گوشت فریج میں جانا چاہیئے یا پھر ۔۔ قربانی کے گوشت میں کس کس کا حق ہوتا ہے؟ جانیئے سنتِ ابراہیمی سے متعلق چند سچ!

image

عیدِ قرباں پر ہر سال ہی صاحبِ استطاعت حضرات قربانی جیسے عظیم فریضے کو سرانجام دیتے ہیں اور عید سے قبل جانور خریدنے اور ان کی دیکھ بھال کے کام شروع ہو جاتے ہیں، بچے ہوں یا بڑے یہاں تک کہ خواتین بھی جانوروں کی خوب خدمت کرنے لگتی ہیں جوکہ شرعی طور پر بھی حق ہے اور یہ انسانیت کا پیمانہ بھی ہے کہ انسان کو ہر کسی کا خیال کرنا چاہیئے اور بے زباں جانوروں کا تو سب سے زیادہ کیونکہ یہ اپنی تکلیف زباں سے بیان نہیں کر پاتے۔ جہاں یہ تمام ذمہ داریاں ہیں وہیں قربانی کا گوشت بھی ایک بہت بڑی ذمہ د اری ہے۔

قربانی کے 3 دن ہوتے ہیں اور ہر لوگ قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، جگہ جگہ ڈھیروں گوشت رکھا ہوا نظر آتا ہے، کوئی گوشت کے حصے کر رہا ہوتا ہے، کوئی بانٹتا ہوا نظر آتا ہے تو ہزاروں لوگ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو اپنا فریج گوشت کی تھیلیوں سے اتنا بھر لیتے ہیں کہ ایک تھیلی بھی نکالیں تو سارا گوشت ایک ایک کرکے فریج سے باہر نکلنے لگتا ہے۔

لیکن قربانی کے گوشت کی دراصل حقیقی و شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ کتنا گھر میں رکھنا چاہیئے، کتنا بانٹنا چاہیئے ؟ یہ کوئی نہیں سوچتا ہے اور جاننے کی کوشش نہیں کرتا لیکن سارا سال اپنا فریج قربانی کے گوشت سے بھرے رکھتے ہیں۔ کیا قربانی اس کا نام ہے؟ کیا خدا نے فریج بھرنےکا حکم دیا تھا؟ کیا آپ بھی گوشت کے حصوں کو فیج کے ساتھ ان لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں جن کو گوشت کی ضرورت بالکل نہیں ہوتی؟ جانیئے اس فیچرڈ نیوز میں گوشت کے حصوں کے حوالے سے اہم باتیں:

٭ قربانی کے گوشت کا سب سے پہلا حصہ غریبوں، ضرورتمندوں اور یتیموں کا ہوتا ہے جوکہ مذہبی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آپ ان لوگوں کے لئے گوشت بانٹیں جو خود خرید کر نہیں کھاسکتے یا ان کی گنجائش کم ہے۔

٭ پھر ایک حصہ اپنے رشتے داروں میں بانٹیں، کیونکہ ان کا بھی حق ہے اور کوشش کریں کہ ان رشتے داروں میں بانٹ دیں جن کے بارے میں آپ کو علم ہے کہ ان کی استطاعت کم ہے، یا وہ روزمرہ ایسی چیزیں نہیں کھاتے، کیونکہ ایک طرح سے ضرورتمند ہی ہوئے۔

٭ ایک حصہ گھر میں خود رکھیں کیونکہ یہ ہمارے دین میں بھی اجازت ہے، لیکن آج کل ہامرے ہاں یہ ہوتا ہے کہ سارا ہی گوشت گھر کے حصے میں شمار کرلیا جاتا ہے اور آخر میں بہت تھوڑا سا یا جانور کی پسلیاں وغیرہ محلے میں بانٹ دی جاتی ہیں اور ایک سے دو تھیلیاں گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کو دے دیتے ہیں، بس جناب ہوگئی قربانی اب باقی گوشت کے تکے باربی کیو اور کباب، روسٹ گوشت بنا کر کھاتے ہیں۔ حقیقتً یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔

کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ارے ہم تو کرتے ہی ایک ہی حصہ ہیں ، اس میں سے بھی کیا دوسروں کو دیں، کیا گھر میں رکھیں؟ ان کے لئے بھی حکم ہے کہ جتنا بھی آپ کا حصہ ہے، اس کو ایک صاف کپڑے پر رکھیں اور ہم وزن 5 تھیلیاں بنا لیں، سب میں تھوڑا تھوڑا کرکے گوشت رکھیں اور اندازہ کرلیں کہ سب برابر ہوگئے ہیں یا نہیں، جب سب برابر ہو جائیں تو رشتے داروں کا حصہ الگ بنائیں، غریبوں کا الگ اور اپنے گھر کے لئے الگ۔

قربانی کا اصل مقصد قربانی ہے تو اس کو دوسروں کے لئے ضرورتمندوں کے لئے قربان کریں، فیشن یا فریج بھرنے یا پھر دکھاوے کی غرض سے قربانی نہ کریں ، دوسروں کو دیتے ہوئے بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کسی اور کے سامنے یہ نہ کہیں کہ میں نے تو تمہیں اتنا گوشت دیا وغیرہ ، یہ باتیں انسانیت کے دائرے میں بھی شمار نہیں کی جاتی ہیں۔


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.