قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246
سے متحدہ قومی موومینٹ (ایم کیو ایم) کے مستعفی ممبر قومی اسمبلی نبیل گبول
نے کہا ہے کہ میرے استعفے کے بعد این اے 246 کے ووٹروں کی اہمیت بہت بڑھ
گئی ہے، ایم کیو ایم ہمیشہ سمجھتی تھی کہ این اے 246 میں کوئی اس کا مقابل
نہیں ہے، این اے 246کے حالیہ الیکشن کا پچھلے کسی الیکشن سے تقابل نہیں کیا
جاسکتا،ایم کیو ایم پہلی مرتبہ این اے 246 کے الیکشن میں گھبرائی ہوئی ہے۔
نبیل گبول نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہ انکشاف کیا کہ جب اُنکی ایم کیو ایم
کے سربراہ الطاف حسین سے فون پر بات ہوئی تو اُنکا کہنا تھا کہ آپ کے
استعفے کے بعد ایم کیو ایم جس طرح الیکشن لڑرہی ہے اور پارٹی کے لوگ جس طرح
گھبرا رہے ہیں اس سے اچھا تھا کہ آپ ایم این اے رہتے۔ جبکہ ایم ایم کے
رہنما کنور نوید جمیل اسکے بلکل برعکس کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے نبیل
گبول سے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ لیا تھا۔
نبیل گبول جو قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246کے ممبر قومی اسمبلی تھے کچھ
عرصے پہلے اُنہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دئے دیا۔ دو سال تک
بقول اُنکے ناجائز قومی اسمبلی کے ممبررہے اور آج سب کو بتارہے ہیں کہ
کسطرح وہ دھاندلی کےزریعے قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔ نبیل گبول ایم کیو ایم
کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی بنے تھے۔ مئی 2013ء میں جب پورئے پاکستان میں
انتخابات میں دھاندلی کا شور مچا تو نبیل گبول اپنے ضمیر کوتھپک تھپک
کرسلارہے تھے کیونکہ ابھی بہت کچھ حاصل کرنا تھا، دو سال تک قومی اسمبلی کے
ممبر کی حیثیت سے یقینا وہ ساری مراعات سمیٹی ہونگی جو قومی اسمبلی کے ایک
ممبر کو ملتی ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کمایا ہوگا لیکن اپنے حلقے
کےلیے کبھی کچھ نہیں کیا، پھر اچانک اُنکا ضمیرجاگ اٹھا اور وہ مستعفی
ہوگئے۔ آج وہ بتارہے ہیں کہ وہ جو ڈیڑھ لاکھ ووٹ سے جیتے تھے وہ اُنکے
حلقے کے عوام کے دیئے ہوئے ووٹ نہیں تھے بلکہ ایم کیوایم کے ٹھپا مافیا کی
عنایت تھی۔ ایک چیز سمجھ میں نہیں آئی کہ جب سارئے پولنگ بوتھ پر ایم
کیوایم کے ٹھپا مافیا کا قبضہ تھا تو پھر پی ٹی آئی کو 31 ہزار سے زیادہ
ووٹ کس نے ڈالے شاید وہ بھی ایم کیو ایم کے ٹھپامافیا ہی کا کام تھا جب ہی
الطاف حسین ناراض ہورہے تھے اپنے لوگوں پر کہ پی ٹی آئی کے لیے اتنے ٹھپے
لگانے کی کیا ضرورت تھی۔نبیل گبول کے ایم کیو ایم سے علیدہ ہونے سے پہلے ہی
سے یہ خبرآرہی تھی کہ اُنکی اگلی منزل پی ٹی آئی ہوگی۔
ضمنی انتخاب معمول کی ایک کاروائی ہوتی ہے، ضمنی انتخاب دو صورتوں میں
کرائے جاتے ہیں ، یا تو اُس حلقے کے ممبر کی موت واقع ہوجائے یا پھر از
خودکوئی ممبر اپنی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے۔ کراچی میں 23 اپریل
کوہونے والا قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 میں ضمنی انتخاب نبیل گبول کے
مستعفی ہونے کی وجہ سے کرایا جارہا ہے، یہ نشست1988سے اب تک متحدہ کی مضبوط
