تھرپارکر کی خواتین نے ووٹ کا حق لینے کے لیے رکاوٹوں کو کیسے توڑا؟

image
 ہنجو کوہلی ضلع تھرپارکر کے شہر اسلام کوٹ کے قریب ایک چھوٹی سی بستی میں رہتی ہیں۔ 70 سال کی  ہنجو کوہلی نے پہلی دفعہ 2008 میں ووٹ دینے کا حق استعمال کیا۔

ہنجو کوہلی کے اس عمل کا محرک دسمبر 2007 میں انتخابی مہم کے دوران سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت بنی۔

اس کے بعد صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں انتخابی عمل میں عورتوں کی شرکت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے اعداد و شمارکے مطابق 2018 کے انتخابات میں حلقہ این اے 221 میں خواتین ووٹرز کے ٹرن آؤٹ کی شرح غیر معمولی طور پر72.8 فیصد اور این اے 222 میں 71.4 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔

اگر اس صورتحال کا موازنہ خیبرپختونخوا کے این اے 10 شانگلہ اور این اے 48 شمالی وزیرستان کے ساتھ کیا جائے تو بالکل الٹ تصویر سامنے آتی ہے۔

ان علاقوں میں پولنگ سٹیشنوں پر خواتین کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہاں قدامت پسند  روایات اور لاجسٹک رکاوٹوں نے ٹرن آؤٹ کی شرح کو انتہائی کم رکھا کہ ان دونوں حلقوں میں ٹرن آوٹ 7.8 فیصد اور 8.2 فیصد رہا۔

2018  میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی تھرپارکر ملک بھر میں سب سے زیادہ خواتین ووٹرز ٹرن آوٹ کے ساتھ سر فہرست رہا۔ خواتین ووٹرز کے ٹرن آوٹ کے حوالے سے ملک بھر میں سرفہرست پانچ حلقوں میں سے چار حلقے (پہلا، دوسرا، تیسرا اور پانچواں) تھرپارکر کے تھے۔

 عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ہنجو کوہلی نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ہونے والے انتخابات سے انہوں نے اپنا ووٹ ڈالنا شروع کیا۔

’یہ میرے ضمیر کی آواز تھی کیونکہ بے نظیر نے ہمارے لیے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ بدلے میں ووٹ دینا میں نے اپنا فرض سمجھا۔‘

2024  کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف پارٹی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار مہر النساء تھرپارکر سے این اے 215 (پہلے این اے 221) سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں اور وہ ضلع میں واحد خاتون امیدوار ہیں جو کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ 

 

 عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھرپارکر غربت کا شکار ہے جہاں لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور اس خطے میں ہندو خواتین سب سے زیادہ محروم ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری کوہلی، جنہیں تھرپارکر کی نمائندگی کرنے کے لیے کسی بھی قانون ساز ایوان میں واحد خاتون رکن پارلیمان ہونے کا اعزاز حاصل ہے، نے کہا کہ اس کی وجہ سیاسی جماعتوں کو خواتین امیدواروں کی طرف سے کم تعداد میں درخواستیں موصول ہونا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ ادوار میں تھرپارکر سے عملی سیاست میں خواتین کی نمائندگی محدود رہی۔

 ’تاہم اب منظر بدل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے تھر سے مجھے بطور پہلی سینیٹر منتخب کراکے ایک مثال قائم کر دی۔  وہ وقت دور نہیں جب ہم قانون ساز ایوانوں میں تھرپارکر کی کئی خواتین نمائندوں کو دیکھیں گے۔‘

تجزیہ کار نادیہ نقی کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں خواتین کے زیادہ ٹرن آؤٹ بنیادی طور پر علاقے کی سماجی روایات سے جڑا ہے۔

’جب آپ سندھ کے دیہی علاقوں میں جاتے ہیں تو آپ کو ایسی خواتین نظر نہیں آتیں جو ہر وقت چار دیواری کے اندر محصور رہتی ہیں۔‘

نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ اگرچہ کچھ علاقوں میں خواتین پردہ کرتی ہیں لیکن ان میں سے کئی کھیتوں میں کام کرتے ہوئے بھی نظر آتی ہیں۔

فافن حکام کے مطابق سول سوسائٹی کے گروپوں نے سرکاری اداروں، خاص طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کے اشتراک سے ووٹ کے اندراج کے لیے خواتین کو قائل کرنے کا موثر طریقہ اپنایا ہے۔

 فافن کی رخسانہ شمع نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان اقدامات میں خواتین کی رجسٹریشن کی راہ میں حائل ثقافتی رکاوٹوں کی نشاندہی اور پسماندہ علاقوں میں موبائل رجسٹریشن گاڑیوں کی تعیناتی شامل ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.