’ہم تین کانسٹیبل بھائی تھے اب میں اکیلا رہ گیا ہوں، میرے بھائیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا‘

پشاور میں واقع تھانہ سربند پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کے تعاقب میں جانے والی پولیس ٹیم میں شامل ایک ڈی ایس پی اور دو پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پولیس پر حملوں کے واقعات میں اضافے کے بیچ بی بی سی نے ایسے پولیس اہلکاروں کے لواحقین سے بات کی ہے جو شدت پسندوں کے گذشتہ حملوں میں ہلاک ہوئے۔
خیبرپختونخوا
Getty Images

صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع تھانہ سربند پر جمعہ کی شب شدت پسندوں نے حملہ کر دیا جسے پولیس اہلکاروں نے کامیابی سے پسپا کیا تاہم بعدازاں اِن شدت پسندوں کے تعاقب میں جانے والے ٹیم میں شامل ایک ڈی ایس پی اور دو پولیس اہلکار مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی کے مطابق شدت پسندوں نے تھانہ سربند پر متعدد اطراف سے آدھی رات کو حملہ کیا جسے کامیابی سے پسپا کیا گیا مگر بعدازاں ان شدت پسندوں کے تعاقب میں جانے والی ٹیم میں شامل پولیس ڈی ایس پی بڈھ بیر سردار حسین اور دو پولیس اہلکار ارشاد اور جہانزیب ہلاک ہو گئے۔

ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق شدت پسندوں نے حملے میں دستی بم، سنائپر رائفل اور خود کار اسلحے کا استعمال کیا۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں شدت پسندوں کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر حملوں کے واقعات میں واضح اضافہ نظر آیا ہے جس میں درجنوں پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

بی بی سی نے اس رپورٹ میں گذشتہ چند ماہ میں ہونے والے حملوں کے دوران ہلاک ہونے والے چند پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کے پیاروں کی موت کے بعد اُن کی زندگیاں کیسے بدلیں۔

’جب ایک دن اطلاع ملی دہشت گردوں کی جانب سے ہونے والی فائرنگ میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا ہے، تو اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کہیں یہ میرا بھائی ہی نہ ہو۔ میں نے ذہن میں آنے والے اس خیال کو جھٹکا اور اپنے آپ کو تسلی دی کہ میرا خیال درست نہیں ہو گا۔ مگر پھر بھی دل میں ایک انجانہ سا خوف جنم لے چکا تھا۔‘

’اسی خوف کو دل میں لیے ناچاہتے ہوئے بھی میرے قدم اپنے علاقے کے ہسپتال کی جانب اٹھ گئے کیونکہ میں صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ زخمی ہونے والا پولیس اہلکار کون ہے؟‘

’اس خوف کی ایک وجہ یہ تھی کہ 2016 میں میرا ایک اور بھائی، جو خیبرپختونخوا پولیس ہی میں تھا، دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوا تھا۔‘

’اسی سوچ اور خوف کے عالم میں جب ہسپتال پہنچا تو تمام خدشات درست ثابت ہوئے کیونکہ ناصرف میرے بھائی کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا تھا بلکہ بعدازاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم بھی توڑ چکا تھا۔‘

یہ کہنا ہے عالم زیب (فرضی نام) کا جن کے دوسرے بھائی کی ہلاکت چند روز قبل بنوں میں شدت پسندوں کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر ہونے والے ایک حملے میں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ بھی ’پہلے بھائی کا صدمہ ہی نہیں بھولے تھے کہ دوسرے بھائی کا صدمہ سہنا پڑا۔‘

جب وہ یہ باتیں بتا رہے تھے تو ان کی آواز میں افسردگی واضح تھی۔ دو پولیس اہلکار بھائیوں کی ہلاکت کے بعد انھیں خدشہ ہے کہ کہیں شدت پسند اب ان تک نہ پہنچ جائیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم تین بھائی تھے اور تینوں پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے، اب میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ میرے دونوں بھائیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

