غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟

اس جنگ کی اہمیت کئی حوالوں سے تھی اور شاید اسی لیے اس کا شمار دنیا کی چند فیصلہ کن جنگوں میں کیا جاتا ہے اگرچہ کہ تعداد کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی لڑائی نہیں تھی۔

سعودی عرب میں مدینہ منورہ سے تقریباً 130 کلومیٹر دوری پر بدر حنین کا میدان موجود ہے جہاں تقریباً چودہ سو سال قبل ایک ایسا معرکہ پیش آیا جسے دنیا کی چند فیصلہ کن جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ عسکری اعتبار سے دیکھا جائے تو اس جنگ میں شامل افراد کی تعداد بہت کم تھی تاہم اس جنگ کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں بھی اس دن کو یوم الفرقان یعنی فیصلے کے دن کے نام سے یاد کیا گیا۔

یہ جنگ مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست مدینہ کے لیے سیاسی، عسکری اور معاشی اعتبار سے کتنی اہم تھی مگر اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ بدر کا میدان کیوں اہم تھا اور اس کا نام کیسے پڑا؟

بدر کا میدان

بدر مدینہ منورہ سے تقریباً 80 میل کے فاصلے پر ایک بیضوی شکل کا ساڑھے چار میل چوڑا وسیع میدان ہے جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔

اس میدان کی ایک تاریخی اور معاشی حیثیت پہلے سے ہی موجود تھی اور وہ یہ کہ یمن سے شام تک کی تجارتی شاہراہ اسی میدان سے ہو کر گزرتی تھی جس پر قافلے سفر کیا کرتے تھے جبکہ مکہ اور مدینہ جانے کے راستے بھی اسی مقام پر ملتے تھے۔ بحیرۂ احمر کا ساحل یہاں سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

اس جگہ کا نام بدر رکھنے کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ یہاں بدر بن یخلد نامی ایک شخص نے ایک کنواں کھدوایا تھا جس کا پانی بے حد شفاف تھا۔

روایت ہے کہ اس کنویں میں چاند کا عکس بھی نظر آتا تھا اور چونکہ چاند کو بدر بھی کہتے ہیں اس لیے دونوں نسبتوں سے اس مقام کا نام بدر پڑ گیا۔

دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق اسلام سے قبل کے زمانہ جاہلیت میں اس مقام پر ہر سال یکم ذی القعد سے آٹھ ذی القعد تک ہر سال ایک بڑا میلہ لگتا تھا۔

وہ کیا عوامل تھے جو بدر کی جنگ کی وجہ بنے؟

ہجرت مدینہ سے قبل ہی مکہ کے سردار مسلمانوں کے مخالف تھے تاہم مکہ اور مدینہ کے درمیان جنگ کی فضا بننے میں ایک سے زیادہ عوامل شامل تھے۔

رجب دو ہجری میں مکے کا ایک سردار عمرو بن الحضرمی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو پیغمبرِ اسلام نے مقامی روایات کے مطابق اس اتفاقی قتل کا خون بہا ادا کر دیا لیکن مکے میں مقیم سرداران قریش اس قتل پر مشتعل ہو گئے۔ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ یہ عمرو بن الحضرمی کا قتل تھا جو جنگ بدر کی تمہید بنا۔

ایک واقعہ شعبان دو ہجری میں پیش آیا جب قریش کا مال و دولت سے لدا ایک قافلہ شام سے مکے آ رہا تھا جب یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمان اس قافلے پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس قافلے کا سردار ابوسفیان تھا جس نے مکے کی جانب ایک قاصد دوڑایا جس کے جواب میں مکے سے اہل قریش کا ایک قافلہ ابوسفیان کے قافلے کی مدد کے لیے مدینے کی جانب روانہ ہوا۔

دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق ہوا یوں کہ شام سے واپس آنے والا یہ قافلہ بخیر و عافیت مکہ پہنچ گیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اہل قریش مدینے کی جانب بڑھنے والے اس قافلے کو واپس بلا لیتے مگر ابوجہل کے اصرار پر اہل قریش مدینے کی جانب بڑھتے رہے اور 16 رمضان دو ہجری کو بدر کے مقام پر خیمہ زن ہو گئے۔ ان افراد کی تعداد نو سو سے ایک ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے اور یہ تمام افراد اسلحہ بند تھے۔

قریش مکہ کی روانگی کی اطلاع کے بعد پیغمبرِ اسلام نے بھی 12 رمضان کو بدر کا رخ کیا ۔ وہ 17 رمضان دو ہجری کے مطابق 13 مارچ 624 کو 313 افراد کے ساتھ بدر کے قریب پہنچے۔

اس وقت بھی قریش کے چند صلح جو آدمیوں نے کوشش کی کہ جنگ نہ ہو مگر ابوجہل کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور مقابلے کے لیے صفیں بن گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

جنگ کا آغاز اور انجام

مسلمانوں کی صف بندی کے مطابق میمنہ کے سالار حضرت زبیر بن العوام اور میسرہ پر حضرت مقدار بن عمرو تعینات تھے جبکہ لشکر کے سردار خود پیغمبرِ اسلام تھے۔

لشکر کے پچھلے حصے یعنی ساقہ کی کمان حضرت قیس بن صعصعہ کے سپرد تھی۔ فوج کا سب سے بڑا نشان یعنی پرچم حضرت مصعب بن عمیر اٹھائے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کا حرف شناخت ’یا منصور امت‘ تھا۔

