انڈیا کی سول سروسز کے اس سال کے امتحان میں مسلمانوں کے انتخاب کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ملک کے ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے اس سرکاری سروس میں کمیونٹی کی نمائندگی بدستور کم ہے۔
انڈیا کی سول سروسز کے اس سال کے امتحان میں مسلمانوں کے انتخاب کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ملک کے ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے اس سرکاری سروس میں مسلمان برادری کی نمائندگی بدستور کم ہے۔
اس سال 1016 میں سے 51 مسلم طلبہ کا انتخاب ہوا ہے۔ یہ تعداد گذشتہ سال 933 میں سے 29 تھی۔ سنہ 2021 میں یہ 685 میں سے 25 تھی اور 2020 میں 761 میں سے 31 تھی۔
یہ امتحان جس کے ذریعے ملک چلانے والی بیوروکریسی کے لیے افسروں کی بھرتی ہوتی ہے، دنیا کے مشکل ترین امتحانات میں سے ایک ہے جس کے لیے اس سال پانچ لاکھ 92 ہزار ایک سو اکتالیس امیدوار شریک ہوئے تھے۔
اس سال کے امتحان میں ممتاز کالج آئی آئی ٹی سے تعلیم یافتہ آدتیہ شریواستو نے ٹاپ کیا ہے۔ گذشتہ سال بھی 236 رینک کے ساتھ انھوں نے یہ امتحان پاس کیا تھا اور ان کا تعین پولیس سروسز میں کیا گیا تھا لیکن بہتر رینک کے لیے انھوں نے دوبارہ شرکت کی۔
ایسے امتحان میں جس میں لاکھوں شریک ہوتے ہیں ٹاپ کرنا واضح طور پر ایک قابل تعریف کارنامہ ہے لیکن کم رینک سے بھی اسے پاس کرنا آسان نہیں۔
18واں رینک حاصل کرنے والی دلی یونیورسٹی سے کامرس گریجویٹ وردہ خان نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ٹاپ 20 میں آؤں گی۔ ہر امیدوار کی طرح مجھے بھی یہ امید تھی کہ صرف لسٹ میں نام آ جائے۔‘
وہ 2021 سے اس امتحان کی تیاری کر رہی تھیں اور دوسری بار میں اسے پاس کیا۔
https://twitter.com/ANI/status/1780238559028380156
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ رستہ یقیناً چیلنجنگ رہا ہے کیونکہ اس کے لیے کافی تنہائی میں وقت گزارنا ہوتا ہے۔ سوشل لائف کو قربان کرنا پڑتا ہے۔‘
لیکن انڈیا میں لوگوں کے لیے یہ سروس اتنی پرکشش ہے کہ کئی امیدوار برسوں تک اس کی تیاری کرتے ہیں۔ ہر بڑے شہر میں ایسے علاقے ہیں جہاں اس کی تیاری کے لیے کوچنگ سینٹرز اور طلبہ کی رہائش گاہیں ہیں۔
ملک میں اچھے معیار کی ملازمتوں کی کمی اور سماجی عدم مساوات کی وجہ سے سول سروسز کی ملازمت کے ساتھ آنے والا وقار نجی شعبے کے مقابلے میں کم تنخواہ ہونے کے بعد لوگوں کی اس کی طرف راغب کرتا ہے بلکہ ملک کے کئی حصوں میں سول سروسز کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ان امیدواروں کی شادی کے امکانات میں بہتری ہوتی ہے۔
امتحانات کی تیاری میں مدد کرنے والے مراکز کا کہنا ہے کہ مسلمان امیدواروں کی دھیرے دھیرے بڑھتی ہوئی تعداد ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ اسے سیاق و سباق میں دیکھا جانا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ تعداد ہر سال نشستوں کی دستیابی کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے لیکن مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد سے زائد ہونے کے باوجود کبھی بھی اس امتحان میں کاماب ہونے والے مسلمانوں کی تعداد پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوئی ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی نمائندگی کی کمی کی بڑی وجہ مسلمانوں میں اس کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے۔