’بھائی کی میت گھر پہنچی تو ماں، باپ بے ہوش ہو گئے‘

پاکستان
Getty Images

عالم زیب بتاتے ہیں کہ دوسرے بھائی کی شدت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ان کے اہلخانہ کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اُس روز میں بھی ڈیوٹی پر ہی تھا جب یہ اطلاع ملی۔ اور جب ہسپتال جا کر معلوم ہوا کہ یہ میرا ہی چھوٹا بھائی ہے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔ اس دوران مسلسل ٹیلیفون آنا شروع ہو گئے۔ میں فون نھیں اٹھا رہا تھا۔ میں نے ابتدا میں گھر والوں کو بتایا کہ کوئی اور پولیس والا ہے، مگر جلد ہی ان تک خبر پہنچ چکی تھی۔‘

’ہم ڈیڈ باڈی گھر لے کر گئے تو  ماں، باپ بے ہوش ہو گئے۔ میں ایک طرف بھائی کی میت کو سنبھال رہا تھا تو دوسری جانب گھر والوں کے لیے گاؤں میں ڈاکٹر کو بلایا۔ بھائی کی میت گھر آنے پر ایک کہرام مچ گیا۔‘

عالم زیب بتاتے ہیں کہ ان کا بڑا بھائی جو پولیس میں کانسٹیبل تھا وہ 2016 میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا تھا اور اس وقت اُس کی عمر فقط 26 سال تھی، دوسرا بھائی بھی جب قتل کیا گیا تو اس کی عمر بھی 26 سال تھی۔

عالم بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی شادی شدہ تھے اور ان کا ایک بچہ بھی تھا۔ 2016 میں اُن کی ہلاکت کے بعد اُن کی بیوہ کی شادی دوسرے بھائی سے کر دی گئی تھی مگر اب وہ بھی قتل کر دیے گئے۔ ’دوسرے بھائی کی شہادت کے بعد ہماری بھابھی اب ہر وقت پریشان رہتی ہیں۔ دوسرے بھائی سے ان کی ایک بیٹی اور بیٹا ہیں۔‘

’ہمارے والد معذور ہیں۔ والدہ ہر وقت سوچوں میں گم رہتی ہیں۔ میں ڈیوٹی پر جاتا ہوں تو میرے خاندان کے دو، تین بندے اب میرے ساتھ جاتے ہیں جو اس مقام پر ساتھ کھڑے رہتے ہیں جہاں میری ڈیوٹی ہوتی ہے۔‘

عالم نے بتایا کہ گھر میں یہ صورتحال تھی کہ جب وہ ڈیوٹی پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں وہ تو والدہ دروازے تک ساتھ آتی ہیں، دعائیں کرتی ہیں کہ آج کا دن خیریت سے گزر جائے۔

’دو بھائیوں کی شہادت کے باوجود میں یہ نوکری نہیں چھوڑ سکتا۔ مالی حالات ایسے ہی ہیں کہ اگر نوکری نہیں کریں گے تو کھائیں گے کیا؟‘

’40 دن زندگی اور موت کی کشمکش‘

پاکستان
Getty Images

لکی مروت سے تعلق رکھنے والی مبشر کہتے ہیں کہ وہ دن انھیں آج بھی ایسے یاد ہے جیسے کل کی بات ہو۔

’میں اور میرا بھائی اپنی اپنی ڈیوٹی پر گئے تھے۔ میری ڈیوٹی پشاور سے آنے والے ایک جج کی سکیورٹی پر تھی جبکہ میرا بھائی تھانے میں تعینات تھا جسے اچانک شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کے لیے جانا پڑا تھا۔

’چند ماہ پہلے تک ہمارے گھر کے معاملات صحیح تھے۔ اپنی پولیس کی ملازمت کے حوالے سے خوف ضرور تھا کیونکہ علاقے میں پولیس کو دھمکیاں مل رہی تھیں اور پولیس چوکیوں، گشت پر معمور پولیس گاڑیوں اور تھانوں پر حملے ہو رہے تھے۔‘

