سیاسی ہلچل

”شہباز سپیڈ“ نے کام دکھانا شروع کردیا۔ وزیرِاعظم کاسب سے بڑا کارنامہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچاناہے کیونکہ ملک کے 3ٹکڑے ہونے اور ڈیفالٹ کرکے سری لنکا بننے کی افواہوں کاشور گلی گلی میں تھا۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ 8ماہ کی قلیل مدت میں نہ صرف ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا بلکہ کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرکے ایک سیاسی جماعت کی تمامتر خباثتوں کے باوجود آئی ایم ایف کا پروگرام بھی لیا۔ اِس وقت سٹاک مارکیٹ تاریخی بلندیوں کوچھو کر دنیاکی بہترین مارکیٹس میں شمار ہونے لگی ہے۔ مہنگائی کے عفریت کوقابو میں کرکے 30فیصد سے زائد کمی کرلی۔ پٹرولیم مصنوعات متواتر کم ہورہی ہیں اور شرح سود میں 5فیصد کمی کردی گئی۔ مہنگائی کی ذمہ دار آئی پی پیزکے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور 5آئی پی پیزکے ساتھ معاہدے ختم کردیئے جس سے نہ صرف 410 ارب روپے سالانہ کی بچت ہوگی بلکہ بجلی کے بلوں میں بھی کمی نظرآئے گی۔ ٹیکس گزاروں کی تعداد ڈبل ہوچکی اور برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

بین الاقوامی سروے کے مطابق پاکستانی معیشت پٹری پرچڑھ چکی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی تجارتی کمپنیوں کا پاکستان کی طرف رجحان نظرآرہا ہے۔ ہمیں یادہے کہ 2021ء میں سعودی ارب سے زکوات اور فطرانے کی رقم ملنے پرتحریکِ انصاف کی حکومت نے خوشی سے بغلیں بجائی تھیں لیکن آج اُسی سعودی عرب سے 2ارب ڈالرسے زائد کی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ پچھلے دنوں سعودی عرب کے وزیرِسرمایہ کاری محترم خالدبِن عبدالعزیز نے اپنے وفدکے ہمراہ پاکستان کاسرکاری دورہ کیا۔ اُنہوں نے فرمایا ”طیارے کادروازہ کھُلنے سے پہلے ہم نے پاکستان کی محبت محسوس کی۔ ہم دوست نہیں ایک خاندان ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کوکسی ایگریمنٹ کی ضرورت نہیں، ہم ایک اور متحد ہیں۔ ہمیں پاکستانی دوستی کی گرم جوشی کااحساس ہے“۔ وزیرِسرمایہ کاری کی موجودگی میں ہی پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 27 معاہدوں پردستخط ہوئے۔ اِس کے علاوہ برادر ملک سعودی عرب پاکستان کونہ صرف کم ریٹس پر پٹرولیم مصنوعات دینے پرتیار ہے بلکہ یہ مصنوعات کریڈٹ پردی جائیں گی۔ 2اکتوبر کو پاکستان کے دَورے پرآئے ہوئے ملائشیا کے وزیرِاعظم محترم انور ابراہیم نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے چاول اور گوشت کی ملائشیا میں امپورٹ کا عندیہ دیا۔ اُدھر پنجاب کے ترقیاتی کاموں میں محترمہ مریم نواز اپنے ”چاچو“ کے مقابلے پرتُلی بیٹھی ہیں۔ اِس مختصر سے عرصے میں اُن کے کارنامے اتنے کہ عقل حیراں۔

