نریندر مودی کی جماعت انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں الیکشن کیوں نہیں لڑ رہی؟

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے چار سال بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس اقدام پر خطے میں غم و غصے کی نشاندہی کرتا ہے اور پارٹینے خود بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔
کشمیر
Getty Images

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے چار سال بعد بھارتیہ جنتا پارٹی نے رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں اور حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس اقدام پر خطے میں غم و غصے کی نشاندہی کرتا ہے اور پارٹینے خود بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔

کشمیر اور دہلی کے درمیان تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ہمالیائی خطے میں انڈین حکمرانی کے خلاف بغاوت اور اس کے خلاف فوجی کارروائی نے ہزاروں افراد کی جانیں لے لی ہیں۔

سنہ 2019 میں صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی جب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا جو انڈین آئین کا ایک حصہ تھا جس نے خطے کو ملنے والی اہم خودمختاری دی تھی اور اسے وفاق کے زیر انتظامدو علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر دیا۔

حکومت نے مواصلات پر سخت پابندیاں بھی لگائیں اور تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت سینکڑوں سیاسی رہنماؤں کو مہینوں کے لیے جیل بھیج دیا۔

اس کے بعد سے نریندر مودی اور ان کے وزرا نے بار بار 2019 کے فیصلے کی حمایت کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس سے خطے میں امن آیا ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے بھی گھر گھر مہم چلا کر کشمیر میں اپنی حمایت بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔

لہٰذا پارٹی کا موجودہ عام انتخابات میں کسی امیدوار کو میدان میں نہ اتارنے کا فیصلہ جو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد خطے میں پہلا انتخاب ہے۔ یہ اقدامبہت سے لوگوں کے لئے حیرت کا باعث بنا ہے۔

ہندو اکثریتی جموں کی دو سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار ہیں، لیکن مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی تین سیٹوں پر ایک بھی امیدوار نہیں ہے۔

جموں و کشمیر میں بی جے پی کے چیف ترجمان کا دعویٰ ہے کہ انتخابات ترجیح نہیں ہیں اور ان کا بنیادی مقصد ’لوگوں کے دل‘ جیتنا ہے۔

سنیل سیٹھ نے کہا کہ ’کشمیر کو ملک کے باقی حصوں کے ساتھ مکمل طور پر ضم کرنے میں ہمیں 75 سال لگے اور ہم یہ تاثر پیدا نہیں کرنا چاہتے کہ ہم نے یہ مشق صرف نشستیں جیتنے کے لیے کی ہے۔‘

لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارٹی قیادت کو احساس ہے کہ خطے میں فتح حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

کشمیر
Getty Images

ایک سیاسی تجزیہ کار نور احمد بابا کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ’کامیابی‘ دوسری ریاستوں میں تو بک سکتی ہے لیکن ہمالیائی خطے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا یہاں کے لوگوں کو پسند نہیں آیا ہے۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ نریندر مودی کی پارٹی انتخابات کو 2019 کے فیصلے پر ریفرنڈم میں تبدیل ہونے سے روکنا چاہتی ہے۔

علاقے کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس پارٹی کے رکن عمر عبداللہ کہتے ہیں ’اگر لوگ دفعہ 370 کی منسوخی سے خوش ہوتے تو بی جے پی لڑنے سے نہیں ہچکچاتی۔

’وہ خود کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتے اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے انھوں نے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

جموں و کشمیر میں پانچ مرحلوں میں ووٹنگ ہو رہی ہے۔ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے علاوہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹ، یپیپلز کانفرنس اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی میدان میں ہیں۔ انڈیا کی اہم اپوزیشن جماعت کانگریس بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے رہنماؤں نے بار بار دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی انتخابات میں پی سی اور اپنی پارٹی کی حمایت کر رہی ہے اور انھیں ان کا پراکسی قرار دیا ہے۔

بی جے پی نے اتحاد کے بارے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ لیکن بی جے پی کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کچھ ایسی جماعتوں کو اپنی حمایت فراہم کرے گی جن کا شمالی اور وسطی کشمیر میں مضبوط گڑھ ہے۔

پچھلے مہینے پارٹی کے علاقائی صدر رویندر رینا نے کہا تھا کہ وہ ’ہم خیال پارٹیوں‘ کی حمایت کریں گے۔

پارٹی کی جانب سے انتخابی میدان چھوڑنے کے فیصلے نے اس کے بہت سے مقامی ارکان کو پریشان کر دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ 2019 سے انتخابات کی تیاری کر رہے تھے۔

شمالی کشمیر کے کپواڑہ ضلع سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کارکن شبیر احمد زرگر نے کہا ’ہم گھر گھر جا رہے تھے، لوگوں سے مل رہے تھے اور انھیں حکومت کے کاموں کے بارے میں بتا رہے تھے۔‘

کشمیر
Getty Images

شمالی کشمیر کے بارہ مولہ ضلع سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے ایک اور کارکن فدا حسین کہتے ہیں کہ ’ہم مایوس ہیں لیکن ہمیں پارٹی کے فیصلے کو قبول کرنا ہو گا۔‘

یہ اقدام اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی نے 1996 کے بعد سے اس علاقے میں عام انتخابات نہیں لڑے ہیں۔

روایتی طور پر پارٹی کو یہاں زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے ، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اس کے مقامیسیاسی رہنماؤں میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کی بہترین کارکردگی 2016 کے ریاستی انتخابات میں تھی ، جب وہ دوسری سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری اور پی ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی۔

پارٹی نے کل 87 نشستوں میں سے 25 پر کامیابی حاصل ک ۔ یہ سابق ریاست میں ہونے والے آخری اسمبلی انتخابات تھے۔

یہ اتحاد 2018 میں ٹوٹ گیا تھا اور مودی حکومت نے خطے میں براہ راست حکمرانی نافذ کر دی تھی۔ پارٹی کو 2020 میں مقامی انتخابات جیتنے کے بعد تقویت ملی، جس میں کشمیر کی تین نشستیں بھی شامل ہیں۔

دو سال بعد، حکومت نے اسمبلی نشستوں کی حدود کو اس طرح سے دوبارہ ترتیب دیا کہ جموں کو چھ اضافی نشستیں ملیں، جبکہ کشمیر کو ایک اضافی نشست دی گئی، جس سے نشستوں کی تعداد 90 ہوگئی۔

سنہ 2019تک، جموں میں 37 اور کشمیر میں 46 نشستیں تھیں۔

اس مشق کو وسیع پیمانے پر خطے کی انتخابی سیاست میں ہندوؤں کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے اقدام کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابی کامیابی کے باوجود بی جے پی علاقے میں اپنا اثر قائمکرنے میں ناکام رہی ہے۔

یہ علاقہ دہلی کے براہ راست کنٹرول میں رہا ہے لیکن لوگ جمہوری طور پر منتخب حکومت کو ترجیح دیتے ہیں جہاں وہ قیادت سے جڑے ہوں۔

مقامی لوگوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کئی دیگر عوامل نے بھی لوگوں میں بیگانگی کے احساس میں اضافہ کیا ہے۔

اس میں بے روزگاری کی بلند شرح، سیاست میں مقامی نمائندگی کی عدم موجودگی اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں شامل ہیں۔

پی ڈی پی کے ترجمان موہت بھان کہتے ہیں کہ ’اگر وہ ملک کے باقی حصوں میں سبھی سیٹیں جیت بھی لیتے، تب بھی کشمیر سے ہارنا ایک بڑی شکست ہوتی۔ اس سے بچنے کے لیے انھوں نے کوئی امیدوار کھڑا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.