جرمنی میں ’موت کا جال‘ کہا جانے والا انسانی سمگلنگ کا وسیع کاروبار

بی بی سی کی پانچ ماہ کی تحقیقات نے سمندری راستے انگلش چینل میں انسانی سمگلنگ کے مہلک کاروبار میں جرمنی سے متعلق معلومات کو بے نقاب کیا ہے۔ خفیہ طور پر کی گئی رپورٹنگ کے دوران ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’پورے پیکج کی قیمت 15 ہزار یورو ہے۔‘ اس میں ہمیں انگلش چینل نامی خطرناک سمندری راستے کو عبور کرنے کے لیے ایک ڈنکی کشتی، موٹر اور 60 لائف جیکٹس دی جائیں گی۔
کشتی سے غیر قانونی طور پر چوری چھپے فرانس سے برطانیہ جانا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے
BBC
کشتی سے غیر قانونی طور پر چوری چھپے فرانس سے برطانیہ جانا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے

ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’پورے پیکج کی قیمت 15 ہزار یورو ہے۔‘ اس میں ہمیں انگلش چینل نامی خطرناک سمندری راستے کو عبور کرنے کے لیے ایک ڈنکی کشتی، موٹر اور 60 لائف جیکٹس دی جائیں گی۔

بی بی سی کے ایک انڈر کور صحافی کو دو چھوٹی کشتیوں کے سمگلروں نے مغربی جرمنی کے شہر ایسن میں اس ’خاص قیمت‘ کی پیشکش کی۔ اس شہر میں بہت سے تارکین وطن رہتے ہیں یا وہاں سے دوسرے ممالک جانے کے لیے گزرتے ہیں۔

بی بی سی کی پانچ ماہ کی تحقیقات نے انگلش چینل میں انسانی سمگلنگ کے مہلک کاروبار میں جرمنی سے متعلق معلومات کو بے نقاب کیا ہے۔

جب سے برطانیہ کی نئی حکومت نے ’سمگلرز کے ان گروہوں کو ختم‘ کرنے کا عزم کیا تب سے جرمنی انگلش چینل میں انسانی سمگلنگ میں استعمال ہونے والی کشتیوں اور انجنوں کو ذخیرہ کرنے کا ایک مرکزی مقام بن گیا ہے اور اس کی تصدیق بی بی سی نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے کی ہے۔

خفیہ فلم بندی کے دوران، سمگلروں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ جرمن پولیس کو چکمہ دیتے ہوئے متعدد خفیہ گوداموں میں کشتیاں ذخیرہ کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ سال تارکین وطن کے چینل کراسنگ کے لیے پہلے ہی سب سے مہلک رہا ہے، جبکہ اب تک 28,000 سے زیادہ افراد چھوٹی، خطرناک کشتیوں میں سفر کر چکے ہیں۔

بی بی سی کے انڈر کوور رپورٹر جرمنی کے شہر ایسن کے مرکزی سٹیشن کے باہر انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک خفیہ کیمرا لگایا ہوا ہے اور خود کو مشرق وسطیٰ کے ایک تارکین وطن کے طور پر ظاہر کیا ہے، جو اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ جانے کے لیے بے چین ہے۔

ان کی حفاظت کے لیے ہم ان کا نام ظاہر نہیں کر رہے اور اس تحریر میں ہم ان کا فرضی نام حمزہ لکھیں گے۔

ہمارے انڈر کور رپورٹر کشتیوں کی جو تصاویر بھیجی گئيں
BBC
ہمارے انڈر کور رپورٹر کشتیوں کی جو تصاویر بھیجی گئيں

خفیہ مقام پر موجود ’نئی‘ ڈنکی

وہ ایک آدمی کے قریب جاتے ہیں۔ یہ وہ شخص ہے جس سے حمزہ کئی مہینوں سے تارکین وطن کمیونٹی کے کسی ذریعے سے نمبر حاصل کرنے کے بعد واٹس ایپ کالز پر رابطے میں تھے۔ لیکن آج ان کی پہلی ملاقات تھی۔

