یوم تکبیر، جب بھارتی غرور بھک سے اُڑ گیا

سولہ سال قبل بی جے پی نے اپنے عوام کو پاکستان دشمنی کا یقین دلانے کے لیے ایٹمی دھماکے کئے۔ جواب میں پاکستان نے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں حساب چکتا کردیا۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ آج وہی پارٹیاں پھر پاکستان اور بھارت میں برسراقتدار آچکی ہیں۔ نواز شریف نے تو ایک سال قبل وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا واجپائی کے جانشین نریندر مودی نے گزشتہ روز اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ نوازشریف اس تقریب میں شریک تھے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ۔تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کے ساتھ جتنی مرضی دوستی کی پینگیں بڑھا لیں، پاکستان کے خلاف بغض اور دشمنی کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ نریندر مودی کو زیادہ تر ووٹ بھی بغضِ پاکستان کی بدولت ملے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا․․․․!!

بھارت کے سارے ایٹمی سفر کی داستان، دفاع کی بجائے ’’ووٹ‘‘ سے جڑی ہوئی ہے۔ کانگریس نے پاکستان مخالف ووٹ بنک کو حاصل کرنے کے لیے یہ حربہ شروع کیاتھا، لیکن بی جے پی نے ایٹمی دھماکے کرکے اسے کیش کروا لیا۔ بھارت کے ایٹمی سفر کا آغاز تو بہت پرانا ہے۔ تاہم 1974ء میں غیر اعلانیہ دھماکوں کے بعد پاکستان نے بھی خطے میں طاقت کا توازن رکھنے کے لیے اس ضمن میں کوششیں شروع کردیں اور بھارت کو بھی پاکستان کی ’’خاموش‘‘ ایٹمی طاقت کا معلوم ہوچکاتھا۔ 1995ء میں بھارت میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اورنرسیما راؤوزیر اعظم تھے۔بھارتی جنتا پارٹی کی اسلام اور پاکستان دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے بعد بھارت میں اس کی مقبولیت کا گراف بہت بڑھ چکا تھا۔ بی جے پی کے انتہاء پسندوں نے جب بابری مسجد پر حملہ کرکے اسے شہید کردیا تو کانگریس کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہوگئے۔ اس کے نبض شناسوں نے کانگریس کے کرتا دھرتاؤ ں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے بھی اس طرح کے اقدامات نہ اٹھائے تو بھارتی قوم پرست جو اسلام، مسلمان اور پاکستان دشمنی پر ہی جیتے مرتے ہیں ، ان کا ووٹ بینک ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ اس طرح ان کی پارٹی کو حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ بھارت میں آج تک اس پارٹی کے سر پر تاج نہیں سجا جس نے پاکستان اور مسلمانوں سے دشمنی کے عہدوپیمان نہ کئے ہوں۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ ان دھماکوں کے بعد عالمی برادری ان پر پابندیاں بھی عائد کرسکتی ہے اور اس طرح بھارتی بھوکے ننگے عوام کی بدحالی آسمان کو چھو سکتی ہے مگر پاکستان دشمنی کے سامنے انہیں ہر بات ہیچ نظر آرہی تھی۔ پہلے انہوں نے مشرقی پاکستان میں اپنی سازشوں کے جال بن کر اپنی پاکستان سے نفرت کی بھڑاس نکا لی تھی اس بار وہ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستانی قوم کو ہمیشہ کے لئے اپنے تابع فرمان بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ حکمرانی کا تاج اور دشمن کو زیر کرنے کیلئے دھماکہ کوئی مہنگا سودا نہیں تھا۔

