پہلے خواتین گھڑ سواری کرتی تھیں اور اب موٹر سائیکل چلاتی ہیں تو لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں ۔۔ پہلے دور کی خواتین آزاد اور اب کے دور کی تنقید کا شکار کیوں؟

image

ہمارا معاشرہ کتنا بھی موڈرن کیوں نہ ہوجائے لیکن کہیں نہ کہیں آج بھی ہماری سوچ بہت پیچھے ہے، ہم ویسے تو خواتین کے حق و حقوق کی بہت باتیں کرتے ہیں پر عملی طور پر ان باتوں پر پورا نہیں اترتے۔ جبکہ اسلام نے چودہ سو سال قبل ایسے معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے حق میں آواز اٹھائی تھی جب عورتوں کو حق دینا تو دور کی بات ان کو پیروں کی جوتی سمجھا جاتا تھا۔

آج ہم اسی سے متعلق لوگوں کے دو مختلف نظریات پر بات کریں گے۔ اوپر لگی تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دو زمانوں کی دو عورتیں کو دکھایا گیا ہے۔ ایک تصویر مشہور ترکی زبان کے ڈرامے ارطغرل غازی کی مرکزی اداکارہ حلیمہ سلطان کی ہے جبکہ دوسری تصویر میں موجود لڑکی آج کے زمانے کی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان دونوں تصویروں میں کیا فرق ہے؟ آئیے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔

ایک طرف ہمارا معاشرہ ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی خواتین کی خود مختاری، بہادری اور مشکل حالات میں کچھ بھی کر گزرنے کے حوصلے کو دیکھ کر اسے خوب سراہتا ہے، اس کی ہمت و طاقت کی تعریف کرتا ہے یہاں تک کے ان کے اکیلے گھڑ سواری کرنے پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا بلکہ اسے اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس عمل کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ دوسری طرف آج کے دور کی ایک عام لڑکی ہے جو سواری کے لئے بائیک کا استعمال کر رہی ہے۔ ایسا کرنے پر اسے لوگوں کی کہیں کڑوی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور صرف باتوں کا ہی نہیں بلکہ لوگوں کی عجیب نظروں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان لڑکیوں کے کردار ان کے والدین کی تربیت تک پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔

جی ہاں یہ ایک ہی معاشرے کی دو الگ الگ سوچ ہے، جبکہ دیکھا جائے تو دونوں عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق ہے تو ہمارے نظرئیے میں، جو آج بھی عورت کو جائز حق و حقوق دینے کے بجائے دوسرے معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ کہیں حضرات نے تو لڑکیوں کے بائیک چلانے پر فتوے تک جاری کردیئے تھے۔ راستے میں ہر مرد ان خواتین کو ایسی نگاہوں سے دیکھتا ہے جیسے انھوں نے نہ جانے کون سی مخلوق دیکھ لی ہو۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور اس چیز کو نارملائز کریں اور اسے غلط نگاہ سے نہ دیکھیں کیونکہ یہ صرف ایک سواری کا ذریعہ ہے اور کچھ نہیں۔ عورتوں کی عزت کریں عورتوں کو عزت کا مسئلہ نہ بنایئں۔

You May Also Like :
مزید