ترکی کے ’پاور ہاؤس‘ استنبول میں میئر کی نشست صدر اردوغان کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟

اتوار کے روز ترکی میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہونے جا رہا ہے اور اس معرکے میں یہ بات دیکھنے کی ہو گی کہ کیا صدر اردوغان حزب اختلاف سے کنٹرول واپس لینے میں کامیاب ہوں گے؟
ترکی کے انتخابات
Getty Images

31 مارچ 2024 کو ترکی کے شہری استنبول سمیت اپنے تمامبڑے شہروں کا نظام چلانے والے میئرز کے انتخابات کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔

اس معرکے میں یہ بات دیکھنا ہو گی کہ کیا صدر اردوغان حزب اختلاف سے کنٹرول واپس لینے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟

ترکی کا اقتصادی اور سماجی پاور ہاؤس سمجھے جانے والے شہر استنبول کے بلدیاتی الیکشن پانچ سال قبل سیکولر ری پبلکن پیپلز پارٹی کے اکرام امام اوو کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن نے جیت کر صدر اردوغان کی انتخابات میں طویل کامیابی کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔

اور اب ترک صدر اپنے آبائی شہر کا اقتدار واپس لینا چاہتے ہیں۔ اس لیے استنبول کا الیکشن ایک کانٹے دار معرکے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

استنبول میں اس انتخابی صورتحال کو صدر اردوغان کے لیے ایک کڑے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

استنبول کی میئرشپ کی جیت سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ آیا چار سال کے عرصے میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخابات میں حزب اختلاف، اردوغاناور ان کی پارٹیکے لیے کتنا سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

’استنبول سے ہارنا تباہ کن تھا‘

استنبول میڈیپول یونیورسٹی کے شعبہ کمیونیکیشن اور پولیٹیکل ریسرچ سینٹر کے سربراہ احسان اکتاس کا کہنا ہے کہ ’استنبول اردوغان کا گھر ہے اور 2019 کے بلدیاتی انتخابات میں استنبول سے ہارنا ان کے لیے تباہ کن تھا۔‘

استنبول ترک صدر رجب طیب اردغان کے دل میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف ان کی جائے پیدائش ہے بلکہ یہیں سے انھوں نے 70 کی دہائی میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز بھی کیا تھا۔

اردوغان سب سے پہلے ضلع بیوغلو میں ’اسلامسٹ پارٹی‘ کے یوتھ ونگ کے سربراہ بنے جس کے بعد رفتہ رفتہ انھوں نےپارٹی میں جگہ بنائی اور آخر کار وہ استنبول کے میئر بن گئے اور اس کے بعد ملک کے وزیراعظم اور پھر صدر بنے۔

حزب اختلاف کی مرکزی جماعت دی سیکولر پانچ سال پہلے ڈرامائی انداز میں استنبول سے جیتنے کے بعد نہ صرف استنبول بلکہ دارالحکومت انقرہ اور سیاحتی شہر انطالیہ سمیت اب بڑے شہروںکے انتظام کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے لیے پرامیدہے۔

بلدیاتی انتخابات میں شکست کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر اکتاس نے کہا کہ ’اس شکست نے استنبول پر اردوغان کی اے کے پارٹی کی 25 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔‘

امام اولو
Getty Images
استنبول کے موجودہ میئر اِکرم امام اولُو

موجودہ میئر کے لیے آزمائش کا وقت

صدر اردوغان نے استنبول کے میئر کے عہدے کے لیے اپنے سابق وزیر ماحولیات مرات کورم کا نام تجویز کیا ہے لیکن اس الیکشن کو زیادہ تر میئر امام اولو اور صدر اردوغان کے درمیان براہ راست مقابلہ خیال کیا جاتا ہے۔

بہت سے لوگ آنے والے وقت میں امام اولو کو صدر اردوغان کے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔

24 مارچ کو ایک انتخابی ریلی میں امام اولو نے کہا کہ ’2019 میں ہم نے ایک باب بند کیا اور اب31 مارچ کو اے کے پی ماضی کا حصہ بن جائے گی۔‘

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ استنبول میں اردغان کو دوبارہ شکست دینے سے امام اولو کے سیاسی دعوے کو مزید تقویت ملے گی۔ اس سے ان کے لیے 2028 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار ہو گی تاہم امام اولو نے ابھی تک واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ وہ صدارتی انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

’استنبول اس کے حقیقی مالک کو واپس کر دیا جائے گا‘

دوسری جانبصدر اردوغان اپنی جماعت کی جانب سے استنبول کے لیے نامزد میئر کے امیدوار مرات کورم کے ساتھ پارٹی کی انتخابی ریلیوں میں شامل ہیں۔

صدر اردوغان اپنے اہم وزرا کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کے لیے بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ استنبول پر ان کی خصوصی توجہ ہے۔