مگر پھر اس دوران ایک دن ایسا آیا جس سے ان کی زندگی بدل گئی۔

’وہ دن مجھے یاد ہے میں ڈیوٹی پر تھا۔ مجھے اطلاع ملی کے اس تھانے کی پولیس کی ایک ٹیم طالبان کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کے لیے نکلی ہے جہاں میرا بھائی تعینات تھا۔ پولیس ٹیم کی شدت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں میرے بھائی کو ایک گولی سر پر لگی اور اس سے وہ شدید زخمی ہوا۔‘

’مجھے پولیس والوں نے اطلاع دی کہ بھائی زخمی ہوا جسے بنوں ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ ہم سب بھی بنوں پہنچے تو وہاں معلوم ہوا کے بھائی کو پشاور ریفر کر دیا گیا ہے۔ پشاور کے ہسپتال میں علاج ہوا اور روزانہ نئی کیفیت کا بتایا جاتا۔ کبھی امید پیدا ہو جاتی کہ وہ صحتیاب ہو رہے ہیں اور کبھی ایسا لگتا کہ ان کا بچنا مشکل ہو گا۔ وہ چالیس دن ایک عذاب کی طرح گزرے اور پھر 40ویں روز ان کی وفات ہو گئی۔‘

مبشر اپنے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے ٹیلیفون پر رونے لگے اور کافی دیر تک ان کے منھ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ حالانکہ اس واقعے کو لگ بھگ چار ماہ ہو چکے ہیں لیکن ان کی آواز سے ظاہر تھا کہ اب بھی غم میں ہیں اور انتہائی پریشان ہیں۔

خیبرپختونخوا پولیس پر بڑھتے حملے

پاکستان
Getty Images

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال یعنی 2022 میں خیبر پختونخوا میں تشدد کے واقعات میں 67 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ایک سال کے دوران 120 سے زائد پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جس میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔

ٹی ٹی پی کے پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں زیادہ اضافہ گذشتہ سال 28 نومبر کے بعد دیکھا گیا جب اس کالعدم تنظیم نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

گذشتہ سال کے دوران پرتشدد کارروائیوں  کے زیادہ واقعات خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بشمول لکی مروت، بنوں، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آئے۔

ان اضلاع میں پولیس پر ہونے والے حملوں میں شدت پسندوں کی جانب سے جدید ہتھیار استعمال کیے گئے جن کا تذکرہ خیبرپختونخوا کے اعلیٰ پولیس حکام اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی کیا ہے۔ 

مسلح شدت پسندوں کی حالیہ کارروائیوں میں صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے ہیں اور ان میں لکی مروت میں دو ماہ میں ڈیڑھ درجن سے زائد اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں ۔

لکی مروت میں حالات تو کشیدہ تھے لیکن گزشتہ سال ستمبر کے مہینے سے حملوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔

17 ستمبر کو پولیس کے ایک دفتر میں کام کرنے والے افسر حاجی خان کو ہلاک کیا گیا۔ 16 نومبر کو پولیس کی موبائل گاڑی پر شدت پسندوں کے حملے میں 6 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

اسی طرح 24 نومبر کو لکی مروت میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر کارروائی کی لیکن شدت پسندوں نے اُسی روز جوابی کارروائی کرتے ہوئے لکی مروت کے پولیس تھانے پر حملہ کر دیا۔

بڑھتے حملوں کے تناظر میں 25 نومبر کو سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کی جس میں ایک فوجی کیپٹن زخمی جبکہ دو اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر کو جنگ بندی ختم کرتے ہوئے جماعت کے ترجمان نے خاص طور پر لکی مروت اور دیگر علاقوں میں ان (شدت پسندوں) کے ٹھکانوں پر حملوں کو ایک بڑی وجہ قرار دیا۔

اسی طرح ضلع بنوں میں بھی 2022 کے دوران پولیس اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے اور ضلعی پولیس اور صحافیوں کے مطابق سال بھر میں 28 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور 22 اہلکاروں کو زخمی کیا گیا۔

دوسری جانب اسی دورانیے میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 93 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے دعوے کیے گئے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.