کیسز کے بوجھ تلے دبی پاکستان کی عدلیہ میں ’تقسیم‘: ’وکیل صاحب آپ جھوٹے ہیں جج تو سابق وزیراعظم کا کیس سُن رہے ہیں‘

عبدالحمید کئی برسوں سے انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ وہ اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’اگر آپ نے پاکستان کی عدالتوں سے انصاف لینا ہے تو آپ کو سیاستدان یا بااثر آدمی ہونا پڑے گا۔‘
عدالت
BBC

عبدالحمید کئی برسوں سے انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ وہ اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’اگر آپ نے پاکستان کی عدالتوں سے انصاف لینا ہے تو آپ کو سیاستدان یا بااثر آدمی ہونا پڑے گا۔‘

عبدالحمید کے مطابق ’یہاں عام آدمی انصاف کی امید لگائے دہائیاں گزار دیتا ہے۔ پھر بھی انصاف نہ ملنے پر قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر و شکر کر کے بیٹھ جاتا ہے۔‘

صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں کے عبدالحمید کی پاکستانی عدلیہ کے بارے میں رائے شاید ان کے ذاتی تجربے کی بنیاد پر ترتیب پائی ہے۔ مگر دوسری جانب اس کی تصدیق اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے کیونکہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے 2023 کے رول آف لا انڈیکس کے مطابق پاکستانی عدلیہ 142 ممالک میں سے 130ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کے لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر کی عدالتوں میں 20 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیرِ التوا تھے۔

لاہور ہائیکورٹ میں عبدالحمید کی زیر سماعت درخواست کبھی ویسے ہی ’لیفٹ اور‘ ہو جاتی ہے تو کبھی جج چھٹی پر چلے جاتے ہیں اور کبھی عدالتی وقت ہی ختم ہو جاتا ہے۔

عبدالحمید چونیاں میں یومیہ اجرت پر مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا کیس یہ ہے کہ اُن کی بہو گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں اور جاتے ہوئے اُن کی پوتی کو بھی ساتھ لے گئیں تو اب وہ پوتی کی بہتر تربیت کے لیے اُن کی حوالگی چاہتے ہیں۔

عبدالحمید کے بقول قصور کی ایک مقامی عدالت نے پانچ سال قبل ان کے حق میں فیصلہ کیا تاہم اس فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔

عبدالحمید کے مطابق وہ ان لاکھوں سائلین میں سے ایک ہیںجن کے مقدمے پر باقاعدہ شنوائی ہونے کی بجائے تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔

عدالت
BBC
عبدالحمید

’وکیل صاحب آپ جھوٹے ہیں، جج تو سابق وزیر اعظم کا کیس سُن رہے ہیں‘

62 سالہ عبدالحمید کو یومیہ آٹھ سو روپے اجرت ملتی ہے جس میں وہ اپنے گھر کے سات افراد کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ عدالتی حکم پر ماہانہ تین ہزار روپے اپنی پوتی کے خرچے کے لیے بھی ادا کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران ان کے کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ’زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اگلی تاریخ پڑ جاتی ہے اور میرا وکیل متعلقہ جج کے ریڈر سے آئندہ کی تاریخ لے کر اپنے گاؤں چلا جاتا ہے۔‘

عبدالحمید کے مطابق انھیں اپنے گاؤں سے لاہور ہائیکورٹ پہنچنے کے لیے چار گاڑیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں اور اس سفر میں تین گھنٹے لگتے ہیں جبکہ سفری اخراجات لگ بھگ 1500 روپے فی ٹرپ پڑتے ہیں جبکہ ’دیہاڑی‘ الگ ماری جاتی ہے۔

ان کے وکیل فیصل توقیر کے مطابق ایک دن جج کی عدم دستیابی کے باعث عدالت سے اگلی تاریخ ملنے پر ان کے مؤکل عبدالحمید واپس گاؤں چلے گئے مگر پھر رات گئے انھوں نے ’مجھے فون کر کے کہا کہ وکیل صاحب آپ مجھ سے جھوٹ بول رہے ہیں کہ جج اٹھ کر چلا گیا۔ میں ابھی گاؤں کے قریب ایک ڈھابے پر چائے پینے کے لیے رُکا تو وہاں ٹی وی لگا ہوا تھا اور اس پر میں نے دیکھا کہ وہی جج کمرۂ عدالت میں بیٹھا سابق وزیر اعظم کا کیس سن رہا ہے۔‘

فیصل کے مطابق انھوں نے اپنے موکل کو سمجھایا کہ جج صاحب ایمرجنسی میں کیس سننے کے لیے رات کے وقت عدالت میں موجود ہیں۔

