’قدم بڑھاؤ پرویز مشرف ہم تمہارے ساتھ ہیں’ کا نعرہ سن کر وطن لوٹنے والے سابق فوجی
صدر پرویز مشرف نے شاید کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ کچھ ایسا سلوک ہو
سکتا ہے جس کا اب انہیں سامنا ہیکل تک پرویز مشرف کا طوطی بولتا تھا اور ان کی زبان
سے نکلا ہوا ہر لفظ فرمان تصور ہوتا تھا لیکن آج وہ ان ہی سپاہیوں کے ہاتھوں قید
ہوئے ہیں جو انہیں سلیوٹ کیا کرتے تھے۔تاحال جنرل (ر) پرویز مشرف کے حق میں کہیں سے
کوئی صدا نہیں آئی ماسوائے ان کے چند گنتی کے ایسے ساتھیوں کے جن کی پاکستان کے
سیاسی مارکیٹ میں کوئی بڑی حیثیت نہیں ہے۔ ماضی میں ان کے اتحادی مسلم لیگ (ق) یا
ملک بھر کے وہ سردار، وڈیرے، خان اور چوہدری جو دور اقتدار میں انہیں مہنگے تحفے
پیش کیا کرتے تھے، اب ان سے نظریں چرا رہے ہیں ایسے لوگوں کی بہت طویل فہرست ہوگی
اور پرویز مشرف شاید انہیں یاد کرکے دوران قید سگار کا لمبا کش لگاتے ہوئے ضرور
سوچتے ہوں گے کہ ’دنیا مطلب دی او یار ‘پاکستان کے سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف جب
سے وطن واپس آئے ہیں وہ طرح طرح کے مسائل سے دو چار ہیں اور ان کی مشکلات میں آئے
دن اضافہ ہو رہا ہے وطن واپسی کے چند روز بعد ہی ایک عدالتی کارروائی کے بعد کورٹ
کے احاطے میں ان پر جوتا پھینکا گیا جس میں وہ بال بال بچ گئے اسلام آبادمیں وکلاء
نے ان کی اتنی عزت افزائی کہ خدا کی پناہ ان کو ایسے ایسے القاب دیے کہ سننے والوں
نے سنا اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ماضی کا طاقتور ترین انسان خدا سے دل ہی دل
میں عزت بچانے کی دعا ضرور مانگ رہا تھا گردن جھکی ہوئی تھی اور چہرا لال سرخ ہو
رہا تھا وہ ماضی میں جس کہ ایک اشارے پر دنیا ادھر سے ادھر ہو جاتی تھی ایک بے بس
قیدی بنا ہوا تھا
سپریم کورٹ نے بھی سماعت کا آغاز کیا کہ ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے یا نہیں
انتخابی کمیشن کے ایک ٹریبونل نے بھی بالآخر یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ وہ عام
انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں یعنی وہ اس کے لیے امیدوار نہیں ہوسکتے بحر حال
ابھی وہ اس جھٹکے سے نمٹ بھی نہ پائے تھے کہ اسلام آباد کی ایک عدالت نے ان کی
ضمانت کی درخواست مسترد کر دی اور جمعہ کو ان کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی تو کیا
وطن واپسی پر اس طرح کے مسائل کا سامنا ہوگا اس کے بارے میں پرویز مشرف نے بھی ان
سب چیزوں کا اندازہ کیا ہوگا؟یہ بس ایک قیاس ہے جس کا جواب ان کے علاوہ کوئی دوسرا
نہیں دے سکتا لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ جنرل مشرف نے وطن واپسی پر درپیش قانونی
چیلنجز اور اپنے گرفتار ہونے کے خدشات پر ضرور غور وخوض نہ کیا ہوان کی ضمانت کی
درخواست مسترد ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد ان کے وکیل نے کہا کہ سابق صدر مطمئن اور
پرسکون ہیں وکیل کے مطابق ’وہ اپنی رہائش گاہ پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ کافی اور
سگار کا مزہ لے رہے ہیں لیکن موجودہ نگران حکومت ان تمام سرگرمیوں سے ضرور پریشان