اس شخص کا نام یا کم از کم جو نام اس نے ہمیں بتایا، ابو ساحر ہے۔ جب سے حمزہ نے ان سے رابطہ کیا اس وقت سے انھوں نے اس بات پر گفتکو کی ہے کس طرح ساحر انگلینڈ کے جنوبی ساحل تک جانے کے لیے ڈنکی فراہم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

حمزہ نے انھیں بتایا ہے کہ فرانس کے کیلیس کے علاقے میں سمگلرز کے گروہوں کے برے تجربات نے انھیں، ان کے خاندان اور دوستوں کو اکیلے سمندری راستہ عبور کرنے کا انتظام کرنے کی کوشش کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے۔

ساحر نے اس ملاقات سے پہلے ہی ایک ڈنکی کشتی کی ایک ویڈیو بھیجی ہے جو ان کے مطابق ’نئی‘ ہے اور ایسن کے علاقے میں ایک گودام میں رکھی ہوئی ہے۔

انھوں نے مزید ایسی فوٹیج فراہم کیں جس میں اسی طرح کی نظر آنے والی دیگر کشتیوں کے ساتھ ساتھ آؤٹ بورڈ انجنوں کو بھی چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

حمزہ نے کہا ہے کہ وہ اس پیشکش میں موجود اشیا کے معیار کو خود چیک کرنا چاہتے ہیں اور اسی لیے انھوں نے ذاتی طور پر ملاقات کرنے پر اصرار کیا ہے۔

بی بی سی کی ایک ٹیم قریب ہی ہے اور حمزہ کی نقل و حرکت کی نگرانی کر رہی ہے تاکہ اگر کچھ غلط ہو یا انھیں جلدی سے نکالنے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ حرکت میں آ جائیں۔

اسی دوران دو آدمی ایسن کے مرکز سے گزر رہے تھے تو ساحر نے کہا کہ کشتی کو دیکھنے کے لیے گودام تک جانا بہت ’خطرناک‘ ہے، حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ 15 منٹ سے بھی کم دوری پر ہے۔

جب حمزہ نے پوچھا کہ کشتیاں جرمنی کے اس حصے میں کیوں رکھی گئی ہیں تو ساحر نے ’حفاظت‘ اور ’لاجسٹکس‘ کے بارے میں بات کی۔

ایسن کیلس کے علاقے سے صرف چار سے پانچ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ وہاں سے کشتیاں تیزی سےگزارنے کے لیے کافی قریب ہے، لیکن شمالی فرانس کے زیادہ نگرانی کیے جانے والے ساحلوں کے زیادہ قریب نہیں۔

اگرچہ یہاں پولیس کے چھاپے پڑتے ہیں اور یورپی وارنٹ کے تحت کارروائی بھی ہوتی ہے لیکن تکنیکی طور پر جرمنی میں انسانی سمگلنگ میں سہولت کاری غیر قانونی نہیں ہے، بشرط یہ کہ اگر یہ یورپی یونین سے باہر کسی تیسرے ملک میں کی جا رہی ہو جیسے بریگزیٹ کے بعد برطانیہ۔

برلن میں وزارت داخلہ کا استدلال ہے کہ چونکہ جرمنی اور برطانیہ جغرافیائی ہمسایہ نہیں ہیں، اس لیے ’براہ راست سمگلنگ‘ نہیں ہوتی ہے لیکن برطانیہ کے ہوم آفس کے ایک ذریعے نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں جرمنی کے قانونی فریم ورک کے بارے میں ’مایوسی‘ ہیں۔

اسے الخال یعنی چچا کے طور پر متعارف کرایا گيا تھا خال کا استعال بڑے شخص کے احترام میں بھی ہوتا ہے
BBC
اسے الخال یعنی چچا کے طور پر متعارف کرایا گيا تھا خال کا استعال بڑے شخص کے احترام میں بھی ہوتا ہے

