غلطی پر چھوٹی انگلی کی قربانی کا غیرت کوڈ: ’جاپانی مافیا یاکوزا‘ جو آج بھی سرِعام اپنی روایات پر چل رہا ہے

جاپان کا مافیا یاکوزا دنیا کا سب سے قدیم مجرمانہ گروہ ہے، جس کے غیرت کا اپنا ہی کوڈ ہے اور روایات، رسومات اور شناختی علامات ہیں۔ یہی باتیں اس گروہ کو دوسرے مجرمانہ گروہوں جیسے لاطینی امریکی ’کارٹلز‘ یا اطالوی اور روسی مافیاز کے مقابلے میں منفرد بناتے ہیں۔
gettyimages
Getty Images

جاپانی شہروں کی چکاچوند روشنیوں، فلک بوس عمارتوں اور مندروں کے درمیان مسلسل ہلچل ایک ایسی خفیہ دنیا کو چھپا رہی ہے جس نے صدیوں سے معاشرے کو مسحور اور خوفزدہ کر رکھا ہے۔

جاپان کا مافیا یاکوزا دنیا کا سب سے قدیم مجرمانہ گروہ ہے، جس کی غیرت کا اپنا ہی کوڈ، روایات، رسومات اور شناختی علامات ہیں۔ یہی باتیں اس گروہ کو دوسرے مجرمانہ گروہوں جیسے لاطینی امریکی ’کارٹلز‘ یا اطالوی اور روسی مافیاز کے مقابلے میں منفرد بناتے ہیں۔

یہ 25 مجرمانه گروہوں پر مشتمل گروہ ہے، جن میں تین اہم سمجھے جاتے ہیں اور پھر ان تین کے نیچے سینکڑوں ذیلی گروپس بہت منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔

جاگیرداروں اور سامورائی جنگجوؤں کے ملک جاپان میں چار صدیاں قبل یاکوزا کا سنہری دور سنہ 1960 اور سنہ 1980 کے درمیان کا تھا، جب اس گروہ کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ تھی۔

یہ گروہ جدت اپنانے میں کہیں پیچھے رہ گیا ہے اس کے علاوہ قانونی چارہ جوئیوں اور پولیس کے ظلم و ستم نے اس کے اراکین کی تعداد گھٹا کر تقریباً دس ہزار تک کر دی ہے۔

ہم آپ کو اس مجرمانہ گروہ کو سمجھنے کے لیے چار حقائق بتاتے ہیں جو 21ویں صدی میں بھی متحرک ہے۔

یاکوزا
Getty Images

یاکوزا نام کیسے پڑا؟

لفظ یاکوزا 8، 9، 3 جسے جاپانی زبان میں یا، کُو، زا پڑھتے ہیں سے نکلا ہے۔ جاپان کے روایتی مشہور تاش کے کھیل ’اوئچو کیبیو‘ میں یہ نمبر بدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

یہ گروہ اپنے آپ کو گوکودو (انتہائی رستہ) اور نینکیو دانتائی (معزز یا بہادر تنظیم) جیسے ناموں سے بھی متعارف کراتا ہے۔

یاکوزا 17 ویں صدی میں جاپانی جاگیردارانہ معاشرے کے معمولی گروہوں جیسے باکوتو (جواری)، تکیہ (بیکار) اور بے روزگار سامورائی یا رونن کے ہاتھوں میں پروان چڑھا۔

ان میں سے بہت سے سامورائیوں نے بغیر کسی بڑے سردار کے گینگ بنائے جو بعد میں پھر مجرمانہ گروہوں میں ڈھل گئے۔

تکیہ اور باکوتو نے کئی سامرائی روایات کو اپنایا، جس میں عزت کا ایک سخت ضابطہ اور وفاداری کی رسومات شامل ہیں، جو یاکوزا کی تنظیمی ثقافت کی عکاس ہیں۔

سامورائی میراث نے ان گروہوں کو بہت سخت تنظیمی ڈھانچے میں بدلا، جس کی بنیادوں میں باہمی احترام، اطاعت اور سب سے بڑھ کر چیف یا اویابن کے ساتھ مکمل وفاداری شامل ہے۔

یاکوزا
Getty Images

اقدار اور رسومات ’اپنی غلطی پر معافی مانگنے کے لیے چھوٹی انگلی کا ایک حصہ کاٹ دیتے ہیں‘

یاکوزا کی اقدار اور نظریے کا ایک منفرد پیچیدہ نظام ہے، جس کی تاریخی جڑیں جاگیردارانہ جاپان سے ملتی ہیں۔