دھماکے کی تیاریاں کی جائیں، نرسیماراؤ نے ایٹمی ادارے کے سربراہ کو بلا کر حکم صادر کردیا۔ حکم ملنے کی دیر تھی صحرائے تھر کے علاقے پوکھران میں پاکستان بارڈر کے قریب گویا میلاسا سج گیا۔وہاں ٹرکوں کے ٹرک سامان اتارا جانے لگا۔ زمین کی کھدائی شروع ہوگئی۔ کنکریٹ بنانے کے سامان کے ڈھیر لگ گئے۔ پھرموٹی موٹی تاریں بچھائی جانے لگیں اور نرسیما راؤ رات کو کروٹین بدل بدل کر ’’او۔کے‘‘ کی کال کا انتظار کرنے لگا۔ اسی دوران ایک امریکی جاسوس سیارہ وہاں سے گزرا تو اس نے ان تمام خفیہ سرگرمیوں کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں بند کرلیا۔ جب یہ تصویریں وائٹ ہاؤس پہنچیں تو امریکی حکام کو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے فوری طور پراپنے ایک سفیر کو معاملے کی جانچ پھٹک کے لئے بھیجا۔ اس نے جب بھارتی عزائم کی تصدیق کی تو کلنٹن کی نیندیں اڑ گئیں۔ امریکہ نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے نرسیما راؤ کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا کہا۔ انہیں مفادات اور مراعات کی پوٹلی دکھائی گئی۔ بھارتی حکومت کو شاید کوئی مفاد یاد آگیا ہوگا اس لئے انہوں نے امریکہ کی بات مان لی۔ دوسری طرف بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) جس نے صرف اسلام اور پاکستان دشمنی کے بل بوتے پر اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کیا تھا، اپنے منشور میں یہ بات شامل کرچکی تھی کہ اگر بھارتی عوام نے اس کے سرپر حکمرانی کا تاج سجایا تو وہ ایٹمی دھماکے کرکے اپنی کامیابی کا جشن منائے گی۔ اس طرح وہ بھارتی جنونیوں کے انتہاء پسند جذبات کو ہوا دے کر آخر کار ہندوستان کی حکمرانی کاتاج پہننے میں کامیاب ہوگئی۔

دوسری طرف کانگریس جس نے بھی پاکستان دشمنی کو بام عروج تک پہنچایا تھا اور چانکیہ کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کو دولخت کیا تھا اس بار میدان میں اس لئے شکست کھا گئی کہ بی جے پی کے پاس پاکستان اور اسلام دشمنی کا شاید اس سے بھی بڑا پیکج موجود تھا۔ 1996ء میں اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھتے ہی ایٹمی دھماکے کرنے کے احکامات دے دیئے۔ بھارتی سائنسدان تیار تھے مگر پھر بھی انہوں نے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا۔ واجپائی تڑپ اٹھے۔ غصے سے اس کے چہرے کی سلوٹیں اور بھی نمایاں ہوگئی تھیں۔ اس نے اپنا مخصوص تہہ بند سمیٹتے ہوئے حکم دیا: جاؤ اور مکمل تیاری کی فوری اطلاع کرو۔ پوکھران میں پھر نقل وحمل شروع ہوگئی۔ مگر دوسری طرف بھارت کے سیاسی منظر نامے پر بھی ہلچل مچ گئی۔ اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تو بن گئے تھے مگر ان کی اقتدار کی کرسی کو دوسری پارٹیوں نے سہارا دے رکھا تھا۔ یہ سہارا کمزور ثابت ہوا اور اس سے قبل کہ بھارتی سیاستدان اور ایٹمی ادارے انہیں ’او۔ کے‘ رپورٹ دیتے ان کی وزارت عظمیٰ کا بوریا بسترگول ہوگیا۔

