انڈیا کے لوگ پہلے جیسی بچت کیوں نہیں کر رہے؟

روایتی طور پر انڈین گھرانے بچت کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں مگر اب اس رجحان میں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور کیا یہ انڈین معیشت کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے؟
gettyimages
Getty Images
انڈین گھرانے اپنی مجموعی کمائی کا تقریباً 12 فیصد قرضوں کی واپسی پر خرچ کرتے ہیں

انڈین گھرانے ہمیشہ سے بچت کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ہر گھرانہ اپنی کمائی کا ایک معقول حصہ ضرورت کے دنوں کے لیے بچا کر رکھتا ہے۔ اکثر اوقات، اس مقصد کے لیے لوگ اپنے خرچے بھی کم کرتے ہیں تاہم اس رجحان میں اب تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

ریزروو بینک آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لوگوں کی خالص بچت 47 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

خالص بچت سے مراد کسی بھی گھرانے کے ذمے واجب الادا قرض اور خرچے نکالنے کے بعد بچ جانے والی رقم اور سرمایہ کاری ہے۔

سنہ 2023 میں انڈیا کی مجموعی گھریلو بچت کا تناسب کم ہو کر ملک کے جی ڈی پی کا 5.3 فیصد ہو گئی۔ سنہ 2022 میں یہ 7.3 فیصد تھا۔

جبکہ دوسری جانب قرضوں کے تناسب میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سالانہ قرضے اب جی ڈی پی کا 5.8 فیصد ہے جو 1970 کے بعد کی دوسری بلند ترین سطح ہے۔

انڈیا
AFP

اعداد و شمار کے مطابق، اب زیادہ تر گھرانے اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے قرض لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جانب سے کی جانے والی بچت میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کو اپنی کمائی کا بیشتر حصہ ان قرضوں کی ادائیگیوں پر خرچ کرنا پڑٰ رہا ہے۔

نکھل گپتا ایک ماہرِ معاشیات ہیں جو موتی لال فنانشل سروسز نامی فرم سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق انڈین گھرانوں کے قرضوں کا ایک بڑا حصہ غیر رہن (نان مارگیج) قرضوں پر مشتمل ہے۔

انڈیا میں کل قرضوں میں سے تقریباً آدھے زراعت اور کاروباری نوعیت کے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر سنہ 2022 میں انڈیا میں لیے جانے والے غیر رہن (نان مارگیج) قرضے آسٹریلیا اور جاپان سے مماثل تھے۔ ان قرضوں کا تناسب امریکہ اور چین سمیت کئی بڑے ممالک سے زیادہ تھا۔

نکھل گپتا کہتے ہیں کہ کریڈٹ کارڈ، شادی بیاہ، صحت جیسے اخراجات کی مد میں لیے جانے والے قرضے کسی بھی گھرانے کی جانب سے لیے گئے مجموعی قرضوں کا محض 20 فیصد ہیں تاہم ان کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

بڑھتے ہوئے قرضوں کی شرح اور کم ہوتی بچت انڈین معیشت کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ کیا یہ افراطِ زر میں اضافے اور بڑھتی ہوئی مالی مشکلات کی جانب اشارہ کرتی ہے یا پھر یہ ایک بہتر مستقبل کا عندیہ ہے؟

نکھل کے خیال میں انڈین صارفین کے اعتماد میں کسی حد تک اضافہ ہو رہا ہے ’کئی افراد کو امید ہے کہ مستقبل میں ان کی کمائی میں خاطرخواہ اضافہ ہو گا۔ یا پھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مستقبل کی فکر کرنے کے بجائے فی الحال زندگی کا بھرپور لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ لوگوں کا شاید بچت کو لے کر نظریہ بدل رہا ہے۔ تاہم، اس بارے میں کچھ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

پچھلی ایک دہائی میں انڈیا میں گھریلو قرض لینے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے
AFP
انڈیا دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے لیکن بہتر ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے نیں اس کو مشکلات کا سامنہ ہے

