بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے؟

آج کے پاکستان اخبارات میں شیخ الاسلام طاہر القادری کو شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے بیچ میں براجمان دکھایا گیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی نیا اتحاد ان دونوں جماعتوں میں جنم لے رہا ہے - تحریک انصاف بھی بر سر اقتدار آنے کیلئے سارے حیلے حوالے استعمال کر رہا ہے اب انکو پاکستانی سیاست کی سمجھ اگئی ہے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کا گٹھ جوڑ بھی ایسا ہے کہ چند دن پہلے تک تو عمران خان قادری صاحب کو برا بھلا کہہ رہے تھے اور اب اتحاد ہوگیا - وہ جو کہتے ہیں جنگ اور محبت میں سب جائز ہے- اسطرح الیکشن جیتنے کے لئے سب جائز ہے -

قادری صاحب کے دھرنے کے بعد دشمنوں نے اڑائی اور خوب اڑا ئی کہ شیخ الاسلام میدان سیاست سے پسپا ہو کر واپس عازم کینیڈا ہوگئے ہیں ہوسکتا ہے وہ تازہ دم ہونے کیلئے دوبیئ کا چکر کاٹنے گئے ہوں-آخر اتنی گرما گرمی کے بعد کچھ آرام بھی ضروری تھا - بمشکل دو ماہ ہوئے ہیں مولانا طاہرالقادری اچانک اپنے گوشہ عافیت سے نکل کر پاکستان پہنچے اور تقریبا ایک ماہ پاکستان کی سیاست میں زبردست ہلچل مچا دی بلکہ ایک بھونچال لے آئے اخبار نویسوں کالم نویسوں کو وافر مقدار میں مواد فراہم کردیا کالم کے کالم صفحے کے صفحے سیاہ ہوئے گرما گرم چٹ پٹی خبریں ایک زندگی کی لہر دوڑادی-  انکی واپسی سے ایک چہل پہل سی آگئی-

شیخ الاسلام کو جب پہلی مرتبہ جمعے کی نماز میں اپنے عقیدتمندوں کے جھرمٹ میں اسلامک سنٹر آف کینیڈا مسی ساگا (اثناء مسجد) میں دیکھا تو مجھے کچھ جانے پہچانے لگے وہاں مردوں اور عورتوں م کے مصلے کے بیچ میں ایک چھوٹی سی شیشے کی دیوار ہے- پھر معلوم ہوا کہ یہ تو طاہرالقادری ہیں وہ ایک گروپ کی صورت میں داخل ہوتے اور پیچھے کی صفوں میں انکے مرید یا عقیدتمند انکے لئے کرسی رکھتے اور کرسی کے اوپر ایک کشن، وہ اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ نماز پڑھ کر خاموشی سے روانہ ہوجاتے انکی اس مسجد میں کبھی بھی کوئی خاص اہمیت محسوس نہیں کی گئی نہ ہی انہوں نے اس مسجد میں کبھی کوئی پروگرام یا کوئی سرگرمی دکھائی - خاموشی سے آتے اور خاموشی سے چلے جاتے- یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کیونکہ اس مسجد میں آئے دن گونا گوں مقررین آتے ہیں اور اپنی جوہر خطابت دکھاتے ہیںاور یہ مسجد مسلم نوجوانوں میں کافی مقبول ہے- طاہرالقادری صاحب کی وہاں اپنی ایک مسجد بھی ہے جسمیں میرا کبھی جانا نہیں ہوا اسلئے اسکے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتی- لیکن سوائے اسکے کہ سی این این پر انکا دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کے خلاف کچھ بیانات آئے تھے بلکہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف فتوہ دیا تھا اور کرسچین امان پور نے انکا انٹرویو لیا تھا جسکی سی این این اور دیگر نشریاتی اداروں سے کافی تشہیر ہوئی تھی- لیکن صد افسوس کہ وہ ملالہ یوسف زئی کے مقام تک پہنچنے میں بہر حال ناکام رہے--میری نظر میں تو یہ کافی ایک مثبت قدم تھا جبکہ بیشتر علماء اس سلسلے میں خاموش ہیں- اسکے علاوہ انہوں نے یہ تقریبا 7 سال بڑی خاموشی سے گزارے بیشتر اخباری اطلاعات کے مطا بق وہ اپنی کچھ تصنیفات میں مصروف تھے - میڈیا سے لاتعلق تھے انکی کینیڈا آمد بھی کہا جاتا ہے کہ سیاسی پناہگزینی ہے - انکو یہ حیثیت اسوقت حاصل ہوئی جب انہوں نے ڈنمارک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہانت آمیز کارٹون بنانے والے کارٹونسٹ سے ملاقات کی اور اسپر انہیں جان کا خطرہ ہوا اب یہ ملاقات انہوں نے اسے دعوت اسلام دینے کے لئے کی ، متنبہ کرنے کیلئے کی یا سمجھانے کی لئے کی یہ تو وہی یا اللہ کی ذات ہی بہتر جان سکتی ہے-لیکن قادری صاحب نے یہ پناہگزینی کی درخواست میں لکھا کہ میری جان کو لشکر طیبہ ، تحریک طالبان ، لشکر جھنگوی ، سپاہ صحابہ سے سخت خطرہ ہے اسلئے مجھے پناہ دی جائے- اس پر یہ پابندی ضرورلگ جاتی ہے کہ آپ اس ملک میں واپس نہیں جاسکتے جہاں آپکی جان کو خطرہ ہے - کینیڈا میں پناہگزینی کا مطلب یہ ہے کہ سارے مصارف حکومت کینیڈا کے ذمہ ہوتے ہیںہ کینیڈا کی حکومت کی طرف سے ان پر پابندی تھی کہ وہ اس ملک نہیں جائینگے جہاں انکی جان کو خطرہ ہے-

