وہ اپنے پروں سے شہد کو مستقل ہلاتی رہتی ہیں اوراس کے سبب اس میں موجود باقی ماندہ پانی بھی خشک ہو جاتا ہے، یہ بالکل ویسا ہی عمل ہے جیسے جِلد پر موجود پسینہ ہوا سے خشک ہو جاتا ہے۔ یعنی کہ جو مواد پہلے 70 سے 80 فیصد پانی مشتمل تھا وہ اب مزید خالص ہوتا جا رہا ہے۔
کچھ غذائیں غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں اور برسوں تک استعمال کے قابل رہ پاتی ہیں، انھی میں سے ایک شہد ہےبیکٹیریاکی انتہائی مرغوب غذاؤں میں چینی اور اس سے بنے پکوان شامل ہیں اور بیکٹریا اِن پر تیزی سے پلتے بڑھتے ہیں۔ مگر شہد ایک ایساقدرتی میٹھا ہے جس کے جہاں فوائد بے شمار ہیں وہیں دیگر میٹھوں کی نسبت یہ بیکٹیریا سے بڑی حد تک محفوظ رہتا ہےاور طویل عرصے تک خراب ہونے سے بچا رہتا ہے۔
تو آخر وہ کون سی جادوئی خصوصیات ہیں جس کی بدولت شہد جراثیم کو مات دے دیتا ہے؟
زیادہ تر ڈبوں میں موجود کھانے، پینے کی اشیا محدود مدت کے لیے ہی قابل استعمال ہوتی ہیں اور اُن کو تباہ کرنے کے لیے بس ایک چمچ کی ان ڈبوں میں ڈبکی ہی کافی ہوتی ہے جس سے اس میں پھپھوندی کی تہہ یا بیکٹیریا کی پوری بستی آباد ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ تاہمکچھ غذائیں غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں اور برسوں تک استعمال کے قابل رہ پاتی ہیں، انھی میں سے ایک شہد ہے۔
شہد کو اگر انتہائی بند ماحول میں رکھا جائے تو یہ سنہری مادہ اگرچہ کرسٹل کی صورت اختیار کر کے گاڑھا اور دانے دار ہو سکتا ہے لیکن ظاہری شکل بدلنے کے باوجود شہد خراب نہیں ہوتا۔ اس کی گلنے سڑنے سے مزاحمت کی مستقل صلاحیت اس کی کیمیائی خصوصیات اور اس کے بننے کے طریقے میں پوشیدہ ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ خوراک خراب ہو گئی یا سڑ گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی اور ایسی شے اس میں سرائیت کر گئی ہے جو عام آنکھ سے شاید دکھائی نہ دے۔
بیکٹیریا، پھپھوندی اور فنگس کم یا زیادہ تعداد میں زیادہ تر خوراک میں موجود ہوتے ہیں اور خوراک کو محفوظ کرنے کے جو طریقے انسان استعمال کرتے ہیں ان کا مقصد ہی ان جرثوموں کو اس خوراک پر کچھ وقت کے لیے پلنے سے روکنا ہوتا ہے۔
ان میں سے بہت سے خوردبینی ( عام آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے) جاندار اپنے پھلنے پھولنے کے لیے نمی والے حالات، قدرے زیادہدرجہ حرارت، معتدل پی ایچ (pH) اور وافر آکسیجن والے ماحول کو پسند کرتے ہیں۔
اسی لیے گوشت یا پھل کو خشک کر کے رکھنا تجویز کیا جاتا ہے۔
خوراک کو تیز درجہ حرارت پر پکانا اور پھر فریج میں رکھنا زیادہ تر جراثیموں کو ختم کر دیتا ہے اور جو باقی بچ جاتے ہیں اُن کی افزائش کا عمل قدرے سُست پڑ جاتا ہے۔
کسی چیز کو ہوا بند جار میں رکھنے سے بھی آکسیجن کی رسائی بھی محدود ہو جاتی ہے اور چیز زیادہ دیر تک قابل استعمال رہ سکتی ہے۔
اس سب کے باوجودوہ خوراک بھی جس پر حفاظت کے تمام طریقے آزما لیے گئے ہوں ایک حد یا مخصوص عرصے تک ہی محفوظ رہ سکتی ہے۔
ہم ہمیشہ ان خوردبینی جانداروں کے خلاف جنگ لڑتے رہے اور اس میں ہارتے چلے آئے۔
لیکن شہد میںبہت کچھ ایسا خاص ہے جو اس کو خراب ہونے سے روکتا ہے۔
دنیا بھر سے تازہ ترین خبریں اب آپ کے واٹس ایپ پر! بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کے رس سے شہد تیار کرتی ہیں۔ شہد ابتدا میں ایک نیم گرم اور پانی جیسا شیریں محلول ہوتا ہے، جو دیکھنے میں بیکٹیریا کے لیے خالص چارے جیسا لگتا ہے لیکن مکھیاں اس رس کو چھتے تک لے جاتے ہوئے اس میں سے کچھ پانی نکال کر اسے گاڑھا کر دیتی ہیں۔
شہد کی مکھیاں پھولوں کے رس سے شہد بناتے وقت اس میں موجود پانی کو کسی حد تک ختم کر دیتی ہیں، اس میں تیزابی مواد کو بڑھا دیتی ہیں جس سے جراثیم رُک جاتے ہیں اور شکر کی مقدار بھی کم کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اس مواد کو چھتوں میں رکھ دیتی ہیں۔

اس کے بعد یہ مکھیاں ایک کمال کام کرتی ہیں: وہ اپنے پروں سے شہد کو مستقل ہلاتی رہتی ہیں اوراس کے سبب اس میں موجود باقی ماندہ پانی بھی خشک ہو جاتا ہے، یہ بالکل ویسا ہی عمل ہے جیسے جِلد پر موجود پسینہ ہوا سے خشک ہو جاتا ہے۔ یعنی کہ جو مواد پہلے 70 سے 80 فیصد پانی مشتمل تھا وہ اب مزید خالص ہوتا جا رہا ہے۔
عام طور پر شہد میں 15 سے 18 فیصد پانی ہوتا ہے۔ پانی میں چینی کی مقدار اتنی ہوتی ہے کہ اسے تحلیل کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن شہد کی مکھیاں یہ کام کر لیتی ہیں۔
اس میں بہت ساری مٹھاس ہوتی ہے اور ظاہر سی بات ہے جراثیم اس کی طرف پہنچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پانی کی غیرموجودگی اور تیزابیت کی موجودگی میں ان کی اپنی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
شہد کو کسی مرتبان میں بند کر دیں اور ایئرٹائٹ کر دیں۔ کچھ فوڈ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کھانے میں جتنا پانی کم ہو گا وہ اتنا زیادہ محفوظ رہے گا، پروسیسڈ فوڈ کو بھی اسی طرح محفوظ بنایا جاتا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شہد اپنی تازگی کو ہر صورت میں برقرار رکھ سکتا ہے۔ اگر ایک مرتبہ شہد کا مرتبان کُھل جائے اور اس میں چمچہ چلا جائے تو اس کے ساتھ اس میں نمی اور جراثیم بھی شامل ہو جاتے ہیں۔