوسری بیوی رتن بائی کے بطن سے پیدا ہوئیں، کا تعلق ایک پارسی خاندان سے تھا اور ان کے بیٹے نوسلی واڈیا نے بھی آگے چل کر پارسی خاندان میں شادی کر لی تھی۔
نوسلی واڈیا نے انڈیا میں واڈیا گروپ قائم کیا اور وہ اس کے پہلے چیئرمین تھے۔
جہانگیر واڈیا کے دو بچے ہیں ایلا واڈیا اور جہانگیر واڈیا جونیئر۔
اپنے ڈیبیو کے لیے ایلا نے لبنانی فیشن ڈیزائنر ايلي صعب کا گاؤن منتخب کیا۔
اگرچہ ایلا واڈیا نے اس تقریب کے لیے ذریعے فیشن کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھا لیکن فی الحال ان کی سوشل میڈیا پر موجودگی زیادہ نہیں جبکہ انسٹاگرام اکاؤٹ پرائیوٹ ہے۔
انڈین اور پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کی نوک جھوک
انڈیا اور پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین نوک جھوک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور یہی وجہ ہے کہ ایلا واڈیا کی لے بال مںی شرکت اس وقت بھی زیر بحث ہے۔
پاکستانی صارفین ان کی محمد علی جناح سے رشتہ داری جتا رہے ہیں تو وہیں انڈین بتا رہے کہ وہ انڈیا کے پارسی خاندان سے ہیں۔
پاکستان میں نہ صرف صارفین بلکہ نیوز آؤٹ لیٹس نے بھی ایلا کی شرکت کی خبر اسی انداز میں لگائی کہ جس میں انھیں محمد علی جناح کی پڑ نواسی کہہ کر متعارف کروایا گیا۔
رابعہ نامی ایک صارف نے لکھا کہ یقینا، بہت سے جذباتی لوگ اس عمل کو اسلام سے جوڑیں گے لیکن میں اسے کھلے دل سے دیکھتی ہوں اور اسے زندگی کی آزادی کا حق سمجھتی ہوں۔
ایک انڈین کمال چندولہ صارف نے طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’تقسیم نے ایک ایسا ملک تشکیل دیا جو 'مغربی زوال پذیری' کو مسترد کرتا تھا۔ ایک صدی بعد، بانی کی نسل پیرس کے بال رومز میں پوز دے رہی ہے جبکہ وہ ملک جس کا وہ تصور کرتے تھے، گندم، طاقت، اور ویزوں کے لیے لڑ رہا ہے۔‘
ایک اور انڈین صارف پرینکا کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنے پورے خاندان کی طرح انڈین ہیں کیونکہ جناح کی بیٹی نے اپنے والد کے بنائے ملک جانے کے بجائے انڈیا میں رہنے کا انتخاب کیا، خاص طور پر جب وہ ان کے ایک پارسی سے شادی کرنے پر راضی نہیں ہوئے۔‘
ایک پاکستانی صارف ثنا مصطفیٰ نے مباحثہ کا حصہ بنتے ہوئے بانیِ پاکستان کے دفاع میں کہا کہ ’جناح نے اپنی ہی بیٹی کواس لیے عاق کر دیا کیونکہ انھوں نے ایک پارسی سے شادی کی اور مسلمان نہ رہیں۔ وہ اکلوتی اولاد تھیں لیکن جناح نے اپنے تمام تعلقات توڑ دیے حالانکہ وہ اس بات پر بہت افسردہ تھے لیکن انھوں نے اپنی بیٹی پر اسلام کو ترجیح دی۔‘
ایک پاکستانی صارف آمنہ حسن نے فیس بک پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میرا خیال ہے کہ دینا واڈیا انڈیا میں ہی رہیں۔ یہ خوبصورت ہے لیکن یہ دعویٰ نہ کریں کہ وہ پاکستانی ہیں کیونکہ وہ اور ان کا خاندان انڈین ہیں۔ ہم بطور پاکستانی صرف انھیں جنوبی ایشیائی نسل سے تعلق رکھنے والی خاتون کے طور پر سراہتے ہیں لیکن انھیں پاکستان سے منسوب نہیں کر سکتے۔‘