مگر آپ مجبوری کی حالت میں لیے گئے قرضوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟

بار بار مجبوری کی حالت میں قرض لینے والے افراد کے نادہندہ ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو قرض فراہم کرنے والے معاشی مشکلات میں پھنسے افراد کو بھاری تعداد میں قرضے کیوں دے رہے ہیں؟

نکھل کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرض لینے والوں کے بارے میں زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہے۔ کتنے لوگوں نے قرض لیے ہیں؟ وہ کام کیا کرتے ہیں؟ لی گئی رقم کس مقصد کے لیے استعمال کی گئی یا کتنے افراد نے قرض واپس کیے ہیں؟

نکھل اور ان کی ساتھی تنیشا لاڈھا کو ایسے شواہد ملے ہیں کہ پچھلی ایک دہائی میں گھریلو قرض لینے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ معاشی لحاظ سے، زیادہ لوگوں کا قرض لینا چند قرض لینے والوں کے بھاری قرصے لینے سے بہتر ہے۔

تنیشا اور نکھل کے مطابق انڈین گھرانے اپنی مجموعی کمائی کا تقریباً 12 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ شرح چین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک سے زیادہ ہے۔

انڈین گھرانے اپنی مجموعی کمائی کا تقریباً 12 فیصد قرضوں کی واپسی پر خرچ کرتے ہیں
AFP
انڈین گھرانے اپنی مجموعی کمائی کا تقریباً 12 فیصد قرضوں کی واپسی پر خرچ کرتے ہیں

اس کی ایک وجہ انڈیا میں قرضوں پر وصول کی جانے والی شرح سود ہے جو ان ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، انڈیا میں دیے جانے والے قرضوں کی مدت مذکورہ بالا ممالک سے کم ہے۔

پچھلے برس ستمبر میں انڈیا کی وزارتِ خزانہ نے بڑھتے ہوئے قرضوں اور گھٹتی بچت کے بارے میں پیدا ہونے والی تشویش کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ کورونا کے بعد کم ہوتی شرح سود کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑیوں، پڑھائی اور گھر خریدنے کے لیے قرضے لے رہے ہیں۔

زیکو داس گپتا اور شری نواس راگھویندر ماہرِ معاشیات ہیں اور ان کا تعلق عظیم پریم جی یونیورسٹی سے ہے۔ انھوں نے انڈین اخبار ’دی ہندو‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں خبردار کیا ہے کہ قرضوں میں اضافہ کے ساتھ بچت میں کمی سے قرضوں کی واپسی اور مالیاتی کمزوری کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔

دوسری جانب، رتھن رائے جیسے ماہر معاشیات جی 20 ممالک میں سب سے کم فی کس آمدنی والے ملک میں قرض پر بڑھتے ہوئے انحصار کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ بزنس سٹینڈرڈ میں شائع اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ حکومت بنیادی خدمات اور سبسڈی دینے کے لیے قرض لیتی ہے، جبکہ گھرانے استعمال کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں۔

ان کے مطابق، اس عمل کے نتیجے میں نہ صرف پہلے سے کم ہوتی مالی بچتوں میں مزید کمی آرہی ہے بلکہ قرض لینے کی لاگت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

تنیشا اور نکھل کہتے ہیں کہ گھریلو قرضوں کی موجودہ شرح سے انڈیا کی معیشت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ تاہم، اگر یہ رجحان جاری رہا تو اس سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

راما بیجاپرکر ایک بزنس کنسلٹنٹ ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’للی پٹ لینڈ‘ میں لکھتی ہیں کہ انڈین صارفین کی کی جانب سے بڑھتی کھپت کے پیچھے عام انڈین کی ایک بہتر زندگی کی آرزو، عوامی اشیا اور سہولیات کا ناقص معیار، اور غیر مستحکم معمولی آمدنی کارفرما ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.