کاش کے اس مضمون کا عنوان بھی کسی سیاسی جماعت کا نعرہ
ہوتا۔ آج کل انتخابات کی گہما گہمی اپنے بام عروج پر ہے، رات گئے تک کانوں
میں کسی نا کسی جماعت کی ریلی یا اشتہاری مہم کی گاڑی سے گونجتے تنظیمی
ترانے ، نغمے یا گانے سمع خراشی کرتے رہتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کے باعث یہ
آواز سیدھے سونے کے کمروں میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے گھسی چلی آتی ہے۔ یوں تو
ہر جماعت اپناانتخابی منشور کاباقاعدہ اعلان کرچکی ہے لیکن اپنی موجودگی کا
احساس دلانے کیلئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے (اور یہ ایسا ہی لگتا ہے کہ
جاگتے رہنا ہم پہ نا رہنا)۔ انتخابات میں شرکت کرنے والے امیدواروں کے
پمفلیٹ ، بینر اور دیگر تشہیری مواد دیواروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ پچھلے
پانچ سال قبل بھی کچھ ایسی ہی گہما گہمی تھی شائد اس سے کہیں زیادہ ہی تھی۔
کیونکہ اب کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ اور لاہور میں مسلم لیگ (ن) اپنے
روائتی انداز سے ہٹ کر انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہیں۔ ان باتوں سے قطع
نظر انتخابات پر کل ملا کر تخمینہ اربوں روپے میں تو پہنچ جاتا ہوگا۔
ڈیم کیلئے خطیر رقم کی ضرورت ہے جوکہ بطور چندہ جمع کی جارہی ہے ، اللہ نے
چاہ تو یہ چندہ جمع ہو ہی جائے گا کیونکہ یہ قوم کتنی پاکستانی ہے یہ چندہ
دینے کے ہی وقت پتہ چلتا ہے اور خصوصی طور پر جب چندہ پاکستان کیلئے جمع
کیا جا رہا ہو، قرض اتارو ملک سنوارو، مختلف ہسپتالوں کیلئے فنڈ ، سیلاب
فنڈ، ۲۰۰۵ میں آنے والے زلزلے کی مد میں قائم ہونے والا فنڈ اور عام لوگوں
کا طبعی طور پر جائے وقوعا پر پہنچنا، اور اسی طرح کے دیگر فنڈ زجہاں
پاکستانیوں نے دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جولوگ خود مدد کیلئے پہنچ
سکتے تھے وہ پہنچے۔ ہماری بے حسی کے قصے اپنی جگہ لیکن ایک دوسرے کیلئے
ہماری قربانیوں کی داستانیں لازوال ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارا پڑوسی اور
بہترین دوست ملک چائنا اپنی افرادی قوت کا بھرپور استعمال کرتے اور اپنی
قومی ذمہ داری کو خوب سمجھتے ہوئے ۔ چین کے بارے میں ہم سب نے سن رکھا ہے
کہ جب انہیں کوئی ڈیم بنانا ہوتا تھا تووہ اسکولوں میں منادی کروادیتے تھے
کہ روز صبح اسکول جاتے ہوئے بچے سرکاری طور پر مخصوص کردہ جگہ پر پتھر
پھینکتے جائینگے اور اس طرح سے بغیرکسی اضافی اخراجات کہ بنیادی کام مکمل
ہوجاتا ہے ۔یہ قوم کا ملک سے محبت کا حقیقی مظاہرہ ہے۔ ہم نے اگر اب بھی
ڈیم بنانے میں کسی بھی وجہ سے تاخیر کی تو وجوہات بڑھتی ہی جائینگی کم نہیں
ہونگی۔ان وجوہات کو جاننے کیلئے کوئی سائنسی فارمولا لگانے کی نوبت نہیں
آئے گی بلکہ باہمی اختلافات کی حد سوچ لی جائے تو کافی ہوگا۔
کچھ عمومی مشاہدے اور تجاویزدرجہ ذیل ہیں جو بذریعہ اس مضمون کے محترم چیف
جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب اور اپنے معزز پاکستانیوں تک پہنچانا
چاہتا ہوں؛
ملک میں انتہائی اہل ، قابل، صحت من اور سب سے بڑھ کر ملک سے محبت کرنے
والے لوگ موجود ہیں جو معاشی اعتبار سے بھی مستحکم ہیں۔ ہر صوبے اور شہر سے
ایسے لوگوں کو بذریعہ اشتہار آؤ ڈیم بنائیں ، پاکستان بچائیں جمع کریں۔ ۔