جب انکل نے کہا ’اپنی آواز بلند دھیمی رکھو!‘

ساحر حمزہ کو ایک کیفے میں لے گیا جہاں انھوں نے کافی اور سگریٹ کا آرڈر دیا۔ انھوں نے کیفے میں اپنی کرسیاں سرکائی کیونکہ ان کے قریب ہی عربی زبان بولنے والے تھے اور ساحر نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کی بات سنے۔

تقریباً 35 منٹ بعد ساحر اچانک اپنی کرسی سے اٹھے اور حمزہ سے کہنے لگے کہ ’آواز نیچی کرو وہ آ رہا ہے۔'

بیس بال کیپ میں ملبوس ایک اور شخص ان کے قریب آیا۔ ساحر نے اسے ’الخال‘ کہا جس کا مطلب ’انکل‘ ہوتا ہے۔ عربی میں کسی کو احترام سے مخاطب کرنے کے لیے بھی 'الخال' پکارا جاتا ہے۔

الخال کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جو زیادہ تر خاموش رہا، بظاہر وہ اس کا باڈی گارڈ تھا۔ الخال نے ان سے مصافحہ کرنے سے پہلے کیفے کی ویٹرس سے جرمن زبان میں کچھ کہا اور پھر ان کی جانب متوجہ ہوا اور عربی میں باتیں شروع کر دیں۔

حمزہ کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا فون حوالے کر دے، جو ایک الگ ٹیبل پر رکھا ہوا ہے۔

باڈی گارڈ حمزہ کے پاس بیٹھا ہے اور اگلے 22 منٹ کا زیادہ تر حصہ اس نے انھیں غور سے دیکھنے میں گزارا۔

سخت جرمن قانون کی وجہ سے ملاقات کے دوران بی بی سی نے صرف ویڈیو ریکارڈنگ کی اور آڈیو نہیں کیونکہ آڈیو ریکارڈنگ ممنوع ہے۔

لہذا اس گفتگو کے متعلق ہماری رپورٹنگ جزوی طور پر ہمارے انڈر کور صحافی کی یادداشت پر مبنی ہے جو جرمنی میں تحقیقاتی رپورٹنگ میں ایک مسلمہ طریقہ ہے۔

اس کی حمزہ اور سمگلروں کے درمیان پیغامات، کال ریکارڈ اور وائس نوٹ کے ذریعے تصدیق ہوتی ہے۔

خال حمزہ کو کہتے ہیں کہ 'اپنی آواز بلند کیے بغیر' یہ بتاؤ کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے۔

حمزہ نے بظاہر پورے اعتماد کے ساتھ اپنی کوور سٹوری کو دہرایا۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جس کشتی کی خریداری کے متعلق وہ اب بات کر رہے ہیں وہشاید جرمن لا کے تحت غیر قانونی نہ ہو۔

لیکن خال اس بات کو مسترد کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’یہ آپ کو کس نے بتایا؟ یہ غیر قانونی ہی ہے۔‘

چین میں تیار ’ڈنکی‘ کشتیاں جو جرمنی لائی جاتی ہیں

اگرچہ جرمنی میں کشتیوں کی سمگلنگ کے بارے میں قانونی خامیاں موجود ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک وسیع مجرمانہ نیٹ ورک میں شامل ہیں۔

کافی پینے کے دوران خال بعض اوقات حمزہ کے سینے پر دھکا دیتا ہے اور اس دوران انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایسن کے علاقے میں ان کے تقریباً 10 گودام ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس کے چھاپے کی صورت میں وہ اپنے سامان مختلف جگہ رکھتے ہیں۔ اور 'کچھ دن پہلے' ایسا چھاپہ مارا بھی گيا تھا۔

اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ بعض اوقات جب انھیں اطلاع ملتی ہے کہ پولیس آ رہی ہے تو وہ انھیں 'چارہ' دیتے ہیں کہ ان کی سپلائی ضبط کر لی گئی ہے لیکن اتنی نہیں کہ ان کا کام دھندہ رُک جائے۔

