اخبارات اور رسائل پڑھنے کا میرا شوق کافی پرانا ہے اور
پاکستانی سیاست میں دلچسپی بھی نئی نہیں سونے پرسہاگہ سوشل میڈیا کی آمد !
خاص طور پر ٹویٹر نے اس سلسلے میں میری سب سے زیادہ مدد کی وہ اس طرح کہ اب
" خبرنامے کی خبروں" اور نامور صحافیوں اور دانشوروں کے کالمز، ٹویٹس اور
پوسٹس پر " سیدھا سیدھا " تبصرہ کرنا بہت آ سان ہوگیا ہے . پہلے یہی کا م
میں " لیٹر ٹو ایڈیٹر "اور "اوپینین " کے سیکشن میں کرتی رہی ہوں مگرجیسے
کہ ہمارے آرٹسٹ لوگ کہتے ہیں کہ فلموں اور ٹی وی ڈراموں کی نسبت ہمیں
"اسٹیج "پر کام کرنا زیادہ پسند ہے کیونکہ فورا ہی داد یا جوتے وصول ہوجاتے
ہیں اسی طرح اپنے "کمنٹس " پر فورا ہی رد عمل جاننے کے لیے مجھے بھی سب سے
بہترین ذریعہ ٹویٹر ہی لگتا ہے اور بارہا اس لاحاصل جہاد سے کنارہ کشی
اختیار کرنے کا ارادہ کر کے بھی اس سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکی کہ"
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی " اور اب تویہ حال ہے کہ صحافی یا
کالم نگار سوال اٹھانے پرفورا ہی بلاک کردیں تو بھی ایک ایسا سرور ملتا ہے
جو صرف کسی نشے باز "جہا ز" کو نشہ پورا ہونے پر ملتا ہے
کچھ دن پہلے ٹویٹر پر محترم خرم قریشی نے ایک لاجواب ٹویٹ کی جسمیں وہ
ٹویٹتے ہیں ”پرسنل ٹویٹر اکمپلشمنٹس " یعنی” ٹویٹر پر میرے ذاتی کارنامے "
اور کارناموں کی فہرست میں وہ ان افراد کے ٹویٹر پیج منسلک کرتے ہیں جنہوں
نے انکو بلاک کیا انمیں گلوکارو خلائی فنکار فخرعالم ، پاکستانی امور ِ
جاسوسی میں ماہر سنتھیا رچی ، تبدیلی بٹالین کے روح رواں میرعلی محمد خان
اور وزیراعظم کی ماورائی خوبیوں کو تاڑنے کا تین سالہ تجربہ رکھنے والی
محترمہ مہر تارڑ شامل ہیں انکے یہ "ذاتی کارنامے " دیکھ کر خاکسارہ کے دل
میں بھی یہ خواہش جاگی کہ میں بھی اپنے " ذاتی کارناموں "کی لسٹ بنا ہی
ڈالوں ، سو پچھلے آٹھ سال سے جن مایہ ناز افراد نے بلاک کرکےعزت بخشی انکی
فہرست بنالی اورآپکو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ جن لوگوں کو میں فالو کرتی رہی
ان میں سے بلاک کرنے والوں کی اکثریت " صحافی یا کالم نگار یا تجزیہ کار"
ہے حتی کہ جن کو کبھی فالو ہی نہ کیا تھا اُن میں بھی اسی پیشے کے لوگوں کی
ایک معقول تعداد موجود ہے اور لگتا ہے اُنکو کسی " الہام " کے ذریعے میرے
ان گستاخ سوالات کے بارے میں علم دیا گیا جو میں آنے والے وقت میں ان سے کر
کے اُن کے منہ کا زایقه خراب کر سکتی تھی
سنجیدگی سے سوچا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے تو وہ دو سوالات ہی سامنے
آ ئے جن پر اکثر "پڑھے لکھے دانشوروں " نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ
پراپنے گھر کے" دروازے " بند کرنا بہتر سمجھا
پہلا سوال عموما بلوچستان ،سندھ اور پختونخواہ کے جبری لاپتہ افراد پر
ریاست کا گریبان نہ پکڑنے پر ہوتا ہے کیونکہ میرے حساب سے صحافی اور خاص
طور پر " تفتیشی صحافت "کرنےوالے اور سیاستدانوں کے "پوشیدہ مالی جرائیم "
کے بارے شو کرنےوالے اینکرز پرایسا سوال بنتا بھی ہے کیونکہ اگر وہ یہ
چھبتا ہوا سوال ریاست کے اداروں سے نہیں کریں گے تو کون کرے گا ؟؟
دوسرا سوال پہلے سوال سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور اسکی گردان بھی روز جاری
رہتی ہے اور اسی طرح میرے بلاک ہونے کا سلسلہ بھی اور وہ سوال ہے صحافی