یہ اقدار جاپانی معاشرے میں صدیوں کے دوران قائم ہوئیں، اس کی ہر تہہ میں ٹوکیو کے انتہائی خاص علاقتوں سے لے کر جاپانی دارالحکومت کے انڈر ورلڈ تک، اور جائز کاروبار سے لے کر انتہائی غیر واضح معاملات شامل ہے۔

یاکوزا اپنے ایک کوڈ آف آنر یعنی عزت کے ضابطے پر کاربند ہے، جس میں روایتی مردانگی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ماہر عمرانیات نوبورو ہیروسو، جو جاپانی مافیا پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور اس موضوع پر دنیا کے معروف ماہرین میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ اس کوڈ آف آنر کی بنیاد ایک مرد کی طرح جینے اور مرنے کا عزم ہے۔

ہیروسو کا کہنا ہے کہ گروہ کے اراکین ’یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں جسمانی اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو اپنی تنظیم کے لیے وقف کرنا چاہیے اور اپنے اویابون کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری کا مظاہرہ کرنا یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی قربان کر دی جائے، وہ اسے اعزاز سمجھتے ہیں۔‘

یاکوزا
Getty Images

یاکوزا کے کوڈ آف آنر کے نظریے کا مرکزی خیال گِیری (ذمہ داری) اور نِنجو (انسانیت) کے تصورات ہیں۔

گیری کے تصور کے تحت ایک رکن اپنے اعلیٰ عہدیدار کا وفادار بن کر رہتا ہے اور یہ چیز تنظیم کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ننجو کا فلسفہ دوسروں سے ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ یہ تصور سخت گیر تنظیمی ڈھانچے کے دوسرے اہم عنصر ’گیری‘ کی رسم میں ایک توازن لاتا ہے۔

دونوں خود قربانی کے گہرے جذبے پر مبنی ہیں، جس کی وجہ سے اراکین گروپ کے مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔

اس کی ایک مثال ’یوبیتسومے‘ کی رسم ہے، جس میں ایک رکن اپنی یا اپنے کسی ماتحت کی غلطی پر اپنے اویابون سے معافی مانگنے کے لیے اپنی انگلی، عام طور پر چھوٹی انگلی کا ایک حصہ کاٹ دیتا ہے۔

یاکوزا
Getty Images

ہیروسو کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ کسی غلطی کی وجہ سے انگلی کا کھو جانا شرم کا باعث ہو سکتا ہے، لیکن ماتحت کی ناکامی کی بھرپائی کے لیے چھوٹی انگلی کی قربانی دینا قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔‘

تاہم یہ روایت اب دم توڑ رہی ہے اوراب جاپانی مافیا کے ارکان عموماً اپنی غلطیوں کے خمیازے کے طور پر جرمانے ادا کرتے ہیں۔

اگرچہ ’یوبتسومے‘ کی رسم بہت مقبول ہے مگر یاکوزا کی سب سے اہم رسم ’ساکازوکی‘ ہے۔ یہ ایک افتتاحی تقریب ہوتی ہے جس میں ایک نیا رکن ’باس‘ کے ساتھ شراب پیتا ہے۔

یہ عمل ’خاندان‘ کے ایک نئے رکن ’کوبون‘ کو گود لینے کی علامت ہے۔ کوبون کو اویابون کا ’بیٹا‘ سمجھا جاتا ہے اور اس تقریب میں وہ اپنے باس سے وفادار رہنے کا حلف اٹھاتا ہے۔

ہیروسو کے مطابق یاکوزا گروپوں کو ایک نام نہاد خاندانی تعلقات میں تشکیل دیا گیا ہے، جس میں اعلیٰ افسران کو ’انیکی‘ یا بڑا بھائی کہا جاتا ہے، باس کے بھائیوں کو ’اونیسن‘ یا ماموں کہا جاتا ہے، اور باس کی بیوی کو ’انیسان‘ یا بڑی بہن کہا جاتا ہے۔

ان تنظیموں کا باقاعدہ کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہے، لیکن ان کا رجحان جاپانیوں کی دائیں اور انتہائی دائیں بازو کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

جاپان میں جرائم سے متعلق آکسفورڈ یونیورسٹی کی ماہر اور بی بی سی منڈو کی محقق مارٹینا براڈیل کا کہنا ہے کہ ’سب سے پہلے جاپان، پھر سامرائی روایات، آنر اور جاپان کا ’شاندار‘ سامراجی ماضی (جیسے نعرے) انتہائی دائیں بازو کی سیاست کا حصہ ہیں۔۔ یوں ان کی آپس میں نظریاتی مطابقت پائی جاتی ہے۔

