چین اور عالمی معیشت کا استحکام

اس وقت دیکھا جائے تو عالمی معیشت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ عالمی برادری کے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا وہ تحفظ پسندی اور غیر یقینی صورتحال کے دلدل میں مزید دھنستی جائے گی، یا پھر تمام اسٹیک ہولڈرز باہمی مفاد پر مبنی شراکت داریاں استوار کرکے اور حقیقی کثیرالجہتی نظام پر عمل پیرا ہوکر مل کر نمو کی بحالی میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اسی تناظر میں ابھی حال ہی میں چین کے شہر تھین جین میں عالمی اقتصادی فورم (ڈبلیو ای ایف) کا 16واں سالانہ اجلاس "نیو چیمپئنز" یا جسے سمر ڈیووس فورم بھی کہا جاتا ہے، منعقد ہوا۔ اجلاس میں حکومت، صنعت، تعلیمی میدان اور دیگر شعبوں کے بین الاقوامی رہنماؤں نے عالمی نمو کو متاثر کرنے والے بڑھتے ہوئے چیلنجز سے نمٹنے کے طریقوں پر قیمتی آراء پیش کیں۔یقیناً ایسا تبادلہ خیال دنیا کے لیے ایک لچکدار اور پائیدار مستقبل کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

وسیع تناظر میں سمر ڈیووس فورم چین اور دنیا کے درمیان تبادلے کو فروغ دینے اور عملی تعاون کو بڑھانے کا ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ یہ تقریب نہ صرف شرکا کو آراء کے تبادلے کا موقع فراہم کرتی ہے بلکہ کاروباری اداروں اور سرمایہ کاروں کے لیے شراکت داریاں قائم کرنے کا بھی موقع مہیا کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رواں سال کے اجلاس میں حالیہ برسوں کے دوران شرکاء کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی گئی ، جو تمام فریقین کی معاشی عالمگیریت اور آزاد تجارت کو برقرار رکھنے کی خواہش اور چین کے ساتھ معاشی اور تجارتی تبادلوں اور تعاون کو بڑھانے کے لیے ان کے مثالی رویے کی عکاسی کرتا ہے۔

رواں سال کے اجلاس میں پانچ اہم شعبہ جات پر توجہ مرکوز کی گئی جن میں چین کا مستقبل، انسانیت اور کرہ ارض میں سرمایہ کاری، نئی توانائی اور مواد، بدلتی ہوئی صنعتیں، اور عالمی معیشت کی تعمیر ، وغیرہ شامل رہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہائیوں سے آزاد تجارت روزگار پیدا کرتی آئی ہے،صارفین کے لیے سستی مصنوعات لائی گئی ہیں ، عالمی فلاح و بہبود کو بہتر بنایا گیا ہے اور معاشی عالمگیریت کو آگے بڑھانے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا گیا ہے۔ لیکن اب اس رجحان کے راستے میں تجارتی رکاوٹوں اور تجارتی تقسیم میں واضح اضافے کا چیلنج درپیش ہے۔کورونا وبا کے اثرات سے بحالی کی جدوجہد کرتی عالمی معیشت اب جغرافیائی سیاسی تنازعات میں شدت اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے نمو کے سنگین مسئلے کا شکار ہے۔

عالمی بینک کے تازہ ترین "عالمی معاشی امکانات" جائزے میں 2025 کے لیے عالمی معاشی نمو کی پیش گوئی گھٹا کر 2.3 فیصد کر دی گئی ہے جو 2009 اور 2020 میں عالمی کساد بازاری کے دو سالوں کے علاوہ 2008 کے بعد سے سب سے کم شرح ہے۔

اس صورتحال میں مختلف نوعیت کی مخالف قوتوں اور معاشی امکانات کو دیکھتے ہوئے، نئی نمو کی قوتوں کو متحرک کرنے اور مضبوط شراکت داریاں استوار کرنے میں جدت اور کاروباری مہارت کے کردار کو بروئے کار لانا نہایت اہم ہے۔

دانشورانہ، سبز اور تخلیقی ٹیکنالوجیز پر مشتمل سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے نئی نمو کے شعبوں کو فروغ دینے اور انسانیت کے سامنے موجود چیلنجز سے نمٹنے کے نئے راستے کھول دیئے ہیں۔ سمر ڈیووس فورم کے دوران بھی 2025 کی ٹاپ 10 ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا اعلان کیا گیا جن میں کولبریٹو سینسنگ اور جنریٹو واٹر مارکنگ جیسی ٹیکنالوجیز شامل ہیں جو تین سے پانچ سال کے اندر حقیقی دنیا پر اثرات مرتب کریں گی اور عالمی چیلنجز کا حل بنیں گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ چین کثیرالجہتی نظام اور آزاد تجارت پر کاربند ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت اپنی جدید کاری کو آگے بڑھاتے ہوئے باہمی سودمند تعاون کے بے شمار مواقع فراہم کرتی رہے گی۔ نئی توانائی اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں اس کی تکنیکی پیشرفت اور اعلیٰ معیار کی کھلی پالیسی چینی معیشت کی متحرکیت اور لچک کو اجاگر کرتی ہے جو اب کھپت اور جدت طرازی سے چلنے والے نمو کے نمونے کی جانب گامزن ہے۔

آج ، باہمی مفاد کی شراکت داریاں اور قریبی تعاون عالمی معاشی نمو کے بحران سے نکلنے اور مشترکہ ترقی حاصل کرنے کا صحیح راستہ ہیں۔ایسے میں سمر ڈیووس فورم جیسے پلیٹ فارمز سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ خیالات کے گہرے تبادلے کے ذریعے، نئی شراکت داریوں کو جنم دیں گے، ترقیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جدید حل پیش کریں گے اور دنیا میں اشد ضروری استحکام اور یقینی صورتحال فراہم کریں گے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1550 Articles with 828289 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More