ان لوگوں کو انکی قابلیت اور اہلیت کے مطابق مختلف ٹیمیں تشکیل دیں ۔ انکے
ذمہ لگائیں کے یہ خود فیصلہ کریں کے خالص وطن عزیز کی خاطر بلکل اس فوجی کی
طرح جوکہ سرحدوں پر دن رات اپنا فرض سمجھ کر گزار رہا ہے کام کریں، جو اپنی
خوشی سے جیسا اپنا حصہ ڈالنا چاہے وہ آگے بڑھے اور اپنا حصہ ڈالے۔
جتنی بھی جماعتیں انتخابات کی اشتہاری مد میں خرچہ کر رہی ہیں انہیں چاہئے
کہ یہ رقم ڈیم کے فنڈ میں ڈلوادیں۔
ہمارے ملک میں بیشمارملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری ادارے (این جی اوز) ہیں
جوملک بھر میں مختلف منصوبوں پر کام کررہے ہیں اور جنہیں ملکی اور غیر ملکی
ذرائعوں سے خطیر امداد موصول ہوتی اور جو اپنی ذمہ داریاں تعلیم ، صحت اور
دیگر امور کی بہتری کیلئے نبہا رہے ہیں، ان اداروں کو ایک مخصوص وقت کیلئے
ڈیم کے کاموں میں طلب کر لیا جائے اور یہ اپنی دیگر تمام مصروفیات ڈیم کی
تکمیل کیلئے وقف کردیں۔
ایمینسٹی اسکیم میں ہمارے مالیات سے وابسطہ لوگ کچھ ایسی سہولیات دیں کہ جس
سے ڈیم کی مد میں خصوصی اضافہ کیاجاسکے۔
سب سے زیادہ جو ضرورت پڑے گی وہ غیر پیشہ ورمحنت کشوں کی ہونی چاہئے جسکا
انتظام ملک کے مختلف چھوٹے بڑے ملکی نجی اور ملٹی نیشنل ادارے لے لیں ، کچھ
ادارے ان محنت کشوں کے کھانے پینے اورکچھ ادارے رہنے سہنے کا انتظام اپنے
ذمہ لے لے۔ ذرائع آمد و رفت سے وابسطہ لوگ آگے آئیں ، سامان اور افراد کی
آمد و رفت کا انتظام سنبھال لیں۔
ہمارے صاحب اختیاروں کے ایسے اقدامات دیکھتے ہوئے بہت حد تک ممکن ہے دیگر
اسلامی برادر ممالک ہمارے اس کام کو پایاتکمیل تک پہنچانے کیلئے ممکنہ
امداد دیں۔
افواج پاکستان ہر گھڑی پاکستان اورپاکستانیوں کیلئے تیار رہتی ہیں تو انکی
ماہرانہ خدمات سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا تو جناب گھاس اگانے کیلئے زمین
کیساتھ پانی بھی ضروری ہوتا ہے ۔ڈیم بن گئے تو ہریالی ہی ہریالی ہوگی۔
اگر پورا پاکستان بشمول بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے کاندھے سے
کاندھا ملا کر ڈیم بنانے کیلئے کھڑا ہوجائے اور اپنااپنا ہر ممکن حصہ ڈالے
چاہے وہ دس روپے ہی کیوں نا ہویا پھر کھدال کی مدد سے کھڈا کھودنے والا
کیوں نا ہو یا پھر جیسی بھی ضرورت ہو ہم اپنی آسانی سے اپنے وطن عزیز کے
کام آسکیں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے وطن کی بقاء کیلئے تعمیر
کئے جانے والے ڈیم میں اپنے حصے سے آگاہ کرسکیں اور کچھ تو ایسا کر لیں کہ
سر اٹھا کر اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ چل سکیں۔ شائد اس مقصد کیلئے اور
مواقع بھی ملیں لیکن وہ مواقع اس موقع کے مکمل ہونے پر منحصر ہیں۔
بقول فراز کہ قصہ ظلمت شب سے کہیں بہتر ہے اپنے حصے کا چراغ جلاتے جائیں
شائد کچھ لوگوں کو میرے اس مضمون سے اتفاق نا ہو اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہوں
کہ معلوم نہیں لکھنے والا کس ملک کا رہائشی ہے لیکن لکھنے والے کو یقین ہے
کہ یہ قوم جب کچھ ٹھان لے تو پھر اسے کر کے ہی دم لیتی ہے ۔ اسی قوم کے
بزرگوں نے یہ ملک بنایا تھا ابھی ہماری رگوں میں انہیں بزرگوں کا خون رواں
دواں ہے اور اسی عزم اور حوصلے سے لیس ہے۔ بس سمت کا صحیح تعین کرنے والی
قیادت چاہئے جوکہ امید ہے کہ یہ قوم اپنے قیمتی ووٹوں سے چننے والی ہے۔ |