تاریخی طور پر ہماری صحت اور زندگی پر مثبت اثر رکھنے کے باوجود بھی دوستی کے رشتے کو محققین کی جانب سے دیگر تعلقات کے مقابلے میں بہت کم توجہ ملی۔
’فرینڈشپ اینڈڈ ود مدثر‘ انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والے ان کئی مزاحیہ میمز میں سے ایک ہے جو پاکستانیوں نے بنائے۔
نو برس قبل پاکستان کے شہر گوجرانوالہ کے ایک سرکاری ملازم محمد آصف رضا نے اس کی بنیاد اپنے فیس بک پر رکھی تھی جب انھوں نے کہا تھا کہ ’ان کا دوست مدثر اب خود غرض ہو گیا ہے۔‘
اس میم کے بعد جہاں مدثر سے ان کی دوستی بحال ہوئی وہیں انٹرنیٹ پر انھیں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔
اس کے بعد یہ میم پاکستان کا پہلا این ایف ٹی بھی بن گیا، جسے ہزاروں ڈالر کے عوض فروخت کیا گیا۔
این ایف ٹی سے مراد نان فنجیبل ٹوکن ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا ڈیجیٹل سرٹیفیکیٹ ہے جو کہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کسی مزاحیہ میم، تصویر، ویڈیو یا دیگر قسم کے آن لائن مواد کا اصل مالک کون ہے۔
خیر یہ تو بات تھی آصف رضا اور مدثر کی دوستی ختم ہونے، میم کے مشہور ہونے اور پھر مدثر اور آصف رضا کی دوستی دوبارہ ہونے کی لیکن آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اگر آپ کا کوئی دوست آپ سے تعلق توڑ لے تو کیا کیا جائے۔
دوستی ہماری زندگی کا اہم حصہ ہوتی ہے۔ بی بی سی فیوچر کے لیے مولی گورمین اپنی تحریر میں لکھتی ہیں کہ سنہ 2019 کے موسم بہار میں پہلی بار ان کی ایک دوستی ختم ہوئی۔
اس ’بریک اپ‘ پر تلخ بحث ہوئی، آنسو بہائے گئے اور شدید مایوسی ہوئی اور ہم نے تب سے بات نہیں کی۔
کئی برس تک میں اپنی وہ دوستی ختم ہونے کا سوگ مناتی رہی۔ حتیٰ کہ اب پانچ برس بعد بھی میں خواب میں کبھی کبھی اس دوست کو دیکھتی اور سوچتی ہوں کہ کیا ہمارا دوبارہ رابطہ بحال ہو سکتا ہے۔
تاہم میں نے اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے کہ جب تک وہ دوستی قائم رہی، وہ بہترین تھی۔
اتفاق سے میرا پہلا رومانوی تعلق بھی میری یہ دوستی ختم ہونے کے پانچ ماہ بعد ختم ہو گیا۔ مجھے اس کے بارے میں بات کرنا بہت آسان لگا۔۔۔ کئی برسوں کی موسیقی، فلموں اور دل ٹوٹنے پر لکھی جانے والی کتابوں نے مجھے اس کے لیے اچھی طرح سے تیار کیا تھا۔
تب سے ہی میں نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ رومانوی تعلقات کے مقابلے میں دوستی ختم ہونے پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔
تاریخی طور پر ہماری صحت اور زندگی پر مثبت اثر رکھنے کے باوجود بھی دوستی کے رشتے کو محققین کی جانب سے دیگر تعلقات کے مقابلے میں بہت کم توجہ ملی۔
یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں نفسیات کی پروفیسر گریس ویتھ کہتی ہیں کہ ’شاید یہ بات لوگوں کے لیے حیران کن ہو گی کہ ہم (محققین) اب اس بارے میں غور کرنے لگے ہیں کہ دوستی کیسے ختم ہو سکتی ہے۔۔۔ واقعی اس بارے میں کام اب شروع ہونے لگا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’چونکہ دوستی ختم ہونے کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے، اس لیے لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ ایسا ہو جانے کی صورت میں اپنے جذبات کو کیسے سنبھالا جائے۔ کسی رومانوی ساتھی سے تعلق ختم ہونے کے بارے میں بہت واضح سماجی سکرپٹ موجود ہے لیکن دوستی ختم ہونے کے بارے میں ایسا کچھ نہیں۔‘
ہمیشہ کے لیے دوست؟
سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کالج میں نفیسات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر کیٹلین فالانرے کہتی ہیں کہ ’بچپن میں ہمیں سب سے پہلے سپورٹ اپنے والدین سے ملتی ہے لیکن جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں تو معاشرے میں رہنے کے لیے ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔‘
’دوستوں کے ساتھ ہمارا تعلق مختلف ہوتا ہے، وہ زندگی بھر شناخت بنانے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو بطور آئینہ اور گائیڈ استعمال کرتے ہیں۔‘
گریس ویتھ کہتی ہیں کہ ابتدائی طور پر دوستی مماثلت اور قربت پر استوار ہوتی ہے۔
پروفیسر کیٹلین فالانرے کہتی ہیں کہ ’ہم سوشل مخلوق ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں قبول کیا جائے۔ ہم ایسا صرف اپنے خاندان سے ہی نہیں بلکہ اپنے دوستوں سے بھی چاہتے ہیں اور پھر یہاں ہی سے دوستیاں نہ صرف ہمیں سپورٹ بلکہ تفریح اور کمپنی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔
زیادہ تر تحقیق بچپن اور لڑکپن میں دوستی ختم ہو جانے پر مرکوز کی جاتی ہے، ایک ایسی عمر جب دوستی ختم ہو جانا کافی عام ہوتا ہے۔
کیٹلین فالانرے کی ایک تحقیق میں مڈل سکول کے 354 طلبا پر مشتمل (جن کی عمر11 سے 14 سال کے درمیان تھی) سیمپل کو دیکھا گیا۔ اس میں 86 فیصد بچوں نے کہا کہ ان کی کسی سے دوستی حال ہی میں ختم ہوئی۔ زیادہ تر نے اس کی وجہ کوئی تنازعہ یا دھوکہ قرار دیا۔
ایک اور وجہ دوستوں کی طرف سے سپورٹ کی کمی تھی، یا وہ بچے یہ محسوس کر رہے تھے کہ انھیں اپنے دوستوں سے وہ چیز نہیں مل رہی، جس کی وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کمپنی، یا ایک دوسرے کے ساتھ مزہ نہ آنا۔
دوستی ختم ہونے نے مڈل سکول کے بچوں میں مبینہ طور پر پیچیدہ جذبات کو جنم دیا، جس میں صرف اداسی ہی نہیں بلکہ خوشی کے جذبات بھی شامل تھے اور ان کا انحصار اس چیز پر تھا کہ دوستی کیسے ختم ہوئی اور کس نے اسے ختم کیا۔
بہت سے کیسز میں دوستی ’بہترین دوست‘ سے ’اچھے دوست‘ میں بدل جاتی ہے۔ دوستی سے متعلق ایک برس پر محیط ایک اور مطالعے میں یہ دیکھا گیا کہ ساتویں گریڈ میں پڑھنے والوں کی ’بہترین دوستیوں‘ میں سے صرف 50 فیصد ہی پورا سال قائم رہیں۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پرانے نوعمروں کی دوستی تعلیمی سال کے دوران زیادہ مستحکم ہوتی ہے۔ ایک عالمی مقالے میں لکھا گیا کہ 13 سے 19 برس کی عمر کے دوران موسم خزاں کے بہترین دوست کے موسم بہار تک قریبی دوست بننے کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔
اس طرح ہائی سکول میں ہونے والی دوستیاں یونیورسٹی اور کالج الگ ہونے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔ ایسا جزوی طور پر فاصلے کی وجہ سے ہو سکتا ہے جو زندگی کے اس موڑ پر دوستوں کے درمیان آتا ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے نوجوان تیزی سے پیچیدہ سوشل نیٹ ورکس کی جانب جاتے ہیں، تو ان کی توقعات اور دوستی بھی کم مستحکم ہو سکتی ہے۔
نوجوان بالغوں کے لیے دوستی دوسروں کے ساتھ گھل ملنے کی مشق کا ایک موقع بھی ہے۔
ایک اور مطالعے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایسے لوگ جو تعلقات میں ’نشوونما‘ پر یقین رکھتے ہیں (مطلب یہ سوچ رکھنا کہ تعلقات بہتر بنانے کے لیے محنت کی ضرورت ہوتی ہے) وہ اپنی دوستیوں کو برقرار رکھنے اور اس پر کام کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسا بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ جیسے جیسے ان کی دلچسپیاں بدل جاتی ہیں، نئے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