انھوں نے 24 مارچ کو استنبول میں جمع ہونے والے ہزاروں حامیوں کو بتایا کہ ’استنبول اس کے حقیقی مالک کو واپس کر دیا جائے گا۔‘

انھوں نے اپنے حامیوں سے وہاں جیت کو یقینی بنانے کے لیے دن رات کام کرنے کی بھی اپیل کی۔ ’ہم 31 مارچ کو ایک نئے دور کے دروازے کھولیں گے۔ میں ملک میں جہاں بھی جاتا ہوں، میں سب سے کہتا ہوں کہ وہ استنبول میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے کہیں کہ وہ اے کے پی کو ووٹ دیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

پروفیسر اکتاس کہتے ہیں کہ ’اے کے پی کے لیے کسی دوسرے ممکنہ رہنما کی شناخت کرنا بہت مشکل ہے۔ اردوغان ایک کرشماتی اور بہت مضبوط رہنما ہیں۔ جب ہم سروے کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ اردوغان کی جگہ کسے دیکھنا چاہتے ہیں، تو جواب ہوتا ہے کسی کو نہیں، تو یہ پارٹی کے لیے ایک چیلنج ہے۔‘

تاہم صدر کے ناقدین اس بات سے متفق نہیں کہ یہ ان کا آخری انتخاب ہو گا۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ استنبول میں انتخابی فتح حاصل کرتے ہیں تو وہ اسے قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

ان کے بقول، وہجیت کی صورت میں صدر کی ایک اور مدت حاصل کرنے کے لیے آئین میں تبدیلی کے لیے اسکا استعمال کر سکتے ہیں۔

ترکی کا ماڈل استنبول

ترکی کی اسک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں سیاسیات کی پروفیسر سیڈا ڈیمرلپ کہتی ہیں کہ ’2019 میں ملک کے بڑے شہروں میں حکمراں پارٹی کے خلاف فتح نے اپوزیشن کے حوصلے بلند کیے ہیں۔ اس سے صدارتی انتخابات میں ان کی جیت کی امیدیں بڑھ گئیں۔‘

اگر امام اولو استنبولکی میئر شپ پر پر برقرار رہتے ہیں تو 2028 کے صدارتی انتخابات میں حزب اختلاف کے جیتنے کے امکانات بہت زیادہ روشن ہو جائیں گے۔

پروفیسر اکتاس کا کہنا ہے کہ استنبول ترک رہنماؤں کو قومی سیاست کی تشکیل کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔

اردوغان
Getty Images

بقول اُن کے ’جب آپ کو استنبول کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو آپ قومی سیاست اور عالمی سیاست میں بھی ایک اہم کھلاڑی بن جاتے ہیں۔‘

استنبول کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے جو ملک کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ یہاں کے ووٹرز متنوع سیاسی، نسلی، مذہبی اور معاشی پس منظر سےتعلق رکھتے ہیں۔ ان کی جڑیں ترکی کے مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ استنبول بہت سے لوگوں کے لیے ’ترکیے کا ماڈل‘ ہے۔

یہ ترکی کا اہم اقتصادی مرکز سمجھا جاتا ہے جو ملک کے جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈالتا ہے۔

استنبول پر کنٹرول کا مطلب ترکی کی اقتصادی سرگرمیوں کے ایک اہم حصے بشمول تجارت، سیاحت اور مالیات پرغلبہ حاضل کرنا ہے۔

منقسم اپوزیشن

گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس بار اردوغان کو ایک برتری یہ ہے کہ ابان کی مخالف حزب اختلاف متحد نہیں۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ استنبول میں مقابلہ بہت سخت ہو گا۔

پولنگ فرم کونڈا کے مطابق استنبول میں ایک حالیہ سروے میں امام اولو کو 38 فیصد سے زائد ووٹ ملے جبکہ اے کے پی کے مرات کورم کو صرف 32.2 فیصد ووٹ ملے۔

استنبول میں کرد بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

2019 میں امامواولو کی جیت کی بنیادی وجہ قوم پرستوں، سیکولرز، لبرلز، قدامت پسندوں، سمیت کردوں کے چھ جماعتی اتحاد کی طرف سے حاصل حمایت تھی لیکن یہ اپوزیشن اتحاد 2023 کے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ٹوٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہان میں سے کئی حزب اختلاف کی جماعتوں نے موجودہ انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

تاہم استنبول میں کسی دوسری اپوزیشن جماعت کے امیدواروں کے جیتنے کا امکان نہیں لیکن وہ امام اولو کی جیت کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

تاہم ایک اہم بات امام اولو کے حق میں جا سکتی ہے۔ ’نیو ویلفیئر پارٹی‘ نے استنبول میں اے کے پی کی حمایت کرنے کی بجائے اپنا امیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

استنبول میں جیتنے کے لیے امامواولو اور مرات کورم کو نہ صرف اپنے وفادار حامیوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے بلکہ دوسری جماعتوں کے ووٹرز کی حمایت بھی درکار ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.