بڑی آنت کا کینسر کتنا خطرناک ہے اور یہ 50 سال سے کم عمر افراد میں عام کیوں ہو رہا ہے؟

پچھلی تین دہائیوں میں 50 سال سے کم عمر افراد میں بڑی آنت کا کینسر عام ہو رہا ہے، یہ کیوں ہوتا ہے اور اس کی جلد تشخیص کیسے ممکن ہے؟
کولوریکٹل کینسر
Getty Images

گذشتہ برسوں کی نسبت کولوریکٹل یا بڑی آنت کے کینسر کے کیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں کچھ ماہرین اسے ’خطرناک‘ اور ’پریشان کن‘ کہہ رہے ہیں وہیں دیگر کے نزدیک اس معاملے پر ایک ’عالمی الرٹ‘ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ٹیومر بڑی آنت اور مقعد کو متاثر کرتا ہے اور اس سے مریض کی صحت اور معیار زندگی پر اثر پڑتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اس کینسر کے کیسز کے معاملے میں ایک نیا رجحان دیکھںے میں آیا ہے۔ دنیا کے کچھ حصوں میں، بڑی عمر کے لوگوں میں کولوریکٹل کینسر کی تعداد نسبتاً مستحکم رہی ہے لیکن دوسری جانب 50 سال سے کم عمر مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

بی بی سی نے اس بارے میں طبی ماہرین سے بات کی ہے۔

پاؤلو ہوف کینسر کے ڈاکٹر ہیں اور برازیل میں آنکولوجی کیئر نیٹ ورک کے صدر بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آج کے موجودہ اعداد و شمار کا موازنہ 30 سال پہلے کی شرح سے کریں تو کچھ تحقیقات کے مطابق نسبتاً کم عمر مریضوں میں کولوریکٹل کینسر کے کیسز میں 70 فیصد اضافے کے شوہد ملتے ہیں۔‘

ان نئے شواہد کی بنیاد ہر کئی ممالک نے اپنی صحتِ عامہ کی پالیسیوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ امریکہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کولوریکٹل ٹیومر کے ابتدائی سکریننگ ٹیسٹ کے لیے عمر کو کم از کم 50 سے کم کر کے 45 سال کر دیا گیا ہے۔

Getty Images
Getty Images

اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟

پین امریکن ہیلتھ آرگنائزیشن (پی اے ایچ او - PAHO) کا کہنا ہے کہ کولوریکٹل کینسر دنیا بھر میں مردوں میں پائے جانے والے کینسر کی تیسری سب سے عام قسم ہے جبکہ خواتین میں یہ دوسرا سب سے زیادہ عام کینسر ہے۔

پی اے ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ امریکہ میں چوتھا سب سے عام کینسر ہے۔ ہر سال امریکہ میں اس کے تقریباً 246,000 نئے کیسز سامنے آتے ہیں اور اس کینسر کے سبب تقریباً 112,000 اموات واقع ہوتی ہیں۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں لاطینی امریکہ اور کیریبین میں کولوریکٹل کینسر کے کیسز میں اضافہ ہوا۔ اس رپورٹ کے مطابق اس کی وجوہات میں اوسط عمر میں اضافہ، طرز زندگی اور خوراک میں تبدیلی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کی گلوبل کینسر آبزرویٹری (GLOBOCAN) کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 سے نو لاطینی امریکی ممالک میں کولوریکٹل کینسر کے کیسز اور اس سے ہونے والی اموات کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا۔

ان ممالک میں ارجنٹینا، برازیل، چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، کیوبا، ایکواڈور اور میکسیکو شامل ہیں۔

ڈاکٹر موریسیو مازا پی اے ایچ او کے کینسر کی روک تھام اور کنٹرول کے مشیر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم متعدی بیماریوں کے دور سے نکل کر دائمی بیماریوں کے دور میں چلے گئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا طرز زندگی ہے۔‘

