عید کے تینوں دن خیریت سے گذر گئے بلکہ حکمرانوں نے
آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی خوشخبری سناتے ہوئے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ
کرکے اس باقاعدہ طور پر جشن بھی منایا اور اب آنے والے دنوں میں بجلی بھی
مزید مہنگی ہو جائیگی جس سے کھانے پینے والی اشیاء تو مہنگائی کی لپیٹ میں
آئیں گی ہی وہاں پر عوام کا جینا بھی مشکل ہو جائیگا پہلے ہی لوگوں کے مالی
حالات اتنے خراب ہیں کہ زندگی پر موت کو ترجیح دی جارہی ہے دیکھتے ہیں کہ
آنے والے دنوں میں ہماری معیشت کا جنازہ کس دھوم سے نکلے گا کیونکہ پاکستان
اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا گیا جسکے مطابق پاکستان کو آئی ایم
ایف سے 3ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی ابتدائی منظوری مل گئی جس سے ڈیفالٹ
کا خطرہ بھی کم ہو گیا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3ارب ڈالر مالیت
کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے ابھی یہ پیسے پاکستا ن
کو ملے نہیں ہیں کیونکہ یہ معاہدہ ابھی بھی آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی
منظوری سے مشروط ہے اگر ایمانداری سے دیکھا اور پرکھا جائے تو اس معاہدے کے
بغیر ہمارا زندہ رہنا مشکل تھا یہ پیسے نہ آتے تو ہم اپنے قرضے کی قسط کیسے
جمع کرواتے اور ملک کے اندورجو کھانے پینے والے معاملات ہیں وہ کیسے آگے
بڑھتے اب پیسے آنے سے ترقیاتی کام بھی ہونگے جس میں کمیشن مافیا بھی اپنا
حصہ وصول کریگا اسی کمیشن سے تو ہمارے سرکاری افسران کروڑو نہیں بلکہ اربوں
پتی بن چکے ہیں بلوچستان میں پانی کی ٹینک سے کروڑوں روپے بھی ایک سرکاری
اہلکار سے ملے تھے اور ابھی کراچی میں سیکریٹری لوکل گورنمنٹ بورڈ سندھ کے
گھر سے اربوں روپے ،آئس اور ولائتی شراب برآمد ہوئی ہے یہ سب پاکستان کے
غریب لوگوں کے پیسے ہیں جو آج روٹی سے بھی تنگ آئے ہوئے ہیں یہاں ہر ادارے
میں ایسے درجنوں افراد مل جائینگے جو ضمیر عباسی کو بھی چور بازاری اور لوٹ
مار میں ضمیر عباسی کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے رہی بات سیاستدانوں کی وہ
تو لانچوں اور ہوائی جہازوں میں مال بھر بھر کر پاکستان سے باہر لے جاتے
رہے دنیا کے بیشتر ممالک میں پاکستانیوں کے اربوں روپے موجود ہیں رہی بات
آئی ایم ایف کی تو وہ بلاشبہ قرضے اس لیے دیتے ہیں کہ غریب ممالک اپنے پاؤں
پر کھڑے ہو سکیں اور اس قرضہ سے پاکستان اپنے موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے
کے لیے مستحکم پالیسی پر عمل درآمد کرسکتاہے بشمول زیادہ مالیاتی نظم و
ضبط، بیرونی دباؤ کو جذب کرنے کے لیے مارکیٹ کا تعین شدہ زر مبادلہ کی شرح
اور اصلاحات پر مزید پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں موسمیاتی لچک
کو فروغ دینے اور بہتر بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے آئی ایم ایف کاابھی
فلحال پاکستان کے ساتھ 9ماہ کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پایا ہے جس سے
