لیجنڈ آف پالیٹکس نثار گیلانی کا عہد تمام

لیجنڈآف پالیٹکس نثار گیلانی کا عہد تمام

طاہر احمد فاروقی

دنیا مسافر خانہ ہے مہمان بدلتے رہتے ہیں
قصہ وہی فرسودہ ہے عنوان بدلتے رہتے ہیں
یہ اشعار مرحوم صاحبزادہ اسحاق ظفر کے خطابات کے ساتھ تکیہ کلام کی حیثیت اختیار کیے ہوئے تھے جن کی تقاریر کا اختتام اکثر و بیشتر انہی کلمات کے ساتھ ہوتا تھا جب اپنے یار سید نثار الحسن گیلانی کے بلائے بن بلائے مہمان بنتے ہوئے رونق لگاتے تو دونوں کے مابین قہقوں‘ ہنسی مزاق کا دورانیہ گل گلزار رنگ اختیار کر جاتا تھا،اشعار کی زبان میں ایک دوسرے پر حملے کرتے ہوئے باہم لمحات کو یاد گار بناتے چلے جاتے تھے یہ دنیا مسافر خانہ ہے ہر انسان یہاں مہمان ہے ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا سب ہی کرتے ہیں مگر قوموں‘ ملکوں‘ علاقوں‘ معاشروں اور زندگی کے تمام شعبہ جات کے اندر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی خوبیوں کے ثمرات سے اپنے ارد گرد ملنے دیکھنے سننے والوں کے دِل و دماغ میں سماء جاتے ہیں ان کو اپنے ساتھ اپنے خاندان‘ شہر‘ پیشہ وارانہ حیثیت اور عہدے منصب ماضی حال کے حوالے دینے کی ضرور ت نہیں پڑتی ہے ان کا نام ہی ان کا تعارف بن جاتا ہے بلکہ اس کے خاندان‘ عزیز و اقارب‘ دوست احباب اور زندگی کے منسلک شعبہ جات سے ملنے جلنے والوں کا تعارف بھی ان کا تعلق بتا کر مزید تمہید اور تفصیل کے تقاضوں سے آزاد ہو جاتا ہے‘سید نثار الحسن گیلانی کا نام اور مقام اپنے رشتوں ناطوں اور احباب سمیت علاقہ سیاست سمیت منسلک علاقوں میں اپنا تعارف آپ تھا جو 2 جو لائی سوموار کی شب دنیا کے مسافر خانے میں اپنی زندگانی کا سفر مکمل کرتے ہوئے اصل منزل کی جانب گامزن ہو گئے ہیں‘ بچپن سے جوانی تک بھرپور شرارتوں اور ہر ہر سطح پر کچھ کر گزرنے کے لیے سرگرم رہنے کی عادات اطوار والے نثار الحسن گیلانی نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کے ساتھ طلبہ سیاست میں اپنے نام اور کام کی شروعات سے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم تک اپنے عروج کا عہد رقم کیا ان کی آزاد منش سوچ فکر نے ان کو ذوالفقار علی بھٹو کا پرستار بنایا جن کی بے لوث خدمات اور وابستگی کے اعتراف میں ان کے گھر محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدنے آکر ان کے نام و کردار کو جلا بخشی، دارالحکومت مظفر آباد بلدیہ کے چیئرمین منتخب ہوئے اور بلدیہ کو بلدیہ اعلیٰ کا درجہ ملاجس کے پہلے منتخب میئر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا،اس سارے عرصے میں ان کا دفتر میلہ کا سماں پیش کرتا رہا ہر آنے جانے والے سے ایسے ملنا جیسے برسوں کا بہت قریبی رشتہ تعلق ہو اور اس کا مسئلہ حل کرنے کی طرف اپنے طور پر تمام تر زور لگا دینا ان کی خوبی بن کر ان کے دائرہ‘ تعلق اثر کو وسعتوں میں بکھیرتا رہا جس کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی بیرسٹر سلطان محمود حکومت میں دوبارہ بطور ایڈمنسٹریٹر بلدیہ اعلیٰ ذمہ داریوں کا فریضہ ان کے سپرد ہو گیا،پہلے کی طرح میلہ سجائے ہنستے ہنساتے رونقیں لگانے باغ و بہار ماحول کے اپنے اعزاز کو چار چاند لگایا‘ یہی وہ عرصہ تھا جب ان کی وزیراعظم وقت بیرسٹر سلطان محمود سے یاری نے جنم لیکر محبتوں کی تقسیم کا راستہ کھول دیا، شیریں و تلخ‘ اونچ نیچ کے پلٹنے جھپٹنے کے حادثات مقابل ہو گئے‘ پیپلز پارٹی اور نثار الحسن گیلانی ایک دوسرے کی پہچان تھے جس پر یار کی یاری غالب آ گئی اور یارانہ بلندیوں