پاکستان کی ابتک کی تاریخ پر اگر
ہم نگاہ ڈالیں تو پاکستان کی متعدد تاریخیں لکھی گیں ہیں اور مستقبل میں
بھی لکھی جائیں گی۔ لیکن تا حال پاکستان کی تاریخ کا تقریبا نصف حصہ غیر
جمہوری ادوار پر مشتمل ہے اور بقیہ نصف حصہ جمہوری اور نیم جمہوری ہوتے
ہوئے بھی اس غیر جمہوری حصے سے گہنایا ہوا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا
جاسکتا ہے کہ پاکستان میں نصف وقت غیر آئینی حکومتیں برسر اقتدار رہیں اور
بقیہ نصف وقت غیر آئینی حکومتیں برسر اقتدار نہیں رہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے
کہ پاکستان کی آئینی تاریخ کے مقابلے میں غیر آئینی تاریخ زیادہ اہمیت کی
حامل ہے۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو بھی ایک اور غیرآئینی تاریخ کا جنم ہوا لیکن
مُلک کی تاریخ میں یہ واقعہ پہلےسے یوں مختلف تھا کے فوجی ٹیک اوورز کے
بجائے اس بار پہلےوزیر اعظم نے فوج پر سویلین حکومت کی بالادستی ثابت کرنے
کی کوشش کی تھی، اور فوجی چیف ہی کے خلاف ایک طرح کا ’کُو‘ کرڈالا تھا۔
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کی آزادی کی پچاس
سالہ تقریبات میں شرکت کرکے کولمبو سے واپس آرہے تھےاور ادھر پاکستان کے
وزیراعظم نواز شریف نے اچانک اُنہیں اُن کے عہدے سے برطرف کرنے کے بعدآئی
ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الدین کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر
نیا آرمی چیف مقرر کردیا۔ جونہی یہ اطلاع جی ایچ کیو پہنچی، کورکمانڈرز نے
اس حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل پرویز مشرف اس وقت ملک سے باہر ہیں۔ حکومت اگر اُنہیں ان کے
عہدے سے ہٹانا ہی چاہتی تھی تو اُسے اُن کی واپسی کا انتظار کرنا چاہئے تھا،
بصورت دیگر وہ جنرل پرویز مشرف ہی کے احکامات کی تعمیل کریں گے۔ جنرل پرویز
مشرف اس کارروائی سے بے خبر کولمبو سے کراچی کے لئے محو سفر تھے۔ حکومت نے
اس صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہا اور کوشش کی کہ جنرل پرویز مشرف جس طیارے
میں سوار ہیں اسے کراچی ائیر پورٹ پر اترنے نہ دیا جائے۔ مگر فوج کے
کورکمانڈروں نے اس کوشش کو ناکام بنادیا اور نواز شریف کی حکومت کو ختم
کردیا۔
جنرل پرویز مشرف بارہ اکتوبر 1999ءسے اٹھارہ اگست 2008ءتک اقتدار میں رہے،
یہ پاکستان کی ابھی تک کی تاریخ کے آخری فوجی حکمران تھے۔جنرل پرویز مشرف
نےنوازشریف کو 1999ء میں ہٹاکراقتدار پرقبضہ کیا تو ہائی کورٹ اور سپریم
کورٹ کے تمام جج صاحبان جن میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل
تھے، اُن تمام نے پی سی او کے تحت حلف لیا۔ مشرف کے برسراقتدار آنے کےبعد
چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی نے مسلم لیگ ق کو جنم دیا۔ مسلم لیگ ق
کے علاوہ ایم کیو ایم اور متحدہ مجلس عمل بھی پرویز مشرف کے اتحادی تھے۔
پہلے ظفر اللہ خان جمالی، اور بعد میں شوکت عزیز وزیر اعظم رہے۔ عمران خان
تین سا ل تک پرویزمشرف کی حمایت کرتے رہے۔جبکہ علامہ طاہر القادری بھی
پرویزمشرف کے کرائے ہوئے 2002ء کے انتخابات میں کامیاب ہوکر قومی اسمبلی
میں پہنچے تھے۔آج ان دونوں کے کنٹینرز پر آپ پرویزمشرف کے کافی ساتھی
دیکھ سکتے ہیں ۔ 28دسمبر 2003ء کوقاضی حسین احمد،مولانا فضل الرحمن و دیگر