پاکستان کو بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے فنانسنگ بھی دستیاب ہوسکے
گی پاکستان کو متحدہ عرب امارات(یو اے ای)سے آئندہ چند دنوں میں مزید ایک
ارب ڈالر اور سعودی عرب سے بھی مزید 2ارب ڈالرملنے کی امید ہے اس معاہدے کے
بعد پاکستان کو عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رکی ہوئی دوارب
ڈالر کے مالیت کی فنانسنگ بھی ملنا شروع ہو جائے گی اور ساتھ ہی سیلاب کی
تباہ کاریوں کی تعمیر نو کیلئے عالمی برادری کی جانب سے کئے گئے امداد کی
فراہمی کے اعلان پر بھی عملدرآمد شروع ہوجائے گا اس معاہدہ کی مظوری کے لیے
سیکریٹری خزانہ امداد اﷲ بوسال کردہ کا کردار بھی لائق تحسین ہے اگرآئی ایم
ایف سے قرضہ حاصل کرنے کی بات کی جائے تو پی پی پی اس کھیل میں بہت آگے
پائی جاتی ہے جس نے 10 بار کامیابی سے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے اگر
دیکھا جائے تو 1958 وہ سال تھا جب پاکستان نے پہلی بار انٹرنیشنل مانیٹری
فنڈ (آئی ایم ایف) سے رابطہ کیا اس وقت 3 روپے کا ایک ڈالرملتا تھا جو 1965
کی جنگ میں بڑھ کر 7 روپے تک پہنچ گیا پاکستان حالت جنگ میں ہونے کے باوجود
معاشی معاملات میں بہت بہتر تھا ہم قرضے وقت پت واپس کررہے تھے 1973 میں
بنگلہ دیش کی علیحدگی نے ہماری کمر توڑ دی ذوالفقار علی بھٹو محض 3.42 بلین
ڈالر کا قرضہ لیاجوہم وقت پر واپس نہ کر سکے جنرل ضیاء الحق کے دور میں
پاکستان کو ڈالر مل رہے تھے اور 2 بلین ڈالر کا قرض آئی ایم ایف کو واپس
بھی کردیا 1988 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے 2 قرض
پیکج لیااور اس وقت تک ڈالر 18 روپے تک پہنچ چکا تھایہ قرضے 1990 اور 1992
تک ادائیگی کے لیے طے تھے اور پھر ملک کی سپریم کمانڈ تبدیل ہوئی 1990 میں
نواز شریف پہلی بار اقتدار میں آئے اور انہوں نے لیے ہوئے دوسرے اور تیسرے
قرضوں کی ادائیگی کی بجائے 1993 میں ایک بلین ڈالر کا قرض لے لیا جسکے بعد
1993 تک پاکستان 3 بین الاقوامی غیر ادا شدہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھا
اور اسکے باوجود 1994 میں بینظیر بھٹو نے آئی ایم ایف سے ایک اور پیکج لینے
کا فیصلہ کرلیا یہ وہ وقت تھا جب پاکستان نے پہلی بار قرضوں کی بجائے قرضوں
پر سود ادا کرنا شروع کیا پاکستان قرضوں کی دلدل کے معاشی جال میں پھنستا
گیااور حکومتیں بھی بدلتی رہیں لیکن ہماری معیشت مستحکم نہ ہو سکی 1995 سے
1999 کے درمیان برسراقتدار حکومتوں نے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشیائی
ترقیاتی بینک (ADB) سے 3 اضافی قرضے بھی لے ڈالے 1995 میں ہم 39 ارب ڈالر
کے بیرونی قرضوں کا بوجھ اٹھائے کھڑے تھے اور پھر1999 میں ایک وقت ایسا بھی
آیا کہ جب قرضوں کی واپسی کے لیے پاکستان تقریباً معذور ہوچکاتھا اور ہم
قرض دینے والی ایجنسیوں کو پہلے سے لیے گئے قرضوں پر سود بھی ادا نہیں کر
سکے مختصر یہ کہ جو صورتحال اب ہے وہی اس وقت بھی تھی اور اوپر سے ملک پر