سمگلر 'تین، چار گھنٹے' کے اندر کیلیس تک سامان پہنچانے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں بتاتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عقبی راستوں کے بجائے موٹر وے استعمال کرنے کی جسارت رکھتے ہیں۔

ایسن کے مقام کا مطلب ہے کہ صبح یا دوپہر کے اندر کشتیاں ڈیلیور کی جا سکتی ہیں اور اگر موسم اچھا ہو اور موافق ہوا تو وہاں سے سرحد عبور کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی کشتیوں کا مطالبہ ہوتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر منظم جرائم کے خلاف گلوبل انیشی ایٹو کی تحقیق کے مطابق کشتیاں عام طور پر وین یا کاروں کے ذریعے جرمنی، بیلجیئم یا نیدرلینڈز سے فرانسیسی ساحل تک پہنچائی جاتی ہیں، جہاں جرمنی 'خاص طور پر ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ' ہے۔

انھوں نے پایا کہ اس طرح کے زیادہ تر جہاز (کشتیاں) چین میں تیار کیے گئے ہیں اور یورپ میں منتقل ہونے سے قبل کنٹینر کے ذریعے ترکی بھیجے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک ٹیوزڈے ریٹانو کا کہنا ہے کہ ایک مرکز کے طور پر جرمنی کا کردار مختلف وجوہات کی بنا پر بڑھا ہے جس میں فرانس میں 'سمگلنگ کے خلاف مضبوط کنٹرول' شامل ہیں، جس نے زیادہ سے زیادہ منظم گروہوں کو طویل فاصلے سے کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ٹیوزڈے ریٹانو یہ بھی مانتی ہیں کہ جرمن حکام چینل کراسنگ کے معاملے کی روک تھام میں کم شامل ہیں کیونکہ 'یہ ان کی سرحد پر ہونے والا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔'

ملاقات کے دوران ابو سحر اور الخال نے رقم کی ادائيگی کے طریقے پر بات کی
BBC
ملاقات کے دوران ابو سحر اور الخال نے رقم کی ادائيگی کے طریقے پر بات کی

’اگر آپ پکڑے گئے تو ہم ذمہ دار نہیں‘

آئیے واپس کیفے چلتے ہیں جہاں خال حمزہ سے بظاہر مطمئن ہیں اور پیسوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حمزہ ’پیکیج‘ کا سودا کریں جس کی لاگت 15 ہزار یورو ہے۔

اس پیکیج میں کیلیس کے قریب انھیں ایک انجن، ایندھن، پمپ اور 60 لائف جیکٹس کے ساتھ کشتی فراہم کی جائے گی۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ضرورتسے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن یہ ایک خاص پیشکش ہے جو ممکنہ طور پر فرانس سے انگلش چینل کو عبور کرانے کے لیے کسی سمگلر کو دی جاتی ہے۔

گلوبل انیشی ایٹو کے مطابق اس میں سمگلروں کو ممکنہ طور پر ’غیر معمولی‘ منافع ہے۔ اگر آپ فرض کریں کہ درجنوں افراد سے سفر کے لیے فی کس تقریباً دو ہزار یورو وصول کیے جاتے ہیں تو اس سے کتنی زیادہ رقم حاصل ہوگی۔

اگر اب ان کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو خال کا دعویٰ ہے کہ وہ کل تک کشتی سمیت یہ سامان ایک ایسے مقام پر موجود پائیں گے جو فرانسیسی ساحل سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر ہے۔

خال اور سحر ایک ’نئے کراسنگ پوائنٹ‘ کا بھی حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جگہ فرانسیسی حکام کی نظروں میں کم ہی ہوتی ہے۔ لیکن وہ اس کا مقام ظاہر نہیں کرتے ہیں۔

یہاں ایک دوسرا اور سستا آپشن بھی ہے اور حمزہ اس کے حق میں زیادہ ہیں۔

اس کے تحت وہ تقریباً آٹھ ہزار یورو میں کشتی کو جرمنی میں ہی ایسن کے گودام سے حاصل کریں اور اسے اپنے طور پر شمالی فرانس تک لے جائیں۔