مارٹینا براڈیل نے مزید کہا کہ یاکوزا کبھی کبھار قدامت پسند سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں حالانکہ وہ عام طور پر اپنی ساکھ کو براقرار رکھنے کے لیے مافیا کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات سے انکار کرتے ہیں۔

یاکوزا
Getty Images

’اطالوی مافیا مکمل طور پر پوشیدہ ہے، جبکہ یاکوزا کھلے عام موجود ہے‘

دنیا کے دیگر حصوں میں مجرمانہ تنظیموں کے برعکس یاکوزا کبھی بھی غیر قانونی نہیں رہی ہے حالانکہ اسے تیزی سے پابندی والے قوانین کا سامنا ہے جو اس کی سرگرمیوں پر کاری ضرب کے مانند ہیں۔

ہیروسو کا کہنا ہے کہ ’اطالوی مافیا مکمل طور پر پوشیدہ ہے، جبکہ یاکوزا کھلے عام موجود ہے۔‘

اس مجرمانہ ادارے کی یونینز جاپان کے آئین کے آرٹیکل 21 میں شامل آزاد انجمن کے حق سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔

ان کے مطابق ’جب تک وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بنتے (تو انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا) کیونکہ ’عوامی اخلاقیات‘ یا نظم و ضبط پر نظر رکھنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے۔‘

درحقیقت 20 ویں صدی کے آخر تک بہت سے یاکوزا ہیڈکوارٹرز کے دروازے پر تختیاں آویزاں تھیں، ٹیلی فون ڈائریکٹریز میں وہ درج تھے، اور ان کے ممبران میٹنگز میں بزنس کارڈ اس طرح دیتے تھے جیسے وہ کسی کمپنی کے ملازم ہوں۔

لیکن اب ایسا نہیں رہا: گذشتہ تین دہائیوں میں جاپانی حکومت نے جرائم پیشہ گروہوں کی مالی معاونت کو کمزور کرنے، انھیں الگ تھلگ کرنے، ان کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے اور معاشرے پر ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے قوانین کو سخت کیا ہے۔

اگرچہ یاکوزا سے تعلق رکھنا اب بھی غیر قانونی نہیں ہے، لیکن پھر بھی اس تنظیم کے ارکان نیم پوشیدہ حالت میں حکام کی تفتیش کا حصہ ہیں۔

مارٹینا براڈیل بتاتی ہیں کہ جب کوئی جرم کرتا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے، اگر وہ یاکوزا کا رکن ہے، تو ان کے عمل کو ایک ’پیٹرن‘ کے طور پر لیا جاتا ہے اور پھر اسی جرم کے لیے انھیں کسی دوسرے شخص سے زیادہ لمبی سزائیں ملتی ہیں۔

یاکوزا
Getty Images

لیکن یاکوزا کرتے کیا ہیں؟

روایتی طور پر اس گروہ سے وابستہ افراد جوئے، بھتہ خوری، قرض کی وصولی، غیر قانونی قرضوں، جسم فروشی اور منشیات کی سمگلنگ وغیرہ میں کے دھندوں میں ملوث ہیں۔

ہیروسو کا کہنا ہے کہ وہ فرنٹ کمپنیوں کے ذریعے سے جائز کاروبار جیسا کہ رئیل اسٹیٹ، تعمیرات اور سٹاک ٹریڈنگ میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

تاہم منظم جرائم کے خلاف قوانین کی سختی، خاص طور پر سنہ 1992 اور سنہ 2010 کے دو قوانین نے جاپانی مافیا کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا ہے۔

ہیروسو کےمطابق ’وہ آہستہ آہستہ زیادہ پوشیدہ اور گمنامی میں چلے گئے ہیں۔ اب وہ جعلسازی، ڈکیتی اور چوری جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ طریقے جن سے یاکوزا اپنی آمدنی حاصل کرتے ہیں وہ ڈرانے سے دھوکے تک ہیں۔‘

ان کے مطابق ’حالیہ دنوں میں انھوں نے نیم منظم گروہوں کے ساتھ تعاون کیا ہے جنھیں ’ہینگور‘ کہا جاتا ہے تاکہ وہ دھوکہ دہی، ڈکیتی، چوری، منشیات کی سمگلنگ اور انسانی سمگلنگ جیسی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔‘

یاکوزا مخالف قوانین سے یہ تنظیم کمزور ضرور ہوئی ہے، وہیں یہ قوانین ایسے ممبران جو جرم کی دنیا چھوڑ کر معاشرے میں ضم ہونا چاہتے ہیں کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بن رہے ہیں۔