فوجی آمریت کی وجہ سے آئی ایم ایف نے قرضوں اور سود کی قسطوں کی ادائیگی
میں نرمی دینے سے بھی انکار کردیا اور جن ممالک کے ساتھ پاکستان تجارت کر
رہا تھا ان میں سے بیشتر نے آئی ایم ایف کے کہنے پر پاکستان پر اقتصادی
پابندیاں عائدکردی اور پھر 9/11 کا واقعہ ہوگیاورلڈ ٹریڈ سنٹر میں لوگوں کی
ہلاکت نے مشرف کی قسمت بدل دی امریکہ کو افغان جنگ میں اتحادی کے طور پر
پاکستان سے مدد کی ضرورت تھی اور مشرف نے اس موقع کو فائدہ اٹھایا اقتصادی
پابندیاں ہٹا دی گئیں اور مشرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک دونوں کو قرضوں
کی قسطوں کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے 1999
اور 2000 میں معاشی سروے کی بنیاد پر پرویز مشرف نے پیرس کلب سے ملاقات کی
اور پاکستان کو اس طوفان سے نکالا جو ملک کی مکمل معیشت کو اپنی لپیٹ میں
لینے والا تھا رفتہ رفتہ معیشت مستحکم ہونے لگی اور پاکستان قرضوں پر
موجودہ تمام سود اور کچھ قرض خود بھی ادا کرنے کے قابل ہو گیا 2008 میں کل
بیرونی قرضہ جو 39 بلین ڈالرتھا کم ہو کر 34 بلین رہ گیا یہی وہ سال تھا جب
وژن 2020 پیش کیاجس کے مطابق 2020 تک پاکستان قرضوں سے پاک ملک بن جائے گا
2000 سے 2008 تک 9 سال میں پاکستان میں ڈالر کی قدر میں استحکام رہا یہ 52
اور 62 کے درمیان رہالیکن 2008 میں بے نظیر بھٹو کے انتقال کے بعدجب آصف
علی زرداری نے صدر پاکستان بن کر حکومت سنبھالی تو پاکستان میں بدترین
معاشی بدحالی کے دور کا آغاز ہوگیا آصف علی زرداری ایک بار پھر آئی ایم ایف
کے پاس گئے اس بار 7.2 بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی
مجموعی قرضہ جو 39 سے کم ہو کر 34 ارب ڈالررہ گیا تھا وہ بڑھ کر 59 ارب
ڈالرہو گیا اسکے بعدن لیگ کا سنہرا دور شروع ہوا تو بیرونی قرضہ 59 بلین
ڈالر سے بڑھ کر 93 بلین ڈالرتک پہنچ گیا جولائی 2016 سے جنوری 2017 تک صرف
6 ماہ میں پاکستان نے حیرت انگیز طور پر 4.6 بلین ڈالر کا نیاقرض لیا جبکہ
سکوک بانڈز کی فروخت سے ایک ارب ڈالر آئے اور اس سیل کو کامیاب بنانے کے
لیے نیشنل موٹروے کو گروی رکھ دیا گیا ہے یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ
قرضوں کے حصول کے لیے تمام قومی ریڈیو اسٹیشنز اور بیشتر اہم سرکاری
عمارتیں بھی گروی رکھ دی گئی ہیں اگر اندرونی قرضوں کی بات کریں تو اس میں
بھی ایک بڑا سرپرائز ہمارا استقبال کرے گا مشرف دور میں ہر پاکستانی 40
ہزار روپے کا مقروض تھا اور اندرونی قرضہ تین ہزار ارب روپے یا 3 کھرب روپے
تھا زرداری کے دور میں یہ اعداد و شمار بڑھ کر 80 ہزار روپے فی پاکستانی
اور اندرونی قرضے 12 کھرب روپے ہو گئے نون لیگ نے فی پاکستانی قرضہ 80 ہزار
سے بڑھا کر 175 ہزار روپے اور اندرونی قرضہ 21 کھرب روپے کر دیا یہ قرضے
ہماری صنعتوں کے لیے بھی کینسرثابت ہوئے بہت سی مصنوعات جو کبھی پاکستان کی
مشہور برآمدات تھیں اب ان پر چین اور بنگلہ دیش میڈ کا لیبل لگا ہوتا ہے
اورپھر پاکستان درآمدکی جاتی ہیں پچھلے 10 سالوں میں ہماری ٹیکسٹائل