ایک طویل عرصے بعد پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کاپہلا اجلاس منعقد ہورہا ہے۔ اِس تنظیم میں ایک درجن ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم شریک ہورہے ہیں۔ اِس کے علاوہ 9سو وفودجن میں بھارتی وزیرِخارجہ بھی شامل ہے اور 2سو انٹرنیشنل میڈیا ارکان بھی اسلام آباد میں موجود ہوں گے۔ 14اکتوبر کوچین کے وزیرِاعظم بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کے لیے تشریف لارہے ہیں۔ تنظیم کااجلاس 15اور 16اکتوبر کو اسلام آباد میں ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں سربراہی اجلاس کی میزبانی پاکستان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے جوملک کی ترقی کے مخالف شَرپسندوں کو قبول نہیں۔ یہ وہ نام نہاد سیاسی ٹولہ ہے جسے پاکستان کی ترقی سے نفرت ہے۔ اِس سے پہلے جب 4اکتوبر کو ملائشیا کے وزیرِاعظم اسلام آبادمیں تھے اِسی ٹولے کے جیل میں بیٹھے بانی نے اُسی دن ڈی چوک اسلام آباد دھرنے کا اعلان کردیا۔ 4اکتوبر کو پنجاب سمیت باقی صوبوں سے توکوئی نکلا نہیں البتہ خیبرپختونخوا کا وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور چند ہزار ساتھیوں اور سرکاری مشینری کے ساتھ اسلام آبادپر حملہ آور ہوا لیکن مُنہ کی کھائی اور اپنے ہمراہیوں کوچھوڑ کر 20 گھنٹوں بعد گرتاپڑتا چھُپتا چھپاتا خیبرپختونخوا پہنچ گیا۔
ْْٓٗٓ
قارئین کویاد ہوگا کہ 2014ء میں جب چین کے صدرکی پاکستان میں آمدآمد تھی تویہی ٹولہ ڈی چوک اسلام آبادمیں دھرنا دے کربیٹھ گیا جس سے چینی صدر کادورہ ملتوی ہوا۔ اب 14اکتوبر کوصرف چینی وزیرِاعظم ہی نہیں بلکہ 12ممالک کے سربراہان بھی پاکستان تشریف لارہے ہیں تواِسی انتشاری ٹولے نے 15اکتوبر کو ڈی چوک میں دھرنے کااعلان کردیا ہے۔ ڈی چوک اسلام آباد عین اُس جگہ کے سامنے ہے جہاں شنگھائی تعاون تنظیم کااجلاس ہونا ہے۔ اِس انتشاری ٹولے کی سیاسی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کااعلامیہ جاری ہواکہ 15اکتوبر کو ڈی چوک میں بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ اعلامیے میں کہاگیا ”مرکز سے نچلی ترین سطح تک تمام تنظیمی ذمہ داران اور ونگزکو ڈی چوک احتجاج کی تیاریوں کوحتمی شکل دینے کی ہدایت کی جاتی ہے اور تیاریوں کے پیشِ نظر پنجاب کے اضلاع میں احتجاج کی منسوخی کااعلان کیا جاتا ہے“۔ اِس سے پہلے پنجاب کے مختلف اضلاع میں 11سے 16اکتوبر تک احتجاج کااعلان کیاگیا تھا۔ 11اکتوبر کو ملتان اور ساہیوال میں کیاجانے والا احتجاج بُری طرح ناکام ہوا اِسی لیے 15اکتوبر کوڈی چوک میں احتجاج کا بہانہ بناکر باقی اضلاع میں احتجاج کی منسوخی کااعلان کیاگیا۔

حقیقت یہ کہ سانحہ 9مئی کے بعد یہ انتشاری ٹولہ مسلسل زوال کاشکار ہے البتہ ٹویٹر پرآج بھی اسی ٹولے کاقبضہ ہے جس کی آڑھت صرف جھوٹ کے سہارے چلتی ہے۔ کچھ یوٹیوبر اور بیرونِ ملک بیٹھے شَرپسند آج بھی اِس ٹولے کی مقبولیت کے گُن گارہے ہیں لیکن صاحبانِ عقل وفہم دیکھ رہے ہیں کہ سنگھجانی اور کاہنہ کی مویشی منڈیوں میں اِن کے احتجاجی جلسے بُری طرح ناکام ہوئے اور عوام نے اِن پر بالکل توجہ نہیں دی۔ کاہنہ مویشی منڈی میں لاہوریوں نے تویہ جلسہ مکمل طورپر مسترد کردیا اور علی امین گنڈاپور جلسے میں پہنچ ہی نہیں سکا۔ آج بھی ایکس پراِن کاشور جاری ہے۔ اِسی لیے محترم چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے اِنہیں ”ڈھولچی“ کا خطاب دیاہے۔ یہ انتشاری ٹولہ محترم چیف جسٹس کے خلاف ہمہ وقت زہر اُگلتا رہتاہے لیکن جب اِن سے سوال کیاجائے کہ محترم قاضی صاحب نے آج تک کون سا فیصلہ آئین وقانون کے خلاف دیاہے تو اِن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ دراصل اِن انتشار پسندوں کو ”بندیالی کورٹ“ جیسے ججزہی مرغوب ہیں جو ان کی خاطر آئین کوری رائٹ کرنے سے بھی دریغ نہ کریں۔ 17مئی 2022ء کو چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5رُکنی بنچ کا آرٹیکل 63اے کی تشریح کا غیرآئینی فیصلہ آیا۔ یہ فیصلہ جسٹس منیب اختر نے لکھااور جسٹس عمرعطابندیال، اعجازالاحسن نے اِس کی حمایت کی جبکہ 2 جسٹس صاحبان، جمال خاں مندوخیل اور مظہرعالم میاں خیل نے اِسے آئین کوری رائیٹ کرنے کے مترادف قرار دیا۔ اِسی فیصلے کے نظرثانی کیس میں قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5رُکنی بنچ نے بندیالی کورٹ کا فیصلہ غیرآئینی قراردیا جس سے انتشاری ٹولے کے تَن بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔

 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 897 Articles with 654882 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More