کے کوہ پیما نثار الحسن گیلانی نے اپنی طویل ریاضت رفاقت کو نثار کر کے خطرات کے انتخاب میں رسق کو مقدر بنا لیا‘ جو ان کا خاصہ تھا مگر آزمائشوں کو خوش دِلی سے قبول کیا‘ پیپلز پارٹی کی چوہدری عبدالمجید حکومت کے قیام کے انتخابات سے چند ایام قبل اپوزیشن چیمبر میں اپوزیشن لیڈر چوہدری عبدالمجید نے ان کو ان کی خوبیوں‘ جرات‘ ریاضت اور بے لوث پارٹی وابستگی کی تاریخ کے تناظر میں بلا کر میٹنگ کی‘ سننے سنانے کے بعد خوشگوار انداز میں بتایا کہ آپ کا کردار اور مقام مسلمہ ہے جس کے آخری لمحات کا خود بھی شاید ہوں، محترمہ شازیہ اکبر بھی موجود تھیں مگر یار پر یاری کا غلبہ ہوتا ہے یہی حال نثار گیلانی کا تھا جو اپنے ضبط پر قابو نہ رکھ سکے اور اچانک غصہ میں شعلے کی طرح سرخ ہو گئے کہ بگڑی طبیعت کو دور کے سفر نے اپنی پلیٹ میں لینے کی شروعات کر دی اور مسلم لیگ کی فاروق حیدر حکومت کے قیام کے انتخابات سے قبل اپنے خاندان کے اپنے دوست آصف گیلانی کے کومے میں چلے جانے کے سانحہ کے ہاتھوں خاندان کے دباؤ کہ دوست کا بیٹا افتخار گیلانی اُمیدوار ہے وہ مجبور ہو گئے اور موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی گھر آمد پر اپنے جذبات‘ احساسات‘ ماضی‘ حال مستقبل کو ایک بار پھر قربان کرتے ہوئے مسلم لیگ میں آ کر افتخار گیلانی کی کامیابی میں اپنے تجربے‘ تعلق‘ اثر کو جھونک دیا‘ باوجود اس کے کہ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلہ میں اپنے بہت پیارے معصوم پوتے‘ پوتی دفنا کر ٹوٹ کر بکھر چکے تھے‘ ان کی تصاویر اپنے کمرے میں لگا کر چھپ چھپ کر روتے تھے کہ وہ زلزلے میں انکے سینے کے اوپر ان کے بچانے کا سبب بنے مگر خود قربان ہو گئے اس حادثے سمیت ٹریفک حادثات میں کئی بار بستر سے جا لگے مگر اندر سے شیشہ کی طرح کرچی کرچی ہو کر بھی باہر سے استقامت‘ صبر و قار کا برہم قائم رکھا‘ سر اُٹھا کے جیتے رہے‘ آخری سالوں میں سرطان سمیت بیماریوں کے کرب کا اپنی صفت جدوجہد سے مسکرا کر سامنا کرتے رہے،بڑی خاموشی سے اپنے سفر آخرت کی طرف گامزن ہو چکے ہیں مگر ان کی شخصیت طبیعت کا یہ خاصہ کہ جسے ملے اپنے گرویدہ بنا لیا‘ ان گرویدہ لوگوں میں بھی جن سے اپنے حال دِل کا اظہار بچپن کے دوستوں کی محفل کی طرح سماں باندھتے ہوئے کر دیتے تھے وہ انکے اچانک الوداع ہو جانے کی اطلاع کو سنتے اور اس پر دُکھ افسوس کا اظہار ان کے تعلق دارحتیٰ کہ خاندان کے ورثاء کو دلاسہ کے دو لفظ کس طرح کہیں اور سامنے آ کر خود پر قابو رکھیں باوجود بار بار ہمت کرنے کے ناکام رہے ہیں یہ وہ خاص عجیب و غریب کیفیت ہے جو کروڑوں لاکھوں میں سے کوئی ایک شخص اپنے تعلق والوں پر طاری کر جاتا ہے‘ جو نثار گیلانی بھی ہے تو پھر ان کے خونی رشتوں خصوصاً بھائیوں‘ بہنوں‘ بھتیجوں‘ نواسوں کا خاص کر ان کے بیٹے سکندر پوتے پوتی کا کیا حال ہو گا پھر ان کی شریک حیات کا یقینا ان کی تو دنیاہی لٹ گئی ہے مگر سب نے ایک دِن اس سفر پر جانا ہے‘ جس پر نثار گیلانی روانہ ہو چکے ہیں‘رب کا فرمان ہے وہ مشکلوں کے ساتھ آسانیاں بھی بڑھا کر عطا کرتا ہے‘ اللہ ان کے بیٹے سکندر سمیت لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور بیٹے‘ پوتوں کو ان کے نام‘ مقام کو تابندہ رکھنے کا حوصلہ‘ ہمت‘ استقامت عطاء فرمائے۔ ”آمین“اگر سمندر کو کوزے میں بند کر کے بات کی جائے۔ آزادکشمیر کے لیجنڈ آف پالٹیکس کی لسٹ آف میرٹ بنی تو نثار گیلانی کا نام نمایاں شامل ہو گا۔

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.