میڈیا فرینڈلی اپوزیشن نہیں بن سکتا

فوزیہ وہاب نے ہلیری کلنٹن سے کہا کہ آپ نے ہمارے اینکرز کو اوقات میں رکھا۔ ان کی ’’بولتی بند کر دی‘‘ یہ ہمارا محاورہ ہے۔ اگر ہلیری کو اردو یا پنجابی آتی ہوتی تو وہ انجوائے کرتی۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے فوزیہ کی یہ بات پسند نہیں کی ہوگی۔ اینکرز سے کوئی تکلیف فوزیہ کو ہے تو یہ معاملہ آپس میں طے کرنا چاہئے۔ گھر کے میلے کپڑے باہر سڑک پر دھونا بلکہ غیروں کے آگے دھونا بلکہ رونا دھونا کوئی اچھی بات نہیں۔ فوزیہ کی باتیں دھڑلے کی ہوتی ہیں مگر یہ بات صدر زرداری حکومت کا دھڑن تختہ بھی کر سکتی ہے۔ قمرالزمان کائرہ بھی زوردار طریقے سے بولتے ہیں۔ فوزیہ سیکرٹری اطلاعات ہے اور کائرہ صاحب وزیر اطلاعات ہیں۔ پہلے دونوں عہدے شیری رحمن کے پاس تھے۔ ٹو ان ون، اسے نکال دیا گیا۔ باہر کے لوگ کہتے ہیں کہ اسے میڈیا کے معاملات میں خواہ مخواہ مداخلت پر اعتراض کی وجہ سے نکالا گیا۔ اندر کے لوگ کہتے ہیں کہ بات کچھ اور ہے۔ جو بات بھی ہے میں بتا دوں تو رضا ربانی کے خفا ہونے کا خطرہ ہے۔ اپنے اینکرز کے ساتھ بہت غصے سے فوزیہ کوئی بھی بات کر لیتی مگر ہلیری سے کچھ نہ کہتی۔ کیونکہ اینکر نے ڈٹ کر ہلیری کے ساتھ بات کی۔ حکمرانوں نے جرنیلوں، ججوں اور جرنلسٹوں کی شکایتیں امریکہ سے لگانا شروع کر دی ہیں۔ تین جیم حکومت کے خلاف ہو گئے تو باقی صرف جاگیردار رہ جائیں گے اور وہ پیپلز پارٹی کو دھوکہ دیں گے۔ کائرہ صاحب غصے میں بھی دلیل لاتے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل پر انہوں نے اینکرز کا بڑا مقابلہ کیا وہ جیتے نہیں مگر ہارے بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس صحافیوں کی فہرست موجود ہے جو حکومت کی طرف سے نوازے گئے وہ بھی تو ہر حکومت کی طرح ان صحافیوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے قلم کو چمچہ بنایا ہوا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف بھی پچھلے زمانے میں لکھتے رہے ہیں جنہوں نے قلم کو علم بنایا ہوا ہے۔ جھنڈے والی کار میں جو بھی ہوتا ہے انہیں اپنی اصل اپوزیشن سمجھتا ہے۔ صحافی فرینڈلی اپوزیشن نہیں کر سکتے۔ اس لئے حکمران بڑے تنگ ہیں۔

