لاہور میں تاجر کا قتل، ’شوٹرز ملائیشیا سے ہائر کرائے گئے‘

image
طاہر حفیظ اور ان کے والد عبدالحفیظ دو روز قبل بدھ کو کچا جیل روڈ پر موجود اپنے دفاتر سے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ دونوں نے دفتر سے نکلتے وقت فیصلہ کیا کہ وہ گھر پہنچ کر ہی افطاری کریں گے۔

کچھ ہی دیر میں طاہر حفیظ اپنے گھر پہنچے اور اپنے والد کا انتظار کرنے لگے لیکن وقت گزرنے پر ان کو احساس ہوا کہ ان کے والد نے معمول کے برعکس زیادہ دیر لگا دی۔

انہوں نے اپنے والد کے نمبر پر کال ملائی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا جس کے بعد وہ فکر مند ہو گئے۔ جب کافی دیر تلاش کے بعد بھی والد گھر واپس نہیں لوٹے تو طاہر نے گاڑی کی لوکیشن معلوم کی۔ گاڑی کی لوکیشن دیکھنے کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ ان کے والد کی گاڑی تھانہ اسلام پورہ کے عقب میں کھڑی ہے۔

انہیں تسلی ہوئی کیونکہ اب تک انہیں اپنے والد سے متعلق ایک بھی سراغ نہیں مل رہا تھا جبکہ یہ ایک اشارہ ان کے لیے غنیمت سے کم نہ تھا۔

طاہر حفیظ کو دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا۔ وہ والد کے گھر نہ لوٹنے پر رنجیدہ تو تھے ہی لیکن ساتھ میں اُنہیں غیرمعمولی اقدام کا خدشہ بھی ستا رہا تھا۔ اس لیے اُنہوں نے اپنے دوست احباب سے رابطہ کیا اور تھانہ اسلام پورہ کی اُس دیوار کی جانب روانہ ہوئے جہاں لوکیشن کے حساب سے ان کے والد کی گاڑی کھڑی تھی۔

جب طاہر اپنے دوستوں کو لے کر لوکیشن پر پہنچے تو پانچ ملزمان بشمول ایک خاتون اُسی لوکیشن پر ایک لینڈ کروزر کے ساتھ کھڑے تھے جبکہ وہ ان کے والد عبدالحفیظ سے گن پوائنٹ پر گاڑی چھین رہے تھے۔ ملزمان نے جب طاہر حفیظ اور ان کے دوستوں کو دیکھا تو وہاں سے چوہان روڈ پر فرار ہونے کی کوشش کی اور سیدھی فائرنگ کر کے انہیں دور رہنے کا اشارہ کیا۔ فائرنگ سے ارد گرد موجود لوگ خوف کے مارے زمین پر لیٹ گئے تاکہ وہ فائر سے بچ سکیں۔ ملزمان عبدالحفیظ اور ان کی گاڑی کو لے کر فرار ہو گئے۔

طاہر حفیظ نے قانونی راستہ اپناتے ہوئے اسلام پورہ تھانے میں پانچ نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس نے کارروائی کا آغاز کیا۔ متعلقہ تھانے کی پولیس کے مطابق جب طاہر حفیظ نامی شہری نے مقدمہ درج کرایا تو پولیس نے فوری کارروائی کا آغاز کر دیا تھا۔

تاہم مدعی مقدمہ طاہر حفیظ نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں نامزد ملزمان نے پولیس کے سامنے ان کے والد کو اغوا کیا۔

پولیس نے اُردو نیوز کو قتل کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’عبدالحفیظ کے جسم پر تین گولیوں کے نشانات پائے گئے ہیں‘ (فائل فوٹو: پکسابے)ان کا کہنا تھا کہ ’میرے والد کو ملزمان پولیس کے سامنے اغوا کر کے لے گئے اور ہم نے مقدمے میں ملزمان کو نامزد بھی کیا لیکن پولیس نے 20 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔‘

یوں عبدالحفیظ کو اغوا ہوئے پورا دن گزر گیا لیکن وہ بازیاب نہ ہو سکے۔

عبدالحفیظ خود ایک صنعت کار تھے اور ان کا شمار لاہور کی تاجر برادری کے جانے مانے ناموں میں ہوتا تھا۔

ان کے بیٹے کے بقول ان کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ ایک روز تک پولیس کارروائی کرتی رہی جبکہ طاہر حفیظ خود بھی تلاش میں مصرف تھے کہ اچانک انہیں ایک اطلاع ملی اور وہ شرق پور کے قریب موٹروے پل پر پہنچے۔

طاہر کو وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ان کے والد عبدالحفیظ کو ملزمان نے اغوا کے بعد قتل کر دیا ہے اور ان کی لاش پل کے قریب پھینک دی ہے۔  پولیس نے اُردو نیوز کو قتل کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’عبدالحفیظ کے جسم پر تین گولیوں کے نشانات پائے گئے ہیں۔‘

طاہر عبدالحفیظ کے مطابق انہیں اغوا کاروں کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی تھی اور انہیں متنبہ کر دیا گیا تھا کہ مقدمہ درج کرانے یا پولیس کو اطلاع دینے پر انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

طاہر عبدالحفیظ کے مطابق ’اغوا کاروں نے پولیس کو اطلاع دینے پر انہیں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی’ (فائل فوٹو: آئی سٹاک)انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’پولیس نے بروقت کارروائی نہیں کی جس کی وجہ سے ان کے والد قتل ہو گئے۔‘

’پولیس کو ہم نے نام بھی بتائے اور ان کے سامنے یہ سب ہوا لیکن پولیس نے 20 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں کیا۔ ہمارا کیا تھا؟ جانے والا تو چلا گیا۔ پولیس نے قتل کے ایک گھنٹے کے فوراً بعد تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا لیکن کارروائی میں تاخیر نہ کرتے تو آج ہمارے والد ہمارے ساتھ ہوتے۔‘

پولیس کے متعلقہ تفتیشی افسر نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس نے مقدمہ درج ہونے کے فوری بعد کارروائی شروع کر دی تھی۔

ان کے بقول ’ہم نے ملزمان کو ٹریس کرنے کے لیے ان کے نمبرز اور دیگر طریقوں سے ان تک پہنچنے کی کوشش کی تھی۔‘

طاہر حفیظ نے الزام عائد کیا کہ مبینہ طور پر ملائیشیا میں مقیم ایک شخص نے لاہور میں ان کے والد کو قتل کرانے کے لیے لوگوں کو ہائر کیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش کی جا رہی ہے جبکہ تمام ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.