مؤکل کے اِسی ’شک و شبے‘ کی بنیاد پر وکیل فیصل توقیر نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے نام ایک خط تحریر کرتے ہوئے انھیں اپنے مؤکل کی مشکلات اور عدالتی نظام کو سمجھ نہ پانے کی بارے میں آگاہ کیا۔

عبدالحمید کا کیس شاید اس لیے اب تک زیرِ التوا ہے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2023 میں اس کے دو لاکھ سے زیادہ مقدمات زیرِ التوا ہیں جبکہ صوبے بھر کی ضلعی عدالتوں میں یہ تعداد 30 لاکھ سے زیادہ ہے۔

تاہم گذشتہ سال کے ایک خطاب میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی کا کہنا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں نئے مقدمات دائر ہونا اِس بات کا ثبوت ہیں کہ صوبے کے عوام اپنے معاملات کے حل کے لیے عدالتوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔

مگر اس دعوے کے برعکس پاکستان کی وکلا تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیاسی شخصیات کے کیسز کو فوقیت دینے اور عوام کے مقدمات کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت کا عدالتی نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔

وکلا تنظیموں کے مطابق اس کی ایک وجہ ’من پسند فیصلوں کے لیے بینچز کی تشکیل اور سیاسی مقدمات کی سماعتوں کو ترجیح دینا ہے۔‘

پاکستان کی وکلا سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا کا کہنا ہے کہ ملک بھر کے وکلا کئی دہائیوں سے کہہ رہے ہیں کہ اس رجحان نے ’پہلے سے کیسوں کے بوجھ تلے دبے عدالتی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور لوگ اب اس عدالتی نظام سے متنفر ہو گئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ رجحان فقط ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر ضلعی سطح پر قائم عدالتوں پر بھی پڑتا ہے۔

وکلا تنظیموں کے مطابق بینچز کی تشکیل کے معاملے پر عدالتوں کا فل کورٹ اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے بینچ تشکیل کیے جائیں تاہم اس پر ’کوئی عملدرامد نہیں ہوا۔‘

حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں گذشتہ پانچ سال کے دوران ایک بھی فُل کورٹ اجلاس نہیں ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے لے کر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور تک سیاسی مقدمات کو سننے کے لیے بینچز تشکیل دیے گئے۔ حسن رضا پاشا کے بقول ان بینچز کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کے ’ملک اور جمہوریت پر بُرے اثرات مرتب ہوئے۔‘

انھوں نے کہا کہ پریکیٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے پہلے بینچز کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہوتا تھا اور اس معاملے میں چیف جسٹس مختار کُل ہوتے تھے۔

ماضی کے ان مخصوص بینچز کو وکلا تنظیموں نے ’ہم خیال ججز‘ کا نام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور ہوا تو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک لارجر بینچ نے حکومت کا موقف سنے بغیر اس پر حکم امتناع جاری کیا جو ان کی ریٹائرمنٹ تک برقرار رہا۔

حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے لیے جو بینچ تشکیل دیے جاتے تھے، اسے دیکھ کر وکلا تو کیا عام لوگ ’یہ اندازہ لگا لیتے تھے کہ اس مقدمے کا فیصلہ یہ آئے گا اور وہی فیصلہ وہ بینچ دے دیتا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ججز میں اس تقسیم اور گروپ بندی سے ’انصاف کا شیرازہ بکھرتا جا رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ آنے کے بعد اعلی عدالتوں میں بینچز کی تشکیل کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس کے دو سینیئر ججز شامل ہوتے ہیں۔

عدالت، سپریم کورٹ
BBC

بیرسٹر عمر گیلانی کا کہنا ہے کہ ’اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقسیم کا اثر نچلی عدالتوں میں بھی جاتا ہے اور نچلی عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلا کو ’اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ فلاں سول جج یا سیشن جج کا رجحان کس گروپ کی طرف ہے اور پھر وکلا اس جج کے پاس ویسا ہی کیس لے کر جاتے ہیں جہاں انھیں امید ہوتی ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ اب وکلا کا کام مقدمے کی تیاری سے زیادہ ’جج کی نفسیات کو بھی پڑھنا ہے۔ اگر کوئی وکیل اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا اپنے مقدمے میں فیصلہ کروانا آسان ہو جاتا ہے ورنہ معاملہ لٹک جاتا ہے۔‘

وہ یہ مثال دیتے ہیں کہ اگر ضمانت کے کسی مقدمے میں اعلی عدالت کوئی فیصلہ دے اور ساتھ یہ بھی کہے کہ ’نچلی عدالت ضمانت کے اس مقدمے میں دی گئی ابزرویشن سے متاثر نہ ہوں‘ تو حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اور ماتحت عدالتیں مقدمے کی سماعت کے دوران اعلی عدالتوں کی ابزرویشنز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی فیصلہ دیتی ہیں۔