یہ قانون کمپنیوں اور افراد کو یاکوزا کے اراکین کو ادائیگی کرنے سے روکتا ہے۔ اسی طرح یہ قانونی پابندی ان لوگوں کے لیے جو حال ہی میں تنظیم چھوڑ چکے ہیں، بینک اکاؤنٹ کھولنے، مکان کرایہ پر لینا یا موبائل فون خریدنا مشکل بنا دیتا ہے۔

ہیروسو کی رائے میں ’نتیجتاً، وہ معاشرے میں دھتکارے ہوئے طبقات کے طور پر زندگی گزارتے ہیں اور معاشرے سے بدظن ہو جاتے ہیں۔‘

ٹیٹو
Getty Images

ٹیٹو، علامتیں اور ہتھیار

ٹیٹو بنانے کا فن، جسے ’ایرزومی‘ کہا جاتا ہے، یاکوزا کی سب سے زیادہ پہچانی جانے والی علامتوں میں سے ایک ہے۔

ہیروسو کے مطابق ’جاپانی ثقافت میں، ٹیٹو روایتی طور پر خطرناک پیشوں جیسے کوئلے کی کان کنوں اور ماہی گیروں سے وابستہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسے حادثات کی صورت میں جن میں چہرہ ناقابل شناخت ہو جاتا ہے، وہ شکار کی شناخت میں مدد کر سکتے تھے۔‘

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ وہ منظم جرائم کی تقریباً خصوصی علامت بن گئے۔

کوئی کارپ، ڈریگن، چیری بلاسم، سامورائی جنگجو اور دیگر روایتی جاپانی عناصر کی تصاویر پہننے والے کی شخصیت، کامیابیوں یا زندگی کی کہانی کے ساتھ ساتھ مجرمانہ گروہ کے ساتھ ان کی وابستگی کے پہلوؤں کو پیش کرتی ہیں۔

ہیروسو کا کہنا ہے کہ ’ان افراد سے تنظیم یہ حلف لیتی ہے کہ وہ کبھی بھی عام معاشرے کا دوبارہ حصہ نہیں بنیں گے اور تنظیم میں شامل ہونے کے بعد یاکوزا کے طور پر ہی زندگی بسر کریں گے۔‘

جاپان میں اب بھی ٹیٹوز کو برا سمجھا جاتا ہے اور جرم سے جوڑا جاتا ہے اور جاپان میں ٹیٹو والے لوگوں کو بہت ساری عوامی جگہوں پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔

آتشیں اسلحے کے بجائے ’بلیڈ والے‘ ہتھیاروں کا استعمال

ٹیٹوز کے علاوہ یاکوزا اپنے اراکین کی شناخت اور ان کی وابستگی ظاہر کرنے کے لیے نشان، جھنڈے اور دیگر واضح دکھائی دینے والی علامات کا استعمال کرتے ہیں۔

ان علامتوں میں یاکوزا ثقافت کے اندر مخصوص معنی کے ساتھ فطرت اور جاپانی افسانوں کے حوالے شامل ہیں جیسے وفاداری، طاقت، یا مصیبت پر قابو پانے کی صلاحیت۔

ایک اور عنصر جو جاپانی مافیا کو دوسرے ممالک کے مافیا سے جدا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بمشکل ہی آتشیں اسلحے کا استعمال کرتے ہیں اور مثال کے طور پر لاطینی امریکی کارٹیلز کے مقابلے میں تشدد کا بہت کم استعمال کرتے ہیں۔

ہیروسو کہتے ہیں کہ ’سخت قوانین کی وجہ سے وہ شاذ و نادر ہی آتشیں ہتھیار استعمال کرتے ہیں، اور جب وہ ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو وہ عام طور پر ’بلیڈ‘ والے ہتھیار ہوتے ہیں۔ یہ عام طور جیب میں رکھنے والے چاقو ہوتے ہیں۔‘

ہیروسو کا کہنا ہے کہ ’جب وہ جسمانی طاقت کا سہارا لینا چاہتے ہیں جیسا کہ تشدد اور دھمکی تو وہ طاقت کے استعمال کے لیے اپنے گروپ کا نام بتا دیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق جب یاکوزا تشدد کا سہارا لے تو پھر نتیجہ مہلک ہو سکتا ہے۔

’جو چیز یاکوزا کو خوفناک بناتی ہے وہ مفادات کے تصادم کا سامنا کرنے پر قتل کا سہارا لینے پر آمادگی ہے، جس کا نتیجہ بالآخر ان کے مخالفین کی موت کی صورت میں نکلتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.