ہوگی کیونکہ اس کا کام انتخابات کرانا ہے جو پہلے ہی سے تمام طرح کی ذمہ داریوں سے
گھری ہوئی ہے اور یہ مسئلہ اس کے لیے ایک اور مصیبت لے کر آگیا ہے ملک بھر میں
سیکولر سیاسی رہنماؤں پر ہو رہے شدت پسندوں کے حملے پہلے سے ہی اس حکومت کی
منصافانہ انتخابات کرانے کی راہ میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں جنرل مشرف کی گرفتاری
کسی سابق فوجی جنرل کی گرفتاری کا پہلا واقعہ ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی پر
غداری کا مقدمہ چلانا حکومت کا دائرہ اختیار ہے اور عدالتیں بذات خود ایسا نہیں
کرتی اگر حکومت اس امر پر زور دیتی ہے تو فوج بھی خطرہ محسوس کریگی کیونکہ اس طرح
کے مقدمے میں بات صرف مشرف پر ہی نہیں ختم ہوتی بلکہ اس کے دائرے میں دیگر فوجی
افسر اور حکام بھی آسکتے ہیں گزشتہ دو برس کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں
عدالتیں کچھ زیادہ ہی سرگرم رہی ہیں تو اس تناظر میں فوج بھی عدلیہ سے خطرہ محسوس
کر سکتی ہے ممکن ہے جنرل پرویز مشرف خود ابھی بڑے پرسکون انداز میں کافی کا لطف
اٹھا رہے ہوں لیکن انہوں نے وطن واپس آ کر سب کے لیے مسائل کھڑے کر دیے ہیں تو اب
سوال یہ اٹھتا ہے کہ پرویز مشرف کس کی یقین دہانیوں کے بل بوتے وطن واپس آئے کیا
سعودی عرب نے انہیں یقین دلایا جو ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کے درمیان تنازعے کے
پر امن حل کے لیے بات کیا کرتا رہا ہے؟یا امریکہ اس بارے میں بہت سی قیاس ارائیاں
ہو رہی ہیں لیکن کو ایسی گھتی ابھی تک کسی کے ہاتھ نہیں لگ سکی جس سے پتا چلے کہ
گارنٹی کس کی تھی اور معاہدہ کب ہوا پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مشورہ
اور سب سے زیادہ زور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے دیا تھا جنہیں جنرل مشرف نے سنہ
1999 میں فوجی بغاوت کے بعد معزول کر دیا تھا اور زبردستی سعودی عرب بھیج دیا
تھالیکن مشرف کی واپسی کے بعد سے نواز شریف اس معاملے پر بالکل خاموش ہیں جس سے
ایسا لگتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے جمہوریت کے مستبقل کے لیے پاکستان
میں یہ بڑا نازک وقت ہے کیونکہ الیکشن سر پر ہیں اور اوپر سے یہ ہائی پروفائل کیس
نگران حکومت کو تو وختہ پڑا ہوا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف
کے خلاف کارروائی سے جہاں پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو تقویت ملے گی وہاں
جمہوریت بھی مستحکم ہوگی وہیں لیکن بعض قوتیں اس خدشے کا اظہار کرتی ہیں کہ پرویز
مشرف کی گرفتاری اور ان پر غداری کا مقدمہ چلنے اور انہیں سزا ملنے کی صورت میں
جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے یہ خدشہ اپنی جگہ لیکن اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو
جس طرح پاکستان میں عدلیہ، میڈیا، سیاستدان اور مذہبی رہنما اب کی بار جمہوری عمل
کے تسلسل پر متفق اور سرگرم نظر آتے ہیں ایسے میں جمہوریت پر شب خون یا اس کو
سپوتاژ کرنے کا امکان نظر نہیں آ رہا اگر جنرل پرویز مشرف کو آئین کی پامالی پر سزا
ملتی ہے تو پھر شاید پاکستان میں ہمیشہ کے لیے آمریت کے اقتدار پر قبضے کا راستہ
روکا جاسکے۔ |