صحافی اور عدالت میں زیر سماعت مقدمات کی کوریج کرنے والے صحافی ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں سیاسی نوعیت کے مقدمات کی سماعت ہوتی ہے تو بینچ میں شامل جج صاحبان کی ’باڈی لینگوئج سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کتنے انہماک سے مقدمات کی سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ان سیاسی شخصیات کے مقدمات کی سماعت ہوتی تھی تو عدالت نہ صرف ان مقدمات کی دلچسپی سے سماعت کرتی تھیں بلکہ ان کی وجہ سے دیگر مقدمات بھی لیفٹ اور ہو جاتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف پاناما ریفرنس کے نتیجے میں بننے والے مقدمات میں کیے گئے فیصلوں پر اپیلوں کی سماعت ہائی کورٹ میں ہوئی تھی تو وہی جج نیب (قومی احتساب بیورو) کی تحقیقات کے معیار کو بہت سراہتے تھے اور ’جب نواز شریف کے ’معلامات‘ درست ہوئے تو وہی مقدمے کی فائل تھی، وہی جج تھے جو اس مقدمے میں ہونے والی تفتیش پر سوالات اٹھا رہے تھےاور اس کا نتیجہ نواز شریف کی مقدمات میں بریت کا نکلا۔‘

انھوں نے کہا کہ جب عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تو اسی ہائی کورٹکے چیف جسسٹس عامر فاروق نے ان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا جبکہ اگلے روز سپریم کورٹ میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نہ صرف انھیں طلب کیا بلکہ انھیں ’گڈ ٹو سی یو‘ کہا اور پھر انھیں رہا کرنے کا حکم دیا۔

ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ اس وقت سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تین بڑے مقدمات کی سماعت اڈیالہ جیل میں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے تین ضلعی عدالتوں کے جج روزانہ کی بنیاد پر اڈیالہ جیل جا رہے ہیں جس سے عام سائلین کے مقدمات شدید متاثر ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف سائفر مقدمے کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت کے جج نے خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے روزانہ کی بنیاد پر جیل جانے سے روزانہ درجنوں ضمانت کے کیسز کی سماعت ملتوی ہو رہی ہے اور یوں درجنوں ملزمان کے حقوق بھی متاثر ہو رہے ہیں جو جیل سے باہر آنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔

ججز اور عدالتی نظام پر سوالات اٹھ رہے ہیں: جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج فیصل عرب کا کہنا ہے کہ اعلی عدلیہ میں ججز کی تقسیم کی وجہ سے عام عوام میں ’ججز اور عدالتی نظام پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اب تو وکلا ایک طرف، عوام بھی ججز کے بارے میں اپنی رائے قائم کر چکے ہیں کہ ’فلاں جج کا جھکاؤ فلاں سیاسی جماعت کی طرف ہے اور فلاں جج فلاں دوسری سیاسی جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ معاملہ ججز کی تقسیم سے بڑھ کر ذاتی اختلافات میں تبدیل ہو گیا ہے جس کا نقصان نہ صرف عدلیہ کو ہوتا ہے بلکہ عوام میں بھی اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے ججز کا تشخص بہتر نہیں جا رہا۔

سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں ’ججز میں ڈویژن گذشتہ کچھ عرصے سے ہوئی ہے۔‘ جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کے مطابق ’جب وہ سپریم کورٹ کے جج تھے تو اس وقت عدالت عظمیٰ میں ججز کے درمیان مختلف مقدمات کی سماعت کے دوراناختلاف رائے ضرور ہوتا تھا لیکن یہ اختلاف کبھی بھی ذاتیات میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ سے ہائی کورٹس میں بھی پہنچ گیا ہےاور اعلیٰ عدالتوں میں کیسز کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ بینچ کی تشکیل کے بارے میں رائے دے دیتے ہیں کہ چونکہ اس بینچ میں فلاں جج شامل ہیں اور ان کی جھکاؤ فلاں سیاسی جماعت کی طرف ہے، اس لیے اس مقدمے کا فیصلہ یہ ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ اعلی عدالتوں میں ججز کے ساتھ ان کی بات چیت ہوتی رہتی ہے اور وہ بھی اس معاملے پر پرشان دیکھائی دیتے ہیں۔

ان کی تجویز ہے کہ ’سیاست دانوں کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے اور اپنے معاملات کو عدالتوں میں لے کر جانے کی بجائے پارلیمنٹ میں حل کریں تاکہ نہ ججز پر کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کا الزام لگے اور نہ ہی ججز سیاسی نوعیت کے فیصلے کرنے سے متنازع ہوں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.