پوری دنیا پر نظرڈالئے ،ہرجگہ
کوئی نہ کوئی بحران پنپ رہا ہے ۔ عالم اسلام کا حال تو اور بھی برباد
ہے۔کہیں حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشیاں اور عیش کوشیاں رنگ لارہی ہیں تو
کہیں غیروں کی ریشہ دوانیوں سے ناطقہ بند ہے۔ تیونس سے یمن اور بحرین تک
شورشوں کے پس پشت اصل طاقتوں اور ان کے عزائم کو بے نقاب کرنے کے بجائے
ہمارے دانشور دوست اور صحافی خوشی کے نقارے بجا رہے ہیں اورازلی دشمنوں کے
’عوامی بیداری‘ (spring) کے نظریہ کے قصیدے گارہے ہیں۔ خدا انجام بخیر کرے
اور اس طوفان کے بطن سے کوئی شاہ فیصل شہید اورکوئی نجم الدین اربکان پیدا
کردے جو ملک کو پہچان، استحکام اور راست سمت سفرعطاکردے۔
جب پوری دنیا میں صورتحال یہ ہے توپاکستان کیسے اچھوتا رہ سکتا ہے؟وہاں ایک
ساتھ کئی بحران اس طرح اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ یہ طے کرنا محال ہے کہ پاکستان
میں بحران ہے یا بحران میں پاکستان ہے؟ لگتا ہے کہ نقشہ عالم پر یہ
نوزائیدہ ملک بیک وقت ان دونوں صورتوں سے دوچار ہے۔تاہم دل کی دھڑکن اس
خیال سے ٹھہراﺅ پاجاتی ہے کہ بحران اس کےلئے کوئی نئی بات نہیں۔بحرانوں سے
اس کاروز اول سے واسطہ رہا ہے ، یہاں تک کہ اس کا وجودبھی دولخت ہوگیا۔جو
پاکستان بچا ہے وہ بھی متحدہ نہیں، بلکہ درجنوں خانوں میں بٹا ہواہے۔ آپ گاﺅں
گاﺅں، قریہ قریہ گھوم جائے،’ پاکستانی‘ ڈھونڈے نہیںملے گا۔ کہیں پنچابی ملے
گا، کہیں سندھی، کہیں بلوچ، کہیںسرحدی توکہیں مہاجر۔کوئی کہتا ہے پنجابیوں
کا بول بالا ہے، کوئی کہتا ہے سندھیوں کے ہاتھوں میں کنجی تالا ہے۔ وڈیرے
آج بھی حاوی ہیں اور ’ہاری ‘(کاشتکار) خواری میں بھی شکر گزار ہیں۔ ان کا
دوقومی نظریہ اتنا ترقی کرگیا ہے کہ اپنے کلمہ گو بھائیوں میں کئی کئی
قومیںنظرآنے لگی ہیں۔ایک مسلک کا پیروکار دوسرے مسلک کی مسجد میں نماز ادا
نہیں کرسکتا۔ان خرافاتی بنیادوں پر رقابتیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ ایک کا
خون دوسرے کےلئے پانی ہو گیا ہے۔ جتنا چاہو بہاﺅ، کوئی پوچھنے والا نہیں ۔
اللہ کا احسان ہے کہ برسوں بعد اس بار ہفتہ عاشورہ میں یزید کی روح بیدار
نہیں ہوئی اور عزاداروں کی لاشوں کے پشتے نہیں لگے،جس پر وزیر اعظم نے قاتل
دستوں کا شکریہ ادا کیا ہے ۔اس اعتبار سے یہ انکا احسان ہی ہے کہ
’اسٹبلشمنٹ‘ ان پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر رہتاہے ۔ یہ رقابتیں اور شدّت پسندی
ہی پاکستان کی بنیادی کمزوری اور ہزار بحرانوں کا ایک بحران ہے۔ اگر یہ
رقابتیںختم ہوجائیں، پڑوسیوں کے ساتھ امن و چین سے رہنا آجائے، تو پھرپوری
دنیا بھی مل کراس کے سرکو جھکا نہیں سکے گی۔ سرحد کے اندر اور باہر رواداری
کی آبیاری پاکستان کی اولین ضرورت بن گئی ہے۔
بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ان کو پچھلے ساٹھ سال سے اپنے اتحاد کےلئے کوئی