صاحب ، مسٹر اینکر اور شدید سینیرتجزیہ کاروں کی سیاسی وابستگی ۔
جب بھی اُنکے یک طرفہ سیاسی جھکاؤ پر تنقید اوروضاحت مانگی جاۓ یہ خواتین و
حضرات ایسے چراغ پا ہوتے ہیں کہ لگتا ہے خدا نخواستہ میں نے اُن سے اُنکی
اصل تنخواہ یا حقیقی عمر کے بارے پوچھ لیا ہو
کوئی اِن اللہ کے بندوں کو ابھی تک یہ بات سمجھا نہیں پایا جواستاد ِ صحافت
جناب وجاہت مسعود نے پچھلے دنوں ایک کافی بدتمیز قسم کے ٹویپ کو بہت ہی
تمیز و تھذیب سے سمجھائی
انہوں نےاس ٹویپ کےاسی قسم کےالزامات کے جواب میں لکھا
"کہ" صحافی سیاسی طورپرغیرجانبدارنہیں ہوسکتا ۔
درست ! یہی سچ ہے کہ خبر سیاسی ہوتواسکو سنانے والا جب اُس خبر کا تجزیہ
کرے گا تو وہ یقینن اپنےجانبدار دماغ و دل سے اُس خبرکو توڑ مروڑ کر اپنے
سیا سی گرو کے حق میں اور اپنے نا پسندیدہ سیاسی رہنماوں اور پارٹیوں کے
خلاف پیش کرے گا
اور پھر پاکستان جیسے ملک میں جہاں ایک سے ذیادہ لسانی اکائیاں ہیں اِن
صحافیوں ، اینکروں اور تجزیہ کاروں کا لسانی تعصب بھی ہمالیہ کی بلندیوں
کوچھو رہا ہوتا ہے ویسے یہ لفظ "اکائیاں " پاکستان کے مین اسٹریم نیوز
میڈیا کے لیے میں نے بلاوجہ ہی استعمال کیا ہے کیونکہ اردواور انگریزی پریس
ہو یا چینلزمگر یہاں اکائیاں نہیں صرف" ڈیڑھ اکائیِ" سرگرم ِ عمل ہے بقیہ
تین ساڑھے تین اکائیاں تو ایسے ہیں جیسے آٹے میں نمک بلکہ آٹےکوگوندھتے
ہوئے صرف"نمک " کا نام ہی لے لیا جا ئے توکافی ہے
ایسے میں اِن “بے چارے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں“ کی آزمایش کرنا اپنے آپ
میں ایک ظلم ہے جو مجھ سمیت بہت سوں سے ہر روز، ہر لمحے سرزد ہوتا رہتا
ہےمگر یھاں غلطی میڈیا برادری کی بھی ہےکیونکہ ہم نے تو صحافت نہیں پڑھی
مگراِنکوتوصحافت ازبر ہونی چاہیے
جب اِنکو پتہ ہےکہ یہ غیرجانبدارنہیں ہوسکتے، یہ "غیرسیاسی بچے" نہیں بن
سکتے توکیوں عوام پراپنے
مسیحا " ہونے کا رعب ڈالتے ہیں؟ کیسےایسا ظاہرکرتےہیں کہ یہ " دار" پرچڑھ
جانےوالےسرمد ومنصورہیں؟ کس لیے لوگوں کوسقراط کی ایکٹنگ کر کے دیکھاتے ہیں
جب کہ زہرکے پیالے شہروں میں بسنے والی نام نہاد پڑھی لکھی مڈل کلاس کو
پلاتے ہیں اورخود "دودھ کے پیالوں"پر پھل پھول رہے ہیں
اِن مین اسٹریم صحافت میں پائ جانے والی مخلوق کو ایک بارتو یہ اعتراف کُھل
کرکرلینا چاہیے کہ وہ “سیاسی وابستگی” کو گناہ نہیں سمجھتے اورجب اُنکو
اُنکے معتصبانہ روئیے پرتنقید کا سامنا کرنا پڑے تومجھ جیسے سوال
اٹھانےاور" طعنے" دینے والوں کو بلاک کرنے کی بجائے اِنکو اِس حقیقت کا
اظہارکرنا چاہیے کہ ہاں ! ہمارا “سیاسی جھکاؤ “ ہے کیونکہ حال یہی ہے کہ ہر
ایک سو صحافیوں،کالم نگاروں ،اینکرز اور تجزیہ کاروں میں پچاس فیصد جی ایچ
کیو میں فوجی بوٹ پالش کرکے کماتے ہیں تو انچاس فیصد جاتی عمرہ کے بیانیے
کی ما لش کرکےروزی روٹی کماتے ہیں اوربقیہ ایک فیصد اِس تمام منظر کو
خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں مگر حقیقت سننے کوکوئی بھی تیار نہیں اور جِس
بحث کو محترم وجاہت مسعود نے دو منٹ میں نمٹا دیا اُسپر مجھ جیسے "طفلِ
مکتب "کو جو مشکل سوال کرنے پر ویسے ہی مکتب سے نکال دیا جاتا ہے کبھی "
ٹرول " تو کبھی جعلی ا کاونٹ کے القابات سے نوازکر اپنے دروازے بند کر دیتے
ہیں۔ حوصلہ کرِیں جناب اور سچ بولیں کیونکہ ہر سچائی تک پہنچنے کے لیے
حوصلہ چاہیے ہوتا ہے
|