انڈسٹری کا تقریباً 70 فیصد حصہ بندہوچکا ہے یا بنگلہ دیش منتقل ہوگیا
گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان نے تقریبا 22 بار آئی ایم ایف قرضہ لیا ہے اگر
ہم انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کی پاکستان کی تاریخ
پر ایک نظر ڈالیں تو پہلی بار ہم نے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک 1958
میں دی تھی جب جنرل ایوب خان نے ملک کو سب سے پہلے آئی ایم ایف کے راستے پر
لے جا کر اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت خصوصی ڈرائنگ رائٹس (SDR) 25 ملین کے
حصول کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اسکے بعد ایوب کی فنانس ٹیم نے
بالترتیب 1965 اور 1968 میں آئی ایم ایف کے دو بیک ٹو بیک پروگراموں کی
پیروی کی جہاں پاکستان باضابطہ طور پر آئی ایم ایف کا نیا کلائنٹ بن گیا
ایوب خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹونے 18 مئی 1972 کو ایک بار پھر ریاست کو
آئی ایم ایف کے دروازے پر لے گئے ان کے دور میں، پاکستان 1972 سے 1974 تک
مسلسل تین بار آئی ایم ایف کے پاس گیاتب سے لیکر اب تک یہ سلسلہ رکا نہیں
تھما نہیں اگردیکھنا ہوکہ قرضوں کی دوڑ میں سب سے آگے کون ہے تو مجموعی طور
پر 47 فیصد قرضے پی پی پی نے حاصل کیے اس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے 35 فیصد
جبکہ فوجی آمریتیں محض 18 فیصد کے ساتھ پیچھے رہ گئیں آج صورتحال یہ ہے کہ
ایک طرف ایٹمی طاقت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو ر ہی تھی تو دوسری طرف
حکمران اشرافیہ اور کرپٹ افسران کے بیرونی اکاونٹس پھل پھول رہے تھے اب زرا
ہماری کم عقلی کی انتہا بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمیں اپنے قرض کی قسط ادا
کرنے کے لئے بھی دنیا کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے اور دنیا ہم کو قرض دینے
کو تیار نہیں آئی ایم ایف نے قرض دینے کی حامی بھری ہے تو ہم خوشی سے
شادیانے بجا رہے ہیں ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں اور قرض ملنے کی
امید پر فخر کررہے ہیں کہ اس قرض سے ہم اپنا پرانا قرضہ اتاریں گے لیکن یہ
نہیں سوچتے کہ آخر یہ قرض بھی سود سمیت واپس کرنا ہے وہ کون واپس کرے گا؟
ہماری عمر مین تو یہ ممکن نہیں تو پھر کیا ہمارے بچے یا ان کے بچے یا ان کے
بچوں کے بچے یہ قرض اتارتے ہوئے غلامی کی زنجیریں پہنیں رکھیں گے ہم وہ
غافل قوم ہیں جو اپنی آنے والی نسلوں کو قرض کی غلامی کی زنجیریں ڈال کر
خوشی اور فخر محسوس کررہے ہیں آخر میں پنجاب حکومت کی عید کے دنوں میں کام
کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی نگران وزیر اعلی محسن نقوی کی دلچسپی اور
لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے کے افسران سے لیکر عام خاکروبوں تک کے لوگوں
کی محنت نے لاہور کو جس طرح صاف ستھرا رکھا وہ بھی قابل تعریف ہے اور حکومت
ایل ڈبلیو ایم سی کے ملازمین کو ایک تنخواہ کے برابر الاؤنس بھی ۔
|