گریس ویتھ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ دوستی ختم ہونا زندگی کا حصہ اور عام سی باتہے۔‘
’ضروری نہیں کہ آپ کے بہت زیادہ دوست ہوں بلکہ اہم بات ان دوستوں کی قربت ہے۔‘
لیکن ہر دوستی کا ختم ہو جانا تکلیف دہ یا ڈرامائی نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تعلق آسانی سے ختم ہو جاتا ہے۔
1980 میں 20 سے 28 برس کے 90 نوجوانوں پر ایک تحقیق میں ایک ہی جنس کے درمیان دوستی ختم ہونے کی پانچ وجوہات سامنے آئیں: قربت کم ہونا، دوست اب پسند نہیں رہا، کم میل جول، دوسرے رشتوں جیسے ڈیٹنگ یا شادی جیسے تعلقات کی جانب سے دخل اندازی اور دوستی کا قدرتی طور پر ختم ہو جانا۔
قربت کے معاملے نے دوستی کے رشتے کو سب سے زیادہ متاثر کیا جبکہ بہت قریبی اور بہترین دوستی کے دوسرے رشتوں کی مداخلت سے ختم ہونے کا زیادہ امکان تھا۔
لیکن تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مضبوط دوستی زندگی میں ہونے والی ایسی کئی تبدیلیوں کے باوجود بھی قائم رہ سکتی ہے۔
گریس ویتھ کہتی ہیں کہ ’میں جب بھی کسی دوستی کو ختم ہوتا دیکھتی ہوں تو میرا خیال ہے کہ زندگی کے کچھ ایسے پہلو ہیں جو دوستی میں خلل ڈال سکتے ہیں لیکن دوستی کی ایسی بہت سی مثالیں بھی ہیں جو زندگی کی ان تبدیلیوں کے باوجود کامیاب رہی ہیں۔‘
قریبی دوستی کے تاریک پہلو
دوستوں سے ہماری دوستی کی توقعات اور ان کی ختم ہونے کی وجوہات میں دوستوں کی صنف کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
امریکی بالغوں کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 66 فیصد مردوں اور 71 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے تمام یا زیادہ تر قریبی دوست ان ہی کی صنف کے ہیں۔
ہائی سکول میں لڑکیوں کے درمیان دوستی نفسیاتی مدد اور قربت کے احساس پر مبنی ہوتی ہے جبکہ لڑکوں کے درمیان دوستی تفریحی پہلوؤں پر مبنی ہوتی ہے۔
مرد و خواتین کے لیے دوست بننے میں ایک بڑا فرق اس کا طریقہ کار ہے۔ خواتین کی اکثر ایک سے زیادہ، قریبی دوست ہوتی ہیں۔ مردوں کا ایک وسیع اور مضبوط نیٹ ورک ہوتا ہے، جہاں ان کے تمام دوست ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ جیسا کہ وہ گروپوں میں دوست بنتے ہیں، دوستی کی دیکھ بھال مردوں کے لیے بہت مختلف ہو سکتی ہے۔
فالانرے کا کہنا ہے کہ خواتین کو ون آن ون دوستی برقرار رکھنے میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ خواتین کی دوستی میں تنازعہ زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
فالانرے کہتی ہیں کہ ’(لڑکیاں اور خواتین) اپنی دوستوں کو وفاداری اور جذباتی لگاؤ کے معاملے میں اعلیٰ معیار پر رکھتی ہیں۔۔۔(خواتین) بتاتی ہیں کہ اگر ان کی اپنی دوست سے لڑائی ہو جائے تو وہ زیادہ اداس ہو جاتی ہیں، وہ زیادہ تنہا محسوس کرتیں ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں دوستی ختم ہونے کے بعد زیادہ تناؤ کا شکار ہوتی ہیں۔‘
دوستوں کے مابین لڑائی جھگڑے یا تنازعات کے حل پر تحقیق بتاتی ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلے جھگڑے کے بعد دوستوں کے ساتھ میل ملاپ کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور یہ کہ جو غصہ وہ محسوس کرتی ہیں اسے ختم ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ دوستی ختم ہونے کی وجوہات مردوں اور عورتوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہیں۔
امریکہ کی مڈ ویسٹرن یونیورسٹی کے طالب علموں پر کی گئی تحقیق میں دوری مردوں کی دوستی میں خلل کا باعث بنتی تھی جبکہ خواتین میں دوستی میں کمی یا دوری کی وجہ اپنی دوست کا کسی کے ساتھ ڈیٹنگ یا اس کی شادی کا ہو جانا تھا۔