گلوکارہ اقبال بانو کی یاد میں پی ٹی وی پر ایک پروگرام میں گلوکاراؤں کو سن کر کائرہ صاحب جھوم رہے تھے۔ ہم اس مستی کے بالکل خلاف نہیں مگر کئی لوگوں پر بدمستی طاری ہو جاتی ہے۔ ان کو کائرہ صاحب ذرا چیک کریں۔ حکومت میں ایک ڈاکٹر بابر اعوان ہیں جو سلیقے سے بولتے ہیں وہ اختلاف کرنے والوں کا جواب دیتے ہیں انہیں لاجواب کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایوانوں کے مکینوں کا تقاضا ہر دور میں یہ ہوتا ہے کہ ہمیں عیش و عشرت کرنے دو یعنی حکومت کرنے دو جو ہم کرتے ہیں۔ ٹھیک کرتے ہیں۔ تم غلط کہتے ہو جو کہتے ہو ہر دور میں حکمرانوں کا یہی طرز عمل رہا ہے۔ یہی طرز عمل طرز حکومت ہے ہر دور میں صحافی سختیاں جھیلتے رہے ہیں اور حکمران عیش کرتے رہے۔ کسی بھی دور میں حکمرانوں کا دور دورہ ختم نہیں ہوا تو پھر وہ اہل قلم سے ڈرتے کیوں ہیں اور انہیں ڈرا کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیشہ ڈرا ہوا آدمی دوسروں کو ڈراتا ہے اب میڈیا کے خلاف کوئی قانون آ رہا ہے۔ لاقانونیت کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہلیری کو اینکرز سے ملنے ہی کیوں دیا گیا۔ اس نے کہا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستانیوں کا ردعمل امریکہ کی پالیسیوں کے خلاف اتنا شدید ہے کیری لوگر بل کے لئے بھی تلخ حقائق جان کر ہلیری کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ اس نے کہا کہ یہ شرمناک امداد تم نہیں لینا چاہتے ہو تو نہ لو اب یہ امداد لینا مزید شرمندگی ہے۔ یہ بات ہلیری نے حکمرانوں وغیرہ سے نہیں کہی کہ وہ تو ہر صورت میں لیں گے۔ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے بے کار وضاحتی نوٹ کے بعد ہاتھ پھیلائے ہوئے حکمران مطمئین ہو گئے۔ ایک بھوکے بھکاری نما دوست کے لئے میزبان نے 40 روٹیاں پکوائیں۔ لوگوں نے پیٹو پیٹو کا شور مچا دیا۔ اس نے حسرت سے میزبان کی طرف دیکھا۔ میں پیٹو تو ہوں مگر تم ایک روٹی اٹھا لو لاہور میں سٹوڈنٹس کے سوالات کے سامنے بھی ہلیری گھبرا گئی۔ ڈرون حملوں اور بھارت کے ساتھ امریکہ کے جانبدارانہ ترجیحی سلوک پر ہلیری گھبرا گئی۔ کئی وزیروں شذیروں نے ڈرون حملوں کے لئے امریکہ کا شکریہ ادا کیا۔ ہمارے حکمران امریکہ کو دوست سمجھتے ہیں اور یار بے وفا ہی محبوب ہوتا ہے۔ بھارت کے ساتھ ترجیحی سلوک۔ ہمارے حکمرانوں کو میر کے اس شعر پر بھی اعتراض ہو گا۔ اس کی شکایت کس سے کی جائیگی۔
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف........... اے کشتۂ ستم تیری غیرت کو کیا ہوا

اینکرز کی گفتگو کے بعد ہلیری کے تاثرات سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران وغیرہ امریکہ کو اصل بات بتاتے ہی نہیں۔ صحافیوں نے ’’اصل بات‘‘ بتا دی کہ پاکستانی میڈیا سے رابطہ امریکہ کیلئے ضروری ہے۔ یہ پاکستانی تھنک ٹینک سے ہلیری کہتی ہے کہ امریکی عوام کا رابطہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہونا چاہئے۔ کیری لوگر بل پاکستانی حکام تو مسترد نہیں کریں گے مگر عوام کی بات سن کر امریکہ خود یہ امداد واپس لے لے۔ ڈرون حملے نہ کرے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی نہ کرے اور بھارت کو پاکستان پر مسلط کر کے اب اسے ہمارے لئے ’’نہ کرنے‘‘ کی پالیسی بنانا ہو گی۔ ہلیری کا دورہ پاکستان کے لوگوں کے ردعمل کا نتیجہ ہے۔ امریکی اہلکار نہ آئیں اگر آئیں تو پاکستانی عوام کے پاس آئیں۔ ہلیری نے پاکستان کے مختلف مقامات کا دورہ کیا یہ توفیق پاکستانی حکمرانوں کو نہیں قومی لیڈر نواز شریف کبھی رائے ونڈ سے باہر نہیں نکلا۔ صدر زرداری کبھی ایوان صدر سے نہیں نکلا وہ صرف ملک سے باہر جاتے ہیں جب جاتے ہیں۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.