دو سال بعد واجپائی پھر بھارتی وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے برسراقتدار آتے ہی ایٹمی دھماکوں کی فائل نکلوا لی۔ اس بار بھی ان کی مخلوط حکومت تھی مگر پاکستان اور اسلام دشمنی میں چونکہ تمام ہندو پارٹیاں ایک ہیں، اس لئے انہیں اس معاملے میں اعتماد کا ووٹ لینے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ دوسری طرف پاکستان کو، جو متعدد مرتبہ امریکہ اور دنیا کی دوسری طاقتوں کو بھارتی ایٹمی اور توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ کرچکا تھا اور اس سلسلے میں ان کے کردار کا منتظر تھا، اس وقت شدید دھچکا لگا جب پاکستان کے خدشات کو سنجیدہ نہ لیا گیا۔ کلنٹن انتظامیہ نے تو پاکستان کے خط کو محض پراپیگنڈہ قراردیتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور پاکستان کے تمام تحفظات کو وہم سمجھ کر جھٹک دیا۔ واشنگٹن اور برطانیہ نے واجپائی کی موشگافیوں کومحض سیاسی سٹنٹ خیال کیا تھا مگر اس وقت ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب 11مئی کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کردیئے۔ اس وقت انہیں پاکستان کی طرف سے خبرداری کے خطوط کی سچائی کا اندازہ ہوا۔ مگر اب دیر ہوچکی تھی۔ مگر افسوس اس صورتحال میں انہوں نے بھارت کو دباؤ میں لانے اوراسے اقتصادی اور سفارتی پابندیوں میں جکڑنے کی بجائے اپنا سارا زور پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں کو روکنے کیلئے لگا دیا۔پاکستان جو بھارتی سازشوں، کشمیر پر اس کے غاصبانہ قبضے اور سانحہ مشرقی پاکستان کے زخم کھانے کے بعد اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کم از کم دفاعی صلاحیت کی پالیسی پر گامزن تھا، ایک نئی صورتحال سے دوچار ہوگیا۔ ملک کے اندر اور بھارت جوابی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کی ایک اعصاب شکن بحث چھڑ گئی۔ پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض بہت سی عالمی قوتوں نے مال ودولت کی پیش کش کی تو بہت سے نام نہاد لبرل ’’پاکستانیوں‘‘ نے اس موقع پر صبرو تحمل کا درس دیا۔ گو کہ پاکستان اس وقت بھی ایٹمی قوت تھا مگر جس طرح بھارت نے اپنی ایٹمی قوت کا اظہار کیا تھا اور اس کی قیادت کی جانب سے پاکستان کو (خاکم بدہن) صفحہ ہستی سے مٹانے کی موشگافیاں کی جارہی تھیں، ان حالات کا تقاضا تھا کہ پاکستان بھی بھرپور جوابی دھماکے کرے، دوسری صورت میں اسے چند سال بعد ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ‘‘ کے اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑتا۔ شکر ہے اس وقت کی قیادت جرم ضعیفی کی مرتکب نہیں ہوئی اور اس نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے جوابی ایٹمی دھماکے کرکے بھارتی زعم اور دھمکیوں کے غبارے سے ہوا نکال کے رکھ دی۔اس طرح پندرہ سال قبل ہم نے بھارتی ایٹمی عزائم کے خلاف نعرہ تکبیر بلند کرکے وطن کے استحکام کو دوام بخشا تھا مگر اس کے بعد سے دشمن دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں ہماری سالمیت اور وقار کو ہر روز روندھ رہا ہے۔

آج یوم تکبیر کا تقاضا ہے کہ ہم تمام اندرونی او ربیرونی سازشوں کے سامنے یکجا ہوجائیں۔ آپس کی لڑائیاں اور رنجشیں بھلا کر اپنی آزادی کا دفاع کریں۔ ہم نے ایٹمی دھماکے کرکے خطے میں تو توازن قائم کرلیا، لیکن ہماری آپس کی لڑائی اب بھی ہمیں عدم توازن سے دوچار کئے ہوئے ہے۔ وزیراعظم کا نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت مثبت عمل ہے تاہم بھارتی ہتھکنڈوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بھارت سے دوستی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب وہ کشمیر، سیاچن، پانی اور دیگر تصفیہ طلب معاملات کے حل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69467 views Columnist/Journalist.. View More