لاہور میں لباس کی وجہ سے توہین مذہب کا الزام: ’معافی کی ویڈیو کا مقصد خاتون کی زندگی اور سکیورٹی محفوظ بنانا تھا‘ اے ایس پی شہربانو

لاہور کے علاقے اچھرہ بازار میں اتوار کے روز اپنے لباس کی وجہ سے توہین مذہب کے الزام کی زد میں آنے والی خاتون کو ہجوم سے بچا کر لے جانے والی پولیس افسر شہربانو نقوی کو سوشل میڈیا پر خاصی داد دی جا رہی ہے تو وہیں کچھ لوگ اس بات پر بھی تنقید کر رہے ہیں کہ مذکورہ خاتون سے معافی کیوں منگوائی گئی۔
شہربانو نقوی
BBC

لاہور کے علاقے اچھرہ بازار میں اتوار کے روز اپنے لباس کی وجہ سے توہین مذہب کے الزام کی زد میں آنے والی خاتون کو ہجوم سے بچا کر لے جانے والی پولیس افسر شہربانو نقوی کو سوشل میڈیا پر خاصی داد دی جا رہی ہے تو وہیں کچھ لوگ اس بات پر بھی تنقید کر رہے ہیں کہ مذکورہ خاتون سے معافی کیوں منگوائی گئی۔

خاتون نے ایک ویڈیو بیان میں معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ’میں مسلمان ہوں اور کبھی توہین مذہب یا توہین رسالت کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی۔ یہ سب لاعلمی میں ہوا میں پھر بھی معذرت کرتی ہوں اور دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔‘

تاہم واضح رہے کہ خاتون نے جو لباس پہن رکھا تھا اس پر ’حلوہ‘ لفظ پرنٹ تھا اور عربی زبان میں حلوہ کے معنی حسین، خوبصورت اور میٹھے کے ہیں۔

لیکن توہین مذہب کے کیسز میں کسی مظلوم سے ہی معافی منگوانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ بھی نہیں۔

آج سے چار سال قبل اٹک میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر نے غیر مسلموں کے حقوق پر بات کی تو وہاں موجود ہجوم مشتعل ہو گیا، جس کے بعد اسسٹنٹ کمشنر کو معافی مانگنی پڑی تھی۔

حالیہ واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اے ایس پی شہربانو نقوی کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ہماری ترجیح یہی تھی کہ جس کے اوپر الزام لگایا جا رہا ہے اسے ریسکیو کیا جا سکے تاکہ قانون حرکت میں آ سکے۔

’توہین مذہب کے زیادہ تر کیسز میں اسی لیے قتل ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمھیں ریسکیو کرنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔‘

واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان، سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریا نتھا دیاودھنہ، خانیوال کے مشتاق احمد سمیت ایسی درجنوں مثالیں ملتی ہیں جب پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے شہریوں کو جان سے مار ڈالا۔

لیکن آپ کی موجودگی میں اس خاتون نے معافی مانگی کیا یہ درست تھا؟ اس عمل سے معاشرے کے شرپسند عناصر کو تقویت نہیں ملے گی؟

اس سوال کے جواب میں اے ایس پی شہربانو کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے چند پہلو انتہائی افسوسناک ہیں۔

’جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو لوگ ویڈیوز بناتے ہیں اور اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔ ایسا ہی اس واقعے میں بھی ہوا اور اس خاتون کی سکیورٹی خطرے میں پڑ گئی۔ وہ جو معافی کی ویڈیو بنی تھی اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس خاتون کی زندگی اور سکیورٹی لمبے عرصے کے لیے محفوظ بنائی جا سکے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بطور پولیس افسر ہماری پہلی ڈیوٹی یہی تھی کہ ہم اس خاتون کو بحفاظت وہاں سے نکال کر لے جائیں۔

 پریا نتھا
Getty Images
صوبہ پنجاب میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرنے والے پریا نتھا کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے محقق اور تجزیہ کار عرفات مظاہر کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ’ہم نے بطور معاشرہ اپنی ناکامی دیکھی اور وہ یہ تھی کہ پولیس کو اس خاتون سے معافی منگوانی پڑی‘ تاہم ان کا ماننا ہے کہ پولیس نے ایسا حکمت عملی کے تحت ہی کیا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

’ایک شخص کے پاس پستول تھی، وہ کہہ رہا تھا میں گولی مار دوں گا‘

ایس ایس پی شہربانو نقوی نے لاہور میں خاتون کو مشتعل ہجوم سے ریسکیو کرنے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ خاتون ایک دکان کے اندر ڈری سہمی بیٹھی ہیں اور لوگ انھیں کہہ رہے تھے کہ تم یہ کپڑے اتارو اور عبایا پہنو۔ ہم نے خاتون کو کہا کہ آپ کپڑوں کے اوپر ہی عبایا پہن لیں تاکہ ہم آپ کو یہاں سے نکالیں۔‘

ایس ایس پی شہربانو نے بتایا کہ اس بازار میں بڑی تعداد میں دکانیں موجود ہیں اس لیے وہاں لوگوں کا ہجوم تیزی سے جمع ہو سکتا تھا۔

’اس جگہ کے پاس ایک شوارما والا تھا، جس کے چولہے میں آگ جل رہی تھی۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ لوگ دکان کو آگ نہ لگا دیں۔‘

ایس ایس پی شہربانو کے مطابق وہاں ایک ایسا شخص بھی موجود تھا جس کے پاس پستول بھی تھا، جو کہہ رہا تھا کہ میں اس عورت کو گولی مار دوں گا۔

’ہم نے اس شخص کو پکڑ کر سائیڈ پر کیا اورپھر ہم خاتون کو دکان سے نکال کر لے گئے۔‘

’لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ حلوہ کا مطلب کیا ہے‘

محقق عرفات مظاہر نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ لوگوں نے یہ نہیں سوچا کہ حلوہ لکھا ہے تو اس کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے محسوس کیا کہ ایسے تو ہم مقدس چیزیں لکھتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’توہین مذہب کے بارے میں اسلامی قانونی روایت میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں 100 میں سے ایک ایسی معصومانہ تشریح تلاش کی جائے جس سے معاملہ خراب ہونے سے بچ سکے لیکن ہم نے تو اسے الٹا کر دیا اور ہم ایک ایسی توہین آمیز تشریح تلاش کرتے ہیں جس سے سزا دی جا سکے۔‘

توہین مذہب کے قانون اور اس کے تاریخی پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے عرفات مظاہر کا کہنا تھا کہ 1991میں وفاقی شرعی عدالت نے پارلیمنٹ کو ہدایت دی تھی کہ صرف بدنیتی کے ساتھ بیانات ہی توہین آمیز تصور کیے جا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’کمیونٹی کو صحیح سگنل بھیجنے کے لیے ضروری ہے کہ توہین مذہب کے قانون میں ’بدنیتی کے ساتھ‘ کے الفاظ بھی شامل کیے جائیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.