سمگلرز حمزہ سے کہتے ہیں کہ اگر آپ پکڑے گئے تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔

ایک بار جب انھوں نے طے کر لیا ہے کہ کرنا ہے تو اب بات چیت کا رُخ اس جانب مڑ جاتا ہے کہ حمزہ گینگ کو کیسے ادائیگی کریں گے۔

خال چاہتے ہیں کہ ترکی میں رقم نقد ادا کی جائے کیونکہ 'تمام چیزیں' وہاں سے آتی ہیں۔

نقشہ
BBC
فرانس کے ساحل کے لیے ترکی سے سامان کی فراہمی کا راستہ

تو کیا یہ ڈیل طے پائی؟

وہ یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ رقم کو حوالہ سسٹم کے ذریعے جمع کیا جا سکتا ہے۔ حوالہ لین دین کا ایک طریقہ ہے جو رسمی بینکنگ کے بجائے سرحدوں کے پار نقد رقم پہنچانے کے لیے ایجنٹوں کے نیٹ ورک پر انحصار کرتا ہے۔

بعد ازاں حمزہ کو واٹس ایپ پر اکاؤنٹ کا نام بھیجا جاتا ہے۔

کیفے کی میٹنگ کے بعد بھیجے گئے پیغامات عربی میں اور وائس نوٹس میں ہوتے ہیں جس میں سے ایک میں سحر آؤٹ بورڈ موٹرز کے برانڈز کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں مرکری کمپنی کی موٹر 'بہت پیاری' لگتی ہے لیکن 'اگر یاماہا مل جائے تو میں یاماہا کو ترجیح دوں گا۔'

وہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح سامان کو 'ڈیلیور اور دفن' کر سکتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کراسنگ پوائنٹ کے قریب زیر زمین کیسے چھپا سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بولون ایک بہتر آپشن کیونکہ کیلس اس کے مقابلے میں 'قدرے مشکل ہے'۔

خرید و فروخت کی حکمت عملی کے طور پر حمزہ سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس 'محدود' سٹاک ہے جبکہ خریدار زیادہ ہیں۔

خال اپنی بات چیت میں زیادہ محتاط ہیں۔ لیکن وہ سحر کی طرف سے بھیجے گئے ایک وائس نوٹ میں حمزہ سے ملاقات کے بعد بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'تمہارا دوست، لگتا ہے کہ وہ ٹھیک (آدمی) نہیں ہے۔'

اس کے باوجود، وہ سحر سے کہتے ہیں کہ حمزہ سے پوچھے آیا وہ کشتی خریدنا چاہتا ہے یا نہیں: ’اگلے ایک یا دو گھنٹے میں، اس سے پوچھیں۔‘

بالآخر، حمزہ نے ان سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ اب یہ سودا نہیں کر سکتے۔

اور اس طرح بی بی سی نے ان افراد کو کوئی رقم ادا نہیں کی اور نہ ہی ہم ان کی اصل شناخت کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہہ سکتے ہیں۔

ہم نے نیشنل انڈیپنڈنٹ لائف بوٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین نیل ڈالٹن کو موصول ہونے والی کشتیوں کی فوٹیج دکھائی تو انھوں نے کہا وہ ایسے جہازوں سے 'بطخ والے تالاب' میں بھی نہیں جائیں گے۔

ان کا موازنہ 'موت کے پھندے' سے کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ درجنوں لوگوں کو ان کشتیوں پر چینل کراسنگ کے لیے باندھنا 'انتہائی خطرناک' ہوگا کیونکہ بظاہر یہ 'انتہائی کمزور' ہیں۔

دریں اثنا، سفارت کاروں کا اصرار ہے کہ ان گروہوں سے نمٹنے کے لیے جرمنی اور برطانیہ کے درمیان تعاون میں بہتری آئی ہے۔

ناکام کوششوں کے ملبے سے فرانسیسی ساحل بھرا پڑا نظر آتا ہے
BBC
ناکام کوششوں کے ملبے سے فرانسیسی ساحل بھرا پڑا نظر آتا ہے