جب دوستی کا ختم ہونا اچھی چیز ہو سکتی ہے
کیا آپ کو پرانے دوست کا دامن ہی پکڑے رکھنا چاہیے یہ یقین کرتے ہوئے کہ آپ میں دوبارہ قربت ہو جائے گی۔
ویتھ اور فالانرے کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں، کبھی کبھی دوستی ختم کر دینا یا دوست کو جانے دینا بہتر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بری یازہریلی دوستی کو ختم کرنے سے ہماری صحت بہتر ہو سکتی ہے۔
فالانرے کہتے ہیں کہ ’بعض اوقات ہم واقعی دوستی کو حد سے زیادہ رومانوی بنا دیتے ہیں۔ تمام دوستیاں ہم پر مثبت طریقوں سے اثر انداز نہیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ لہذا زیادہ تر وقت دوستی کے بڑے فائدے ہوتے ہیں لیکن ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم ایسے دوستوں کا انتخاب کر رہے ہیں جو ہماری مدد کر رہے ہوں۔
’کچھ دوست ہمیں ایسا محسوس کرا سکتے ہیں جیسے ہمارا پیالہ بھر گیا جبکہ دوسرے ہمیں نچوڑ کر تھکا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔‘
دوستی کو جان بوجھ کر ختم کرنا ایک اور مشکل چیلنج پیدا کر سکتا ہے، کسی دوست کو تکلیف پہنچائے بغیر اسے کیسے چھوڑا جائے، یہ اہم سوال ہے۔
ایک متنازعہ لیکن عام طریقہ گھوسٹنگ یعنی اچانک سے غائب ہو جانا اور رابطے میں نہ رہنا ہے۔ ڈیٹنگ کی دنیا میں ایک رومانوی تعلق کو کسی برے نکتہ پر چھوڑنے سے گریز کرتے ہوئے اچانک ختم کرنے کا یہ طریقہ وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ آج کل گھوسٹنگ دوستی کو بھی ختم کرنے کا ایک عام طریقہ بن گیا ہے۔
18 سے 25 سال کی عمر کے لوگوں کی ایک تحقیق میں، جن لوگوں نے اپنی دوستی ختم کرنے کے لیے گھوسٹنگ کا طریقہ اپنایا تھا، ان سے ایسا کرنے کی وجوہات پوچھی گئیں۔
ان کے جوابات سے جو سب سے عام محرکات سامنے آئے ان میں زہریلی دوستی، دوستی کو برقرار رکھنے میں عدم دلچسپی، کسی دوست کو پریشان کرنے والا محسوس کرنا، خود کو محفوظ رکھنا یا کسی کا دوستی میں ان کی ذاتی زندگی یا حد سے تجاوز کر جانا شامل تھا۔
اگرچہ ان کے لیے طویل عرصے سے کسی کی دوستی گھوسٹنگ کے طریقہ کار اپنانے سے روکنے میں اہم تھی لیکن وہ پھر بھی اچانک دوستی ختم کرنے کی بجائے، وقت کے ساتھ ساتھ دوست سے بتدریج دور ہوئے۔
اس حربے نے چھوڑ دیے گئے دوستوں کو ’اداسی، مایوسی اور چوٹ‘ کا احساس دلایا تاہم، کچھ افراد نے گھوسٹنگ کے ’عمل کو ایک بری دوستی کے خلاف ایک دفاعی طریقہ کارقرار دیا۔‘
ویتھ ایسی صورتحال میں آگے بڑھنے کا ایک اور، اور شاید بہتر مشورہ دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بارے میں جاننا کہ دوستی کو برقرار رکھنے اور اسے بہتر بنانے کے لیے کیا کرنا ہے اور دوستی میں تنازعات اور تصادم سے کیسے نمٹا جائے۔
’مجھے لگتا ہے کہ بہت سے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ وہ رومانوی تعلقات میں تنازعات کو حل کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ یہ ناگزیر ہے اور اسے ہم سب تسلیم کرتے ہیں۔‘
لیکن جب دوستی کی بات آتی ہے، تو ہم توقع کر سکتے ہیں کہ چیزیں فطری طور پر کام کریں گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو دوستی ختم کر دیں گے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں جانتی ہوں کہ بہت سے لوگ (اپنے) دوستوں کو دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ وہ تعلقات ہونے چاہئیں جو آپ کی زندگی میں آسانی اور بہت سی خوشی، مزہ اور ہنسی لے کر آئیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اور یہ یقینی طور پر سچ ہے لیکن شاید یہ خیال ہمیں اس طرف لے جاتا ہے کہ دوستوں کے ساتھ تنازعات پر بات کرنے یا حل نکالنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ ‘