کولوریکٹل کینسر
Getty Images
واشنگٹن میں ’یونائیٹڈ ان بلیو‘ نامی تنظیم بڑی آنت کے کینسر کے بارے میں آگاہی پھیلانے کا کام کرتی ہے

ماہرین کے خیال میں ’موٹاپا، سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور خوراک میں تبدیلی‘ اس قسم کے کینسر کے کیسز میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

پچھلے سال ارجنٹائن کانگریس آف گیسٹرو اینٹرولوجی اینڈ ڈائجسٹو اینڈوسکوپی میں پیش کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ارجنٹینا میں 20 سے 54 سال کی عمر کے افراد میں بڑی آنت کے کینسر سے ہونے والی اموات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 1997 اور 2020 کے درمیان اس میں تقریباً 25 فیصد اضافہ ہوا۔

دریں اثنا امریکہ میں سنہ 2023 کے اوائل میں شائع ہونے والی امریکی کینسر سوسائٹی (ACS) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق سنہ 2019 میں کولوریکٹل ٹیومر کے 20 فیصد نئے کیسز کی تشخیص 55 سال سے کم عمر افراد میں ہوئی۔

یہ شرح سنہ 1995 کے مقابلے میں تقریناً دگنی ہے۔

محققین کا خیال ہے کہ 50 سال سے کم عمر کے مریضوں کی تعداد میں ہر سال تقریباً تین فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔

سنہ 2022 میں نیچر ریووز کلینیکل آنکولوجی میں ایک تحقیق شائع کی گئی جس میں 44 ممالک کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا۔

اس تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ 1990 کی دہائی سے امریکہ میں نوجوان بالغوں میں کولوریکٹل کینسر کے کیسز میں اوسطاً دو فیصد اضافہ ہوا۔

تاہم اب امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جاپان اور برطانیہ میں یہ شرح تین فیصد سالانہ تک پہنچ گئی ہے جبکہ کوریا اور ایکواڈور میں یہ تقریباً پانچ فیصد سالانہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کینسر کی شرح میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

سیموئیل ایگوئیر جونیئر، ساؤ پالو میں کولوریکٹل ٹیومر ریفرنس سینٹر کے سربراہ ہیں۔ ان کے لیے یہ اعداد و شمار ایک ’عالمی خطرے‘ کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’35 یا 40 سال کے نوجوانوں کا ٹیومر کی سکریننگ کے لیے آنا ایک عام بات ہے۔‘

وہ کینسر کی کسی بھی ممکنہ علامات پر توجہ دینے کی تجویز کرتے ہیں۔ سیموئیل کا کہنا ہے کہ عمر سے قطع نظر، اگر کسی کو اپنی آنتوں میں کوئی مسئلہ محسوس ہو تو انھیں فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔

’اگر آپ کے پاخانے میں خون آئے، آنتوں میں کوئی تبدیلی محسوس ہو یا پیٹ میں درد رہتا ہے تو ڈاکٹر سے چیک کروانا ضروری ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ جوان ہیں تب بھی ان علامات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے.

کولوریکٹل کینسر
Getty Images
جسمانی سرگرمی کی کمی بھی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے

جیکوم، برازیلین سوسائٹی آف کلینیکل آنکولوجی (SBOC) کی معدے کے نچلے حصے کے ٹیومر کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نوجوانوں میں کیسز میں اضافہ تشویشناک ہے، یہ وہ نوجوان ہیں جنھیں ابھی نوکری، شادی اور بچے پیدا کرنے ہوتے ہیں۔۔۔ ان کے کئی خواب ہوتے ہیں۔‘

ان کے مطابق نوجوانوں میں کولوریکٹل ٹیومر کیوں بڑھ رہا ہے، اس کے متعلق کچھ مفروضے تو ہیں لیکن ان میں سے کسی کی بھی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ حالیہ دہائیوں میں دیہی ثقافت کا غائب ہونا اور ہمارے رہن سہن کے طریقوں میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔

’اس نے زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو تبدیل کر دیا ہے، پراسیسڈ مصنوعات پر مبنی خوراک میں اضافہ ہوا، قدرتی کھانوں کا استعمال کم ہو گیا اور لوگ اب چلنے پھرنے کی بجائے زیادہ دیر تک بیٹھنے لگے ہیں۔‘

طرز زندگی میں تبدیلیاں نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے کولوریکٹل کینسر کی واحد وجہ نہیں۔

جیکوم کہتے ہیں کہ ہم اینٹی بائیوٹک کے اندھا دھند استعمال کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔

Getty Images
Getty Images
کولونسکوپی کولوریکٹل ٹیومر کا پتہ لگانے کا ایک کامیاب طریقہ ہے

کولوریکٹل کینسر کی تشخیص

اس قسم کے ٹیومر کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر دو اہم ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں، ’فیکل بلڈ ٹیسٹ اور کولونیسکوپی‘۔ پہلا ٹیسٹ یہ بتاتا ہے کہ آیا کسی شخص کے پاخانے میں خون موجود ہے۔

اگرچہ سرخ سیال کی موجودگی کینسر کی براہ راست علامت نہیں، یہ ایک عام السر کی علامت بھی ہوسکتی ہے اور اس کے بعد مزید جانچ کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری طرف، کولونیسکوپی میں مقعد کے ذریعے کیمرا ڈالا جاتا ہے۔ اس سے ڈاکٹر بڑی آنت کے اندر کا حصہ دیکھ سکتا ہے اور یہ معلوم کر سکتا ہے کہ آیا آنتوں میں کوئی مسئلہ تو نہیں۔

جیکوم کی نظر میں کولونیسکوپی بہترین ٹیسٹ ہے کیونکہ اس میں زخموں کا درست پتا لگانے کا بہتر موقع ہوتا ہے لیکن کئی ممالک میں وسائل کی کمی کے باعث ہر مریض کے لیے یہ ٹیسٹ کروانا ممکن نہیں۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس ٹیسٹ کے لیے مریض کو کئی گھنٹے تک بے ہوش رہنا پڑتا ہے۔

جیکوم کا کہنا ہے کہ ’دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے کولوریکٹل کینسر کی سکریننگ کے لیے کولونیسکوپی کرنا تقریباً ناممکن ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ فیکل بلڈ ٹیسٹ نہ صرف سستا ہے بلکہ اسے کرنا آسان بھی ہے۔ ’اگر یہ ٹیسٹ سال میں ایک بار کروا لیا جائے تو اس سے بیماری کی ابتدائی علامات کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔‘

اس کے باوجود 20 فیصد سے بھی کم آبادی یہ ٹیسٹ باقاعدگی سے کرواتی ہے۔

اگر نتائج اچھے ہوں تو ایک سال بعد ٹیسٹ دہرانے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاہم، جن لوگوں کے پاخانے کے نمونوں میں خون پایا جاتا ہے انھیں مزید علاج اور ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاخانے میں خون آنے کا مطلب یہ نہیں کہ کینسر ہو گا۔ ایسا صرف پانچ فیصد کیسز میں ہوتا ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق بلڈ ٹیسٹ ایک سستا طریقہ ہے اور اس سے محدود وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد ملتی ہے۔

امید کی کرن

نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے کیسز کے بارے میں خدشات کے باوجود ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کولوریکٹل کینسر کی تشخیص میں بہتری آئی ہے۔

یہ سرجری کی تکنیکوں میں ترقی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جس کی وجہ سے اب اس کینسر کا ابتدائی سٹیج پر ہی علاج ممکن ہے۔

بہت سے کیسز میں بنا سرجری کے ادویات کے ساتھ بھی علاج ممکن ہے جبکہ کیموتھراپی اور امیونو تھراپی اس کے علاج میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔

اگر ٹیومر کا پتا جلدی لگ جائے تو علاج کا امکان 95 فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن بیماری اگر جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جائے تو علاج مشکل اور کامیابی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر علاج ممکن نہ ہو تب بھی، اس ٹیومر کے مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات 20 سال پہلے کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.