سابق سرکاری ملازم اور یہ امتحان پاس کرنے والے ظفر محمود جو کہ اب پسماندہ گروپوں کے لیے سول سروسز کے لیے کوچنگ کا مرکز چلاتے ہیں کہتے ہیں کہ ’یہ نمائندگی کی کمی امتیازی سلوک کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی قابل امیدواروں کی کمی کی وجہ سے۔ حالات انھیں آگاہی فراہم کرنے، ان کے اعتماد میں اضافہ کرنے اور انھیں احساسِ کم تری سے نکالنے سے بہتر ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’کافی حد تک آگاہی بہتر ہوئی ہے لیکن ابھی کافی بھی کم ہے۔ ہم صرف پانچ فیصد تک پہنچ پائے ہیں لیکن آزادی سے لے کر ابھی تک کا ’بیک لاگ‘ پورا ہونا چاہیے۔‘
گذشتہ دو دہائیوں میں مسلمان برادری کے رہنماؤں نے اس خلا کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ پرائیویٹ کوچنگ سینٹرز کی طرح جو طلبہ امتحان کی تیاری میں مدد کرتے ہیں، انھوں نے بھی پسماندہ طبقات کے طلبہ کو مفت یا کم پیسوں میں امتحان کی تیاری کروانے کے لیے مراکز قائم کیے ہیں۔
https://twitter.com/narendramodi/status/1780172210281332878
حالیہ برسوں میں محمود کی تنظیم ذکات فاؤنڈیشن آف انڈیا اور نامی گرامی ہمدرد گروپ کے زیر انتظام مراکز نے حوصلہ افزا نتائج دیے ہیں۔
2000 اور 2010 کی دہائی کے اوائل میں انڈین حکومت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) جیسی یونیورسٹیوں میں بھی مراکز قائم کرنے میں مدد کی اور ان مراکز نے بھی حوصلہ افزا نتائج دکھائے ہیں۔
اس سال جامعہ کے کوچنگ سنٹر سے اس امتحان میں مسلمانوں سمیت دیگر پسماندہ طبقوں سے 31 امیدوار کامیاب رہے جبکہ اے ایم یو سے تین امیدوار۔
اے ایم یو میں کوچنگ سینٹرز کے سربراہ پروفیسر صغیر انصاری کا کہنا ہے کہ یہ نتائج مسلمانوں کی سماجی اقتصادی حالت کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر اس امتحان میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے۔‘
انصاری کہتے ہیں کہ ان امتحانات میں کامیابی کی شرح کم ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں شرکت کرنے والے زیادہ تر مسلمان طلبہ اپنے خاندان میں کالج جانے والوں میں سے پہلی یا دوسری نسل کے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کالج جانے والی پہلی نسل کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ امتحانات کیا ہیں۔ دوسری نسل اس کے بارے میں جانتی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ اس کی تیاری کیسے کی جائے۔ ان گروپوں کی فوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد کسی بھی طرح کی کوئی ملازمت حاصل کر لیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ان کے ادارے میں آنے والے زیادہ بچے ایسے ہیں جن کی بنیاد بنانے میں ہی ان کا اچھا وقت نکل جاتا ہے۔
https://twitter.com/jamiamillia_/status/1780211567621005776
انصاری نے خود سول سروسز کے امتحانات میں 80 کی دہائی کے دوران کامیابی حاصل کی تھی لیکن اپنی پسند کا کیڈر نہ ملنے کی وجہ سے بیوروکریسی میں نہیں گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں کے سماجی معاشی حالات بہتر ہوں گے تو یہ نتائج بھی بہتر ہوں گے۔
کئی برسوں تک سینیئر سرکاری افسر رہنے والے ظفر محمود کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے ان میں اس سے متعلق آگاہی ایک اہم عنصر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں کی گئی کوششوں کا نتیجہ واضح ہے۔ بڑھتی ہوئی آگاہی کے ساتھ نتائج میں بہتری آئی ہے، بشمول مسلمان خواتین میں۔
اس سال 51 کامیاب مسلم امیدواروں میں سے 16 خواتین ہیں۔
محمود کہتے ہیں کہ یہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ضرور ہے لیکن سول سروسز میں مسلم خواتین کے انتخاب میں معمولی اضافہ حالیہ برسوں میں سول سروسز میں عام طور پر خواتین کے انتخاب کے بڑھتے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بہت بری بات تھی کہ آدھی آبادی کی نمائندگی نہایت ہی کم ہے لیکن ابھی بھی آبادی کے حساب سے وہ 50 فیصد نہیں ہے۔ اچھا ہے کہ یہ بدل رہا ہے۔‘