فالانرے کے مطابق رومانوی تعلقات اور دوستی کے ایک جیسے جذباتی فوائد ہوتے ہیں۔ جیسے گرمجوشی اور خوشی کا احساس۔ ان میں بھی ایک اہم فرق ہے: رومانوی تعلقات میں صرف ایک خاص ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ ثقافتوں اور انفرادی سطح پر مختلف ہے، عام طور پر توقع یہ ہے کہ آپ کا صرف ایک ساتھی ہے، اور اس رشتے کے اصول واضح ہیں جبکہ ’دوستیوں میں واحدت کی وہ توقع نہیں ہوتی، جو کسی نہ کسی صورت میں اسے مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے کیونکہ ہم دوستی میں حسد دیکھتے ہیں۔
دوستی ہمیشہ باہمی طور پر خصوصی نہیں ہوتی۔ اگرچہ ہمیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، درحقیقت ہم ایک بہت ہی قریبی دوست کے دوسرے قریبی دوست کے بارے میں حسد جیسا احساس محسوس کر سکتے ہیں۔
فالانرے کہتی ہیں کہ وہ احساس کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ’کیونکہ یہ شخص میرے لیے بہت اہم ہے لیکن اس کے پاس کوئی اور ہے جو اس کے لیے بہت اہم ہے۔‘
یہ یاد رکھنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے کہ انھیں دوسرے دوست رکھنے کی اجازت ہے اور یہ کہ اس سے ہماری دوستی کو خطرہ نہیں۔
اگرچہ دوستی کی نفسیات پر تحقیق اب بھی سامنے آ رہی ہے، یہ رشتے ہماری روزمرہ کی زندگی میں بہت زیادہ توجہ اور توانائی لیتے ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، جس میں 61 فیصد امریکی بالغوں نے حصہ لیا، لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ایک بھرپور زندگی گزارنے کے لیے قریبی دوست ہونا انتہائی یا بہت ضروری ہے۔
ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ شادی کر رہے ہیں اور بعد کی زندگی میں بچے پیدا کر رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی شادی کرنے کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا۔ برطانیہ میں مرد اور خواتین اب پہلی بار شادی کرنے سے پہلے 30 سال سے زیادہ عمر کے ہونے کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ امریکہ میں بھی یہ اعداد و شمار اسی عمر کے ارد گرد ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ہماری زندگی کے ایک بڑے حصے کے لیے دوست وہ استحکام اور مدد فراہم کر سکتے ہیں جو پہلے شادی کا رشتہ فراہم کرتا تھا۔
فالانرے کہتے ہیںکہ رومانوی تعلقات میں جوڑوں کا تعلق توڑ دینا اور پھر بعد میں کچھ سوچ بچار کے بعد دوبارہ اکٹھے ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں۔
کیا یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں اپنے سابقہ دوستوں کے ساتھ بھی غور کرنا چاہیے۔ ایک مفاہمت اور دوسری کوشش؟ ایک بار پھر، یہ دوستی کی نوعیت پر منحصر ہے۔
فالانرے کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ جب کسی کے ساتھ دوبارہ دوستی ہو جاتی ہے تو اس وقت کے حالات پہلے سے مختلف ہوتے ہوں گے۔ یا شاید کبھی یہ بہتر ہوتا ہے کہ اس دوستی کو ختم ہونے دیا جائے۔۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک بار پھر یہ اس بات پر منحصر ہو سکتا ہے کہ کیا آپ کو دوستی ختم ہونے پر سکون محسوس ہوتا ہے؟ کیا وہ دوستی آپ کی زندگی میں مثبت فوائد کا اضافہ کر رہی تھی؟ اگر آپ اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ آپ واقعی ان کی کمی محسوس کرتے ہیں، تو شاید یہ تعلق دوبارہ جوڑنے کے قابل ہو۔‘