گذشتہ چند روز سے یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ دہم جماعت کی
مطالعہ پاکستان کے نئے ایڈیشن میں کلثوم نواز اور مریم نواز پر ایک مکمل
باب یا تذکرہ شامل کیا گیا ہے جبکہ کتاب کے سرورق پر مریم نواز کی تصویر
بھی شائع ہوئی ہے۔ ابلاغ کے مختلف پلیٹ فارم اور بعض صحافتی حلقوں کی جانب
سے اس پر ’’تشویش‘‘ بھی سامنے آئی اور اس ضمن میں تنقید کے ساتھ ساتھ
سوالات بھی اٹھائے گئے۔ اسی ’’تجسس‘‘ نے مجھے کتاب کی ورق گردانی پر مجبور
کیا۔ میں نے مذکورہ اعتراضات کا بغور مشاہدہ کیا تو واضح ہوا کہ میٹرک کی
مطالعہ پاکستان کے سرورق پر مریم نواز سمیت کسی کی بھی تصویر موجود نہیں۔
کتاب کا ٹائٹل پیج پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول وفاق کی عکاسی کرتا دکھائی
دے رہا ہے …… دوسری جانب اس میں خواتین کے کردار کے حوالے سے ایک باب پہلے
سے موجود تھا، جس کا عنوان ’’وویمن امپاورمنٹ ‘‘ ہے۔ یہ باب بے نظیر بھٹو
سمیت 7 خواتین کے تذکرہ پر مشتمل تھا۔ یہ وہ بااختیار خواتین ہیں جن کا
پاکستان کی قومی، سیاسی و سماجی ترقی میں کسی نہ کسی حوالے سے کردار رہا
ہے۔ اس مخصوص باب میں فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو، شمشاد اختر ( سابق گورنر
سٹیٹ بنک آف پاکستان)، ارفع کریم، بلقیس ایدھی، ثمینہ بیگ (ماؤنٹ ایورسٹ سر
کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون) ، اقوام متحدہ میں سیکرٹری جنرل کے عہدے
پر فائز رہنے والی دنیا کی پہلی خاتون ڈاکٹر نفیس صادق اور سندھ سے تعلق
رکھنے والی سیاستدان ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا تعارف اور چند لائنوں میں خدمات
بیان کی گئی ہیں۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ نئے شائع ہونے والے ایڈیشن میں کلثوم نواز اور مریم
نواز کے علاوہ نصرت بھٹو کا تذکرہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ
پاکستان کی پہلی خاتون چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم، پاک فوج کی
پہلی خاتون سرجن لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کا اضافہ بھی ہوا ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ کتاب میں مریم نواز اور کلثوم نواز پر کوئی
الگ چیپٹر شائع نہیں کیا گیا بلکہ پہلے سے موجود باب میں مزید بااختیار
خواتین کا ذکر شامل ہوا ہے۔ یہ باب کلثوم نواز اور مریم نواز کا تذکرہ شامل
کیے جانے سے پہلے بھی 2 صفحات پر مشتمل تھا اور اب بھی 2 صفحات پر ہی مشتمل
ہے۔ دوسری جانب میں نے اس اضافے کا موازنہ دیگر خواتین کی تعارفی سطروں کے
ساتھ کیا تو مزید واضح ہو اکہ مریم نواز اور کلثوم نواز پر صرف 4 لائنیں
لکھی گئی ہیں۔ دیگر اہم خواتین کا تذکرہ بھی 3 سے 4 سطور کے درمیان ہے۔
ایسے میں صرف مریم نواز اور کلثوم نواز کو ہدف بنا کر اٹھائے جانے والے
سوالات بے بنیاد ہیں۔ سیکرٹری سکولز ایجوکیشن خالد نذیر وٹو کے مطابق ان
خواتین کا تذکرہ طالبات کے اندر موٹیویشن پیدا کرنے کا باعث ہے جو کہ غلط
نہیں ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے مطابق یہ تبدیلی اس کورس میں تقریباً 3
سال بعد کی گئی ہے جبکہ اس ترمیم کی ضرورت نصاب کی ترجیحات اور ریکوائرمنٹ
کو مدنظر رکھتے ہوئے محسوس کی گئی تھی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ سارا شور اس بات پر ڈالا جا رہا ہے کہ نصاب میں کلثوم
نواز اور مریم نواز کا تذکرہ کیوں، کیسے اور کس کے کہنے پر شامل کیا گیا۔
کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ نصرت بھٹو اور فہمیدہ مرزا کیوں اس چیپٹر کا
حصہ ہیں…… یا، جسٹس عالیہ نیلم، ڈاکٹر نگار جوہر کا مطالعہ پاکستان کی کتاب
میں کیا کام ہے؟۔ قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ یہ سوال میڈیا نمائندگان کے
ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جانب سے بھی اٹھایا جا رہا ہے جن کے محبوب قومی لیڈر
کے ساتھ شادی کرنے والی ہر خاتون نے اس ''سادہ مزاج'' کو اپنے اپنے مقصد
کیلئے استعمال کیا اور اپنے ایجنڈے پر چلانے کی کوشش کی۔ جب ان کا لیڈر ڈٹا
رہا، تو بیویوں سے اس کے راستے جدا ہوئے۔ اعتراض کرنے والے خود انصاف کر
لیں کہ کیا ایسی خواتین نصاب کا حصہ بن سکتی ہیں جنہوں نے ایک قومی لیڈر کے
ساتھ دھوکہ کیا ہو؟ اگر کوئی خاتون اس لیڈر کے ساتھ وفا کرتی اور خاتون اول
رہتی تو یقینا وہ بھی اس کتاب کا حصہ بنتی…… مریم نواز کو پاکستان کی پہلی
خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ کلثوم نواز نے سیاسی سفر میں اپنے
شوہر کا بھرپور ساتھ دیا، کسی قدم پر دھوکہ نہیں دیا اور اتار چڑھاؤ کی
تمام منازل میں شوہر کے ہم قدم رہیں۔
تعلیم کو سیاست سے دور رکھا جانا چاہئے۔ بالخصوص ایسے مواقعوں پر ، جن میں
طلباء کی ذہنی آبیاری ہو رہی ہو …… خدارا بچوں کو پڑھنے دیں …… ان کے ذہنوں
کے دریچے کھلنے دیں۔ یہ بے بنیاد بحث ہے کہ کتاب میں کس کا تذکرہ کیوں شامل
کیا گیا۔ ارباب اختیار و اقتدار کے معاملات درست کرنے ہیں، تو ایسے نکات پر
کیجئے جن سے بچوں کا صحیح معنوں میں بھلا ہو۔ شعبہ تعلیم میں بے شمار
عنوانات موجود ہیں جو توجہ کے متقاضی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ’’ماہرین تعلیم‘‘
اس جانب توجہ دیں۔ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ انہیں پڑھنے
کی جانب لانے کیلئے کچھ کریں …… اور جو پڑھ رہے ہیں انہیں پڑھنے دیں۔ خود
کو لایعنی بحث میں الجھا کر اپنا اور دوسروں کا وقت برباد کرنے سے گریز
کریں۔
|