واللہ اعلم انکا معاملہ کیا تھا لیکن کینیڈا میں ہمارے ملک کے ایسے کھاتے پیتے خوشحال گھرانوں کے افراد موجود ہیں جو گوشت تو حلال ذبیحہ کھایئنگے لیکں اپنے آپ کو غریب ، مفلس اور ضرورت مند دکھا کر یہاں کے ویلفیر سسٹم سے مفت تمام مراعات ، گھر، وظائف اور خوراک حاصل کرینگے تف ہے ان پر کہ اس حرام اور نارروا کووہ کیسے جایز سمجھتے ہیں- انہی کے اور دیگر اسلامی ممالک کے کارناموں کی وجہ سے کینیڈا میں مسلمانوں کے 60٪ غربت کے گروپ میں آجاتے ہیں- ایک مرتبہ میں اسلام آباد سے ٹورنٹو جارہی تھی میری ہمسفر ایک با پردہ خاتون تھیں بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ شوہر اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اسلام آباد میں ذاتی مکان ہے لیکن وہاں جیرارڈ سٹریٹ پر سرکاری مکان میں رہتی ہیں اور کیش پر کام کرتی ہیں یعنی وہاں کے ویلفئر سسٹم سے پوری طرح مستفید ہیں- دونوں ماں بیٹی زیورات سے لدی ہوئی تھین اب کسٹم نے انکا کیا حشر کیا یہ تو میں نہیں دیکھ پائی- ایسے لوگوں کا ضمیر نہ جانے کہاں گھومنے پھرنے چلا جاتا ہے اس ہیرا پھیری میں انہیں اللہ ، رسول کے احکامات محض دوسروں کو بتانے کیلئے یاد رہتے ہیں-

قادری صاحب ایک اعلے تعلیم یافتہ شخص ہیں انکے پاس اسلامی قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے-بطور پروفیسر پڑھا چکے ہین کچھ عرصہ انہوں نے تدریسی فرائض بھی انجام دئے - ایک زمانے میں کراچی کی مسجد رحمانیہ میں درس دیا کرتے تھے اب یہ میں نہیں جانتی کہ کیا کراچی میں انکی قیام گاہ تھی یا لاہور سے آتے جاتے تھے - انتہائی فعال شخصیت ہے انکا ایک پاؤں آسٹریلیا میں دوسرا بھارت میں تیسرا ڈنمارک میں توبہ توبہ دو ہی تو پیر ہیں- ویٹیکن گئے پوپ جان پال کے ساتھ انکی تصاویر ہیں جہاں وہ انتہائی تعظیم میں گھٹنے ٹیک کر بیٹھے ہیں- اب وہ انڈیا گئے تو خاص طور پر گجرات مودی سے ملے وہ اپنے ساتھ ایک گورے کینیڈئین سیکورٹی گارڈ کوبھی لیکر گئے تھے جو تصایر میں انکی حفاظت پر مامور ہے- اسی طرح گجرات کی پولیس بھی ا نکی حفاظت پر مامور تھی - طاہر القادری نے نریندر مودی کا بطور خاص شکریہ ادا کیا جبکہ مودی نے انکو امن کا سفیر اور پیامبر کہا- نریندر سنگھ مودیجو گجرات کے مسلما نوں کے قتل عام کا ذمہ دار ہے - انکے اس دورے کو وہاں کے مسلمانوں ا ور انڈیا کے بریلوی مکتبہ فکر نے سخت ناپسند کیا اسلئے انکو انہیں طاہر الپادری کا خطاب دیا-