دوسرے ممالک کے تعاون سے اس سلسلے میں گرفتاریاں ہوئی ہیں اور گوداموں پر چھاپے مارے گئے ہیں جبکہ 'اسی قسم کے جرم' جیسے کہ تشدد یا منی لانڈرنگ کے خلاف جرمنی کے اندر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

فروری میں جرمنی میں ایک بڑا چھاپہ مارا گیا جہاں جس میں کشتیاں، انجن، لائف جیکٹ اور بچوں کے تیرنے کے سامان ضبط کیے گئے اور 19 گرفتاریاں بھی ہوئیں۔

لیکن یہ بیلجیئم اور فرانسیسی عدالتی احکامات کے تحت ہوا۔ سنہ 2022 سے اسی طرح کے آپریشن کے متعلق فرانس میں ایک علیحدہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

برطانیہ کے ہوم آفس کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت جرمنی سمیت دیگر ممالک کے ساتھ 'مجرمانہ سمگلنگ کے گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن' کرنے کے لیے ’تیزی سے کام‘ کر رہی ہے، لیکن ’ہمیشہ ساتھ مل کر کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔‘

فرانسیسی حکام کی طرف سے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا گيا۔

شمالی فرانس کے ایک پراسیکیوٹر پاسکل مارکون ویل نے رواں ماہ کے اوائل میں بی بی سی کو بتایا کہ ’جرمنی والوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ کشتیاں ہمارے ساحلوں پر ہونے والے جرائم سے منسلک ہیں تاکہ وہ مداخلت کر سکیں گے۔‘

برلن کی وزارت داخلہ نے بی بی سی کو بتایا کہ دو طرفہ تعاون 'بہت اچھا' ہے اور جرمن حکام برطانیہ کی درخواست پر کارروائی کر سکتے ہیں۔

ایک ترجمان نے مزید کہا کہ اگرچہ جرمنی سے برطانیہ کے لیے سمگلنگ میں مدد کرنا غیر قانونی نہیں ہے لیکن بیلجیم یا فرانس جہاں سے چینل کراسنگ ہوتی ہے وہاں سمگلنگ میں مدد کرنا قابل سزا جرم ہے۔

ڈاؤننگ سٹریٹ نے کہا کہ بی بی سی کی تحقیقات 'بالکل اسی قسم کی سرگرمی پر روشنی ڈالتی ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہم کام کرنا چاہتے ہیں۔'

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جرمنی کو ملک میں فلیٹبل کشتیوں کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے تو کیئر سٹارمر کے سرکاری ترجمان نے کہا: 'یہ ضروری ہے کہ ہم نفاذ کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر وسیع کرتے رہیں، اور یہ کہ یہ دوسرے ممالک تک جاتا ہے۔

'ہمیں ان کی سرگرمیوں کے پیمانے کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس پر ہم جرمنوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔'

شمال مشرقی فرانس کے ساحلوں کے ساتھ آپ کو کشتیوں پر کراسنگ کی ناکام کوششوں کی باقیات مل سکتی ہیں جو نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق 'زیادہ خطرناک اور ناقابل برداشت' ہوتی جا رہی ہیں۔

ان ساحلوں پر ہوا نکلی ہوئی ڈنگیاں اور لاوارث لائف جیکٹس بیکار لگ سکتی ہیں لیکن کسی نے اس کے لیے بھاری رقم ادا کی ہو گی جن کے بارے میں وہ امید کر رہے تھے کہ وہ ان کے لیے بہتر زندگی کا وسیلہ ہو سکتی ہیں۔

یہ مصائب، مایوسی اور بدترین صورتوں میں موت کی تجارت ہے، لیکن یہ ایک ایسی تجارت ہے جو یورپ کے اندر گہرائی میں کہیں ترقی کر رہی ہے اور پھل پھول رہی ہے۔

اس مضمون کے متعلق ہم نے الخال سے جواب طلب کیا لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.