مثبت بنیاد نہیںملی۔ ملی تو ایک منفی فکر۔جواپنے قریب ترین پڑوسی سے دشمنی
کی بنیادپر قائم ہے۔وہ پڑوسی جس کے ساتھ تاریخی اورثقافتی ہی نہیں، خون کا
رشتہ بھی ہے۔عقائد اور رسم رواج کی ہم آہنگی بھی ہے اور کھانے پینے، اوڑھنے
پہننے کے ذوق کی یک رنگی بھی۔لیکن اس کے ساتھ دشمنی اور نفرت کی آبیاری ایک
مقدس فریضہ بن گئی۔ اس سے ہزار سال تک جنگ لڑنے کے عہد وپیماں کئے
گئے۔دفاعی امور ہوں چاہے خارجہ پالیسی ہویا داخلہ پالیسی، ہندستان کا غم
ہرقدم پرساتھ رہا۔ پاکستانیوں کی تین نسلیں اسی جستجو میںپالے بدلتی رہیں
کہ کون ہندستان کودھول چٹاسکتا ہے۔قصور کچھ ہمارا بھی رہا۔کاغذ پر توتقسیم
کو تسلیم کرلیا مگر’اکھنڈ بھارت ‘ کا نعرہ لگایا جاتا رہا۔
بدقسمتی سے پڑوسی سے دشمنی نبھانے کےلئے ان کو دوست بھی ملا تو وہ جس سے
کوئی ہمسری نہیں۔سات سمندر پار کے ملک سے اس بے میل دوستی پر، گستاخی معاف
بندر اور مگر مچھ کی کہانی صادق آتی ہے۔ دریا کی سیر کرانے کے بہانے مگر
مچھ نے اس کو اپنی کمر پر لادتو لیا مگربیچ دھار میں لےجاکر غوطہ لگانے لگا۔
بندر نے شور مچایا تو ہنس کرکہہ دیامیاں تم جیو یا مرو، مجھے زندہ رہنے
کےلئے تمہارا کلیجہ درکار ہے۔ افغانستان میں زندہ رہنے کےلئے امریکا کو آج
پاکستان کو کلیجہ درکار ہے۔وہ چاہتا ہے کہ مدرسہ کے جس طالب علم کو،مسجد کے
جس ملا کو، اپنے وطن میں امریکا کی غیر قانونی ریشہ دوانیوں خلاف سرگرم جس
فرد کو وہ ’دہشت گرد‘ قراردیدے، اس کا سر قلم کرکے پاکستان اس کے قدموں
میںرکھدے۔ ایک مدّت تک یہ ہوتا بھی رہا، مگر امریکا کی پیاس بجھنے میں نہیں
آرہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اکتوبر میں پاکستان آئیںتو پریس
کانفرنس میں ایک خاتون صحافی نے بڑی دلچسپ تمثیل پیش کی اور کہا کہ پاکستان
کچھ بھی کرتا رہے، ساس کی طرح امریکا یہی کہتا رہتا ہے کہ کچھ نہیں کیا۔
موجودہ صورتحال میں ’گیلانی ، زرداری، کیانی ‘ اسٹبلشمنٹ نے جرات مندی کا
مظاہرہ ضرور کیا ہے اور ملک کے گمشدہ وقار کی بازیابی کےلئے کچھ سخت
اقدامات کرنے کا حوصلہ دکھایا ہے، مگر کب تک؟ کون کہہ سکتا ہے حتمی نتیجہ
کیا برآمد ہوگا؟ امریکی امداد پر انحصار پاکستان کی بڑی کمزوری ہے ۔اس
کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے 7000لاکھ ڈالر کی امداد منجمد کردی گئی
ہے۔اس دوران یہ اشارے ملنے لگے ہیں کہ پاکستان اب واپسی کے راستے پر ہے ۔
چنانچہ اعلا ترین سطح پر اعلان کیا گیا کہ کچھ معاملات طے ہوجانے پر ناٹو
سپلائی لائن کھولدی جائیگی اورخطے میں ناٹو کی سرگرمیوں کو مربوط کرنے
کےلئے قائم مراکز میں پاکستانی رابطہ کار کام پر لوٹ جائیں گے۔ ایک شاطربڑی
طاقت سے، جو پڑوس میں پنجے گڑائےبیٹھی ہے، زیادہ دن تک ان بن نہیں رکھی
جاسکتی ۔ عوام کا غم وغصہ ٹھنڈا ہوجائے تو رویہ بدل جائیگا۔ اگر لاہور میں