قائدین کی موجودگی میں متحدہ مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل
یعنی لیگل فریم ورک آرڈر منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و
قانونی جواز فراہم کردیا۔ اس درمیان میں جنرل مشرف کے سپریم کورٹ کے چیف
جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اختلافات ہوئے اور پھر اُنکو معطل کردیا بعد
میں وہ بحال ہوئے مگر جنرل مشرف نے تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کا نفاظ
کیا جسکو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا۔ جنرل پرویز مشرف کے کیس میں یہ ایک
تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت اُن پر چلنے والا غداری کا مقدمہ
سول و فوجی قیادت میں کشیدگی کی شروعات تھا۔ نواز شریف کے وزرا نے
پرویزمشرف کے خلاف ذاتی بیان بازی کرکے صورت حال کو مزید خراب کیا۔
اگرنواز شریف واقعی پرویزمشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے اوراُنکے کے اقتدار
کے دوران وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی تاریخ کو کھولنا چاہتے ہیں اور
پرویزمشرف کو سزا دلانا چاہتے ہیں تو پھر 12اکتوبر 1999ء زیادہ اہم ہے۔
مشرف کے اقتدار میں آنے کی تاریخ 12اکتوبر 1999ء ہے، 3نومبر 2007ء نہیں۔
اسکے علاوہ صرف پرویزمشرف کو نشانہ بنانے کا فیصلہ نوازشریف کا ذاتی انتقام
ہے۔ 24 جون 2013ء کو قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے اس سوال پر کہ کیا
مرکزی حکومت پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانا چاہتی ہے، نواز شریف نےکہا
تھا کہ مشرف کو اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ تین نومبر 2007ءکی ایمرجنسی کے
اصل مدعی سپریم کورٹ کے اور اُس کے جج ہیں نواز شریف نہیں، نواز شریف بارہ
اکتوبر 1999ء کے مدعی ہیں۔ نواز شریف اگر واقعی حق پر ہیں تو بارہ اکتوبر
1999ء سے جنرل مشرف کے اقتدار کا پنڈورا بکس کھلوادیں۔ عام طور پر کہاجاتا
ہے کہ وہ ایسا نہیں کرینگے کیونکہ اُنکی اپنی ہی پارٹی میں پھوٹ پڑجائے گی،
اس لیے کہ مشرف کے 80 فیصد مجنوں جو مشرف کے غیر آئینی اقتدامات میں مشرف
کے ساتھ تھے آج اُنکی پارٹی کے ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی ہیں اور ان میں
کچھ وزرا بھی ہیں۔
اکہتر سالہ جنرل پرویز مشرف جو اپنی مرضی سے پاکستان واپس آئے تھے، اُنکو
پاکستان کی عدالتوں نے تواپنی والدہ سے ملنے کی اجازت دئے دی لیکن نواز
شریف حکومت اور خود نواز شریف نے ایسا نہ ہونے دیا۔ قدرت کے کھیل بھی عجیب
ہوتے ہیں، آج نواز شریف کو خود اپنے اقتدار کے لالے پڑئےہوئے ہیں۔ کل نواز
شریف کا پسندیدہ نعرہ تھا "گو مشرف گو" لیکن آج پاکستان کا مقبول ترین نعرہ
ہے جو کبھی کبھی مسلم لیگ ن کے لوگ بھی لگالیتے ہیں "گو نواز گو"۔ نواز
شریف کی سیاسی پیدائش اور تربیت جنرل ضیا کے دور میں ہوئی ہے۔ نواز شریف
ایک عرصے تک جنرل ضیا کی صحبت میں رہے ہیں، وہ جنرل ضیا کو اپنا سیاسی باپ
کہتے تھے۔ جنرل ضیا کی موت کے بعد ایک عرصے تک نواز شریف ہر سال ضیا کی
برسی پر اُس کی قبر پرجاکراُس کے تمام اقدامات کی تعریف کیا کرتے تھے۔نواز
شریف کو یہ بھی یاد نہیں کہ جنرل ضیا نے بھی آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کی تھی
اور اقتدار پر قبضہ کیاتھا۔ |