عرب دستور کے مطابق جنگ کا آغاز انفرادی لڑائی سے ہوا جس میں قریش کے تین جنگجو ہلاک ہوئے اور پھر گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی۔ لڑائی کے دوران ہی دو نو عمر انصار لڑکوں معوذ اور معاذ نے مکہ کے ابوجہل کو بھی ہلاک کر دیا۔

دوسری جانب جنگ کا پانسہ مسلمانوں کے حق میں پلٹنے لگا۔ اگرچہ اہل قریش تعداد میں کہیں زیادہ تھے لیکن انفرادی لڑائی کے بعد پیغمبرِ اسلام کے حکم پر مسلمانوں کے لشکر نے قریش پر یک دم حملہ کیا جس سے جنگ کا نقشہ بدل گیا اور قریش کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔

اس دوران قریش کے کئی اہم افراد ہلاک ہوئے جن کی مجوعی تعداد 70 تھی۔ اہل قریش کے 70 افراد گرفتار بھی ہوئے جن کے بارے میں فیصلہ یہ ہوا کہ ان سے چار، چار ہزار درہم فدیہ لے کر انھیں آزاد کر دیا جائے اور جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں وہ انصار کے دس، دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔

جنگِ بدر کی اہمیت

اس جنگ کی اہمیت کئی حوالوں سے تھی اور شاید اسی لیے اس کا شمار دنیا کی چند فیصلہ کن جنگوں میں کیا جاتا ہے اگرچہ تعداد کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی لڑائی نہیں تھی۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق اس جنگ کے نتائج کی اہمیت سیاسی بھی تھی اور مذہبی بھی۔ کتاب کے مطابق ایک جانب مکہ کے درجنوں ایسے اہم رہنما ہلاک ہوئے جن کی انتظامی اور تجارتی مہارت کا کوئی نعم البدل نہ تھا۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام میں لکھا گیا ہے کہ تعداد کی اکثریت کے باوجود مکہ کی شکست نے ایک طرف ان کا اعتماد اور رتبہ کم کر دیا تو دوسری جانب اس جنگ کے بعد مکہ کے تجارتی راستے کو لاحق خطرات بھی واضح کر دیے کیوں کہ مکہ کی تمام تر دولت کا انحصار اسی تجارت پر تھا۔ یعنی قریش کی شہرت بری طرح مجروح ہوئی اور ان کی شام کی تجارتی شاہراہ بھی غیر محفوظ ہوگئی اور یوں دیگر قبائل میں بھی ان کی وقعت کم ہوئی۔

اس جنگ سے اہل مکہ کو یقیناً ہر پہلو سے نقصان ہوا تھا۔ سب سے بڑھ کر جو نقصان ہوا وہ عزت و وقار کا نقصان تھا۔ قریش مکہ کو جزیرة العرب میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ وہ عرب کے سابقہ نظام کے داعی اور محافظ مانے جاتے تھے لیکن ان کو ایک بالکل نئے نظام کی علمبردار چھوٹی سی تربیت یافتہ جماعت نے شکست دے دی تھی۔

روایات کے مطابق جزیرة العرب کے دور دراز علاقوں میں اس شکست کا ذکر ہونا بدیہی تھا، چنانچہ بدنامی سے بچنے کے لیے اہل مکہ نے فیصلہ کیا کہ اس شکست پر خاموش سوگ منایا جائے گا اور کوئی بھی اپنے مقتولین کی یاد میں (اشعار میں) گریہ و نوحہ نہ کرے گا۔

اس خاموش سوگ کے ساتھ ساتھ یہ عزم برقرار رکھا جائے کہ بدر کی شکست کا بدلہ جلداز جلد لیا جائے گا۔

کیمبرج کے مطابق دوسری جانب مسلمانوں کے لیے اس جنگ کا نتیجہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اور ان کا مذہب حق پر اور برتر ہیں اور یوں ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ اس جنگ کے بعد مسلمان ایک قوت بن کر ابھرے اور مدینے کی ریاست مستحکم ہوئی۔

اس فتح نے مدینے میں بسنے والے یہودیوں کو بھی مرعوب کردیا۔

واضح رہے کہ عسکری اعتبار سے بھی یہ جنگ بہت اہم تھی کیوں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے پیغمبرِ اسلام کی قیادت میں ایک جنگ لڑی اور اگر اس میں مسلمانوں کو شکست ہوتی تو عین ممکن تھا کہ اسلام صفحہ ہستی سے ہی مٹ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن کو قرآن میں یوم الفرقان یعنی فیصلے کے دن کا نام دیا۔

دائرہ معارف اسلامیہ نے تجزیہ کیا ہے کہ یہ جنگ اس اعتبار سے فیصلہ کن تھی کہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں پہلی مرتبہ قوت آزمائی کا موقع ملا اور مدمقابل کی اسلحے اور افراد کی کثرت کے باوجود فتح سے مسلمانوں کی ہمت بڑھ گئی اور عزم بلند ہو گئے۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ جزیرة العرب کے دیگر قبائل مسلمانوں کی قوت سے مرعوب ہوئے اور انھیں مسلمانوں کی حقانیت پر یقین آگیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.