دو پاکستانیوں کے خون کے باوجود سی آئی اے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس خون بہا دیکر
رہائی پاسکتا ہے تو ناٹو کے حملے میں شہید 24فوجیوں کا خون ناحق کیوں معاف
نہیں کیا جاسکتا ؟ کچھ مدد ان کے ورثاءکو بھی مل جائیگی؟پاکستان کو راہ
راست پر لانے کے اس کے پاس دوسرے ہتھ کنڈے بھی ہیں۔ امریکا کی پشت پر
اسرائیل کا ہاتھ ہے اور ان دونوں کےلئے کہیں بھی کچھ بھی کرگزرنا بعید از
امکان نہیں ہے۔اسرائیلی ایجنٹ نجانے کتنے حریفوں کو موت کی نیند سلا چکے
ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے کارنامے بھی ڈھکے چھپے نہیں ۔ خفیہ
سازشوں کے ذریعہ درجنوں حکومتوں کا تختہ پلٹ کیا جا چکا ہے۔ کون کہہ سکتا
ہے کہ سعودی دیدہ ور شاہ فیصل ؒاور صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کا قتل
بیرونی سازشوں کا نتیجہ نہیں تھا؟صدام حسین اور ذوالفقار علی بھٹو کے
المناک انجام میں بڑی یکسانیت ہے۔ امریکا کی پشت پناہی نہ ہوتی تو بھٹو کو
پھانسی کیسے دی جاسکتی تھی؟
اب سوال یہ ہے کہ مکڑی کے اس جال سے نکلنے کی کیا صورت ہے؟اقتدار کے تین
مرکز تو پہلے ہی سے تھے، فوج، زرداری اور پارلیمنٹ۔ عدلیہ اب چوتھا مرکز
بنتا جا رہا ہے۔ میموگیٹ کا معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچنے کے بعد زرداری
صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ان پراور بھی کئی طرح کے دباﺅ ہیں۔ لگتا ہے اس
معاملہ میں بھی انگلی ان کی ہی اٹھ رہی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے اندرون ملک
کوئی شفاخانہ ان کےلئے محفوظ نہیں رہ گیا تھا، چنانچہ ان کو ’علاج‘ اور
آرام کےلئے دبئی رخصت کر دیا گیاہے ۔ بعید نہیں کہا ان کا یہ رخصتی مدت
صدارت ختم ہونے تک طویل ہوجائے ۔ سیاسی حکیموں نے شاید ان کے جملہ امراض کا
علاج یہی تجویز کیا ہے کہ وہ اسلام آباد سے دور رہیں۔ غنیمت یہ ہے کہ اس
نازک مرحلے پر حکومت کی باگ دوڑ ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کا رشتہ
صوفیاءکے سلسلے سے ہے چنانچہ وہ صلح کل کا طرفدار ہے۔جذباتی نہیں ہے بلکہ
دانائی کے ساتھ جراتمندی سے کام لینا جانتا ہے ۔ صوفی بزرگوں سے رشتہ کے
طفیل ہی ہمارے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی ان سے انسیت رکھتے ہیں۔اس
لئے اس طرف سے وہ یکسو ہیں۔ البتہ افغانستان میں اثر رسوخ کا معاملہ دیگر
ہے۔ پاکستان شاید سمجھتا ہے کہ افغانستان صوبہ سرحد کی طرح اس کا ہی ایک
شوریدہ سرصوبہ ہے۔ شہنشاہ جہانگیر کی قبر لاہور میں ہے اور بابر کی کابل
میں۔ پاکستان اس مغل رشتے سے کابل پر اپنا حق سمجھتا ہے حالانکہ خود اپنا
وجود سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ ٹھیک ہے پاکستان کے کچھ مفادات وہاں پر ہیں۔
مگر ہونا یہ چاہئے کہ اس کے اقتدار اعلا کا احترام کیا جائے۔جو بھی
