دراصل یہ اسرائیل کے مفاد و خیال میں ایک نہایت عمدگی سے
کھیلی گئی چال تھی۔ کیوں کہ ایران کو مغربی دنیا میں پسند نہیں کیا جاتا
اور گمان غالب تھا کہ دنیا غزہ کی طرف سے دھیان ہٹاکر اس حملے پر اسرائیل
کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوگی۔ لیکن اسرائیل کی عشروں پر مبنی ہٹ دھرمی سے مسلم
ممالک عاجز تو مغربی دنیا سخت نفرت کا شکار تھی تو ردعمل اسرائیل کی امیدوں
کے برعکس ظاہر ہوا۔
امریکا نے اس چال میں اپنا کردار واضح نہیں کرنا تھا۔ لیکن اپنے پالتو
چہیتے غنڈے کی دہشت ختم ہوتے دیکھ کر اسے کودنا پڑا۔ لیکن اب امکانات واضح
ہورہے ہیں کہ امریکی کانگریس اس ریاستی بدمعاشی میں ریاست کو بدنام کرنے
والوں کو کک آؤٹ کرنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ اب اس ریاستی بدمعاشی کی جڑیں
سی آئی اے تک جا پہنچیں یا الزام ڈونالڈ ٹرمپ پر ڈال کر ایک اہم ریاستی
ستون کو مضبوط رکھا جاۓ۔
یہ ایک طرفہ بیان بہرحال پاکستان میں بیٹھے کسی بھی قسم کے ذمے دار پوری
ذمےداری سے نہیں دے سکتے۔ لیکن جوں جوں جنگ میں امریکا کا نقصان واضح ہوگا،
امریکا میں ٹرمپ مخالفت اور اسرائیلی مخالف مظاہرے بھی بڑھیں گے۔
اسرائیل کی اہمیت امریکی مفادات تک ہے۔ جہاں امریکا کی معاشیات و جمہوریت
کو بڑا خطرہ لاحق ہوا، سی آئی اے اور کانگریس نے اس کا ساتھ بھی چھوڑ دینا
ہے۔
بہرحال مضبوط سیاسی و جمہوری نظام میں بھی شخصی و قانونی آزادی کے ناجائز
استعمالات بڑھتے جارہے ہیں۔ اور جب معاملات ایک فرد کی جگہ قومی نسل کشی تک
جا پہنچیں تو اقوام متحدہ جیسے اداروں کو بھی ری ایکشن دکھانا پڑ جاتا ہے۔
ایران کی ایٹمی صلاحیت ابھی ایٹم بم بنانے تک نہیں پہنچی تھی، اس کی تصدیق
بھی سی آئی اے کر چکی تھی۔ نہ کانگریس نے ایران کے خلاف کسی بھی نوعیت کی
کاروائی کی اجازت امریکی کانگریس و سینیٹ نے دی تھی۔ سو ملبہ زیادہ تر صدر
ٹرمپ پر ہی گرنے کے امکانات ہیں۔
|