ایک زمانے میں نواز شریف اور انکے گھرانے کے منظور نظر تھے بلکہ انکے عروج میں شریف خاندان کا انتہائی عمل دخل ہے-- سنا ہے نواز شریف اپنے کندھوں پر بٹھا کر غار حرا لے کر گئے تھے کیا عقیدت اور کیا سواری - عقیدت تو یہ بھی دیکھی کہ قادری صاحب تشریف فرما ہیں لوگ دھمال ڈالتے ڈالتے آکر انکے پاؤں پر سجدہ کرتے ہیں -پھر وہ اسی سجدہ ریز کو اٹھا کر گلے لگاتے ہیں وہ فرط جذبات سے روتا ہوا ہٹا دیا جاتا ہےتو اگلے کو آنے کا اشار کرتے ہیں اب یہ اسلام کی کونسی صورت اور کونسی خدمت ہے اس شرک عظیم کے کرنیوالے کو کیسے بخش دیا گیا جبکہ بوسیدہ قرآن جلانیوالوں کی جانیں چلی جاتی ہیں- تحریک منہاج القرآن نے کیا اس شرک کو اپنے عقیدے کا حصہ بنا ڈالا تھا- لیکں قادری صاحب کی پشت پناہی یقینا ہے اب وہ کس کے ایما پر پاکستان گئے اتنا بڑا جلسہ یادگار پاکستان پر منعقد کیا اور پھر اتنی سخت سردی مین یہ لانگ مارچ- عطاءالحق قاسمی کو شرکاء کیلئے ڈائپرز کی فکر ہورہی تھی لگتا ہے قاسمی صاحب ابھی تک ناروے سے واپس نہیں آئے یا پھر انکو پنجاب اور پاکستان کے دیہی علاقؤن کے عوام کا رفع حاجت کرنا یاد نہیں رہا - ڈی چوک کے اطراف تو اس دھرنے کے بعد لہلا اٹھینگے رہے قادری صاحب انکے لئے تسلی بخش انتظام تھا لیکن ڈبہ بند ہونا بھی آسان کام نہٰیں ہے کوئی دوسرا لیڈر ایک دن بھی اس ڈبے میں بند ہوکر دکھائے-

اب قادری صاحب نے کیا حاصل کیا اور کیا نہیں کرسکے پاکستان میں یہ کیا کم ہے کہ کم از کم اس دھرنے کا انجام بخیر ہوا نہ ہی کوئی بم پھٹا نہ خون ریزی ہوئی او ر پاکستان میں ایک پر امن جلسہ اور دھرنا کرنا کیا کم کامیابی ہے وہ بھی ایسا جسمیں کسی جانی نقصان کی خبر نہیں ائی ورنہ پاکستان میں انسانی زندگی یا انسانی خون پانی سے سستا ہے بینظیر کے ایک مارچ میں ڈیڑھ سو لوگوں کے چیتھڑے اڑ گئے جبکہ دوسرے میں انہوں نے اپنی جان ہاردی- قادری صاحب نے اپنے آپ کو منوا تو لیا ہے اب دیکھئے پاکستانی سیاست انکی دوہری شہریت کو مانتی ہے کہ نہیں - جنرل پرویز مشرف نے بھی خوب سراہا- اب جر نیل صاحب کی آمد آمد کی خبریں بھی گرم ہیں وہ بھی آخر دوبارہ ان ہو ہی گئے- جو قادری صاحب اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ انکا جی ایھ کیو یا چیف آف آرمی سٹاف سے کوئی تعلق ہے - وہ اپنے آپکو پاکستانی عوام کا نمائیند ہ قرار دیتے ہیں- اب یہ تحریک انصاف سے الحاق کیا رنگ لاتا ہے جو بھی ہو اللہ تعالی پاکستان کی خیر کرے-
رب راکھاں پاکستان نو
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 254536 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More