برسراقتدار ہو، اس سے رشتے استوارکئے جائیں۔ لیکن اس کی داخلی سیاست میں
دخل دیکر یہ کوشش کی گئی کہ اقتدار اپنی پسند کے لوگوں کے ہاتھ میں
رہے۔نارتھ الائنس کی جگہ طالبان کو لایا گیا۔اسی اٹھا پٹخ سے بہت سارے
مسائل پیدا ہوگئے ۔
اس وقت سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ اپنے قومی وقاراور خود مختاری کی حفاظت کس
طرح کی جائے؟ اس کےلئے اس کو اپنے ان مسائل کا بوجھ کم کرنا ہوگا جو اس نے
خود پر مسلط کررکھے ہیں۔ امریکی امداد پر انحصار کم کرناہوگا۔ اور اپنے
وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ نواب اسمٰعیل میرٹھی ایک صدی پہلے کہہ گئے
ہیں:
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
وہ ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
افرادی قوت اور صلاحیت کی کمی نہیں۔ضرورت اس بات کی ہے ذہنی تنگی سے باہر
نکلا جائے۔ مسلکی اور علاقائی تعصبات پر قابو پایا جائے، جذباتی دشمنیوں
کودرکنار کرکے ہوشمندی سے کام لیا جائے اور ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جن
سے معیشت مضبوط ہو۔ سارک کے فریم ورک میں یہ مقاصد آسانی سے حاصل کئے
جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے یہی سمت سفر اختیار کی ہے ،اسی
میں پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے۔ زرداری تو ان کی مجبوری ہیں۔جن کو برطرف
کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ میموگیٹ میں وہ پھنستے جارہے ہیں۔ لیکن یہ
تبدیلی اگر پاکستان کی روایت کے مطابق فوج کی مداخلت سے ہوئی توملک پیچھے
چلا جائے گا۔ہر چند کہ جمہوری نظام میں فوج حکومت کے تابع ہوتی ہے لیکن
پاکستان میں صورتحال مختلف ہے۔ چنانچہ اسی ہفتہ جائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی
کے چیرمین جنرل خالد شمیم وانی سے ملاقات کے دوران وزیراعظم کو یہ یقین
دہانی کرانی پڑی کہ’ قوم مسلح افواج کے ساتھ‘ ہے۔کاش ہم جنرل وانی سے یہ
سنتے ’فوج قوم کے ساتھ ہے‘۔دوسرے ہی د ن وزیراعظم نے قائم مقام صدرفاروق
نائک سے ملاقات کے دوران اس یقین کا اظہار کیا پاکستان کی جمہوریت میں اتنی
سمجھ اور جان ہے کہ ان طاقتوں کا مقابلہ کرلے جو جمہوریت پر یقین نہیں
رکھتے اور (اقتدار حاصل کرنے کےلئے)چور دروازوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔خداکرے
ان کا یہ بھروسہ وقت کی کسوٹی پر کھرا اترے۔ اچھا ہوگا کہ وہ وقتا فوقتا
استنبول ہوآیاکریں اور دیکھیں کس طرح ترکی کی جمہوری حکومت نے اقتدارکے
مختلف مراکز کو اپنی مٹھی میں کرلیا ہے۔اس کا ایک نکتہ یہ ہے اپنی اقتصادی
حالت کو صنعت اور تجارت کے فروغ کے ذریعہ مضبوط کیا جائے۔ سافٹا، سارک اور
ایم ایف این اسی سبق کے مختلف عنوان ہیں۔(ختم )
مضمون نگار فورم آف سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں
|