نشست تصورکی جاتی ہے، کیونکہ الطاف حسین کا گھر اور ایم کیو ایم کا مرکزی
آفس جسکو عام طور پر نائن زیرو کہا جاتا ہے اسی حلقے میں آتا ہے۔ اس حلقے
میں مہاجر یا اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے لہذا اس حلقے سے ایم کیو ایم
کے نمائندئے ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب ایسی
کونسی وجوہات پیدا ہوگیں کہ اس حلقے میں انتخاب بہت زیادہ اہمیت اختیار
کرگے؟ اسکا جواب یہ ہے کہ کراچی کی 85 فیصدنمایندگی کی دعویدار ایم کیو ایم
پرتو اُس کی پیدایش کے وقت سے ہی الزامات لگتے رہے ہیں اور آج بھی ایم
کیوایم پر ٹارگیٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات سرفہرست ہیں۔فروری اور
مارچ میں نہ صرف ایم کیو ایم پر قتل اور دہشت گردی کے الزامات لگے بلکہ
اُسکے مرکز نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپا بھی مارا، ان واقعات کے دوران ہی
نبیل گبول نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا، مندرجہ ذیل واقعات کی
وجہ سے آج ایم کیو ایم 23 اپریل کو ہونے والے انتخابات دفاعی انداز اختیار
کیے ہوئے ہیں۔
۔ فروری 2015ء میں الیکڑانک میڈیا اور اخبارات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں
سانحہ بلدیہ فیکٹری از خود نوٹس کیس کے دوران رینجرز نے واقعے میں ملوث ایک
ملزم رضوان قریشی کی تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس کے نتیجے میں یہ
بات سامنے آئی ہے کہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں 257 افراد کی ہلاکت کاواقعہ
حادثہ نہیں بلکہ قتل تھا۔ رینجرز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیکٹری
میں آگ بھتہ کے معاملے پر باقاعدہ منصوبہ بندی سےلگائی گئی جس میں ایک
سیاسی جماعت (ایم کیو ایم) ملوث ہے ۔
۔ گیارہ مارچ کی صبح ایم کیوایم کے مرکز پررینجرز نے چھاپا مارا، جسکے بعد
رینجرز کے ترجمان کرنل طاہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نائن
زیرو پر کچھ ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر کی مو جودگی کی اطلاع ملی تھی
اس اطلاع پر رینجرز نے چھاپا مارا اور کافی لوگوں کو گرفتار کیا ، گرفتار
ہونے والوں میں ایسے لو گ بھی مو جود ہیں جن کو عدالت سے سزائے موت کی سزا
مل چکی ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ چھاپے کے دوران ایسا اسلحہ بھی ملا ہے
جس کی درآمد پاکستان میں ممنوع ہے۔ ایک طرف ایم کیو ایم کےخلاف آپریشن شروع
ہوا جس میں اُس کے کارکن پھانسی پانے والے فیصل موٹا اور عمیر صدیقی کے
علاوہ اور بھی مجرم پکڑئے گےتو دوسری طرف حکومت نے ایم کیو ایم کے ایک خاص
مہرئے صولت مرزا کو جو کےای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد حامد کا قاتل ہے
اُسکو19 مارچ کو پھانسی دینے کا اعلان کردیا، اس اعلان کے بعد ایم کیو ایم
نے صولت مرزا سے لاتعلقی کرلی۔
۔ ابھی ایم کیو ایم عمیرصدیقی کے دوران تفتیش ایم کیو ایم کے خلاف دیے ہوئے
بیانات سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ صولت مرزا کی پھانسی سےصرف پانچ گھنٹے
پہلے میڈیا کو ایک وڈیو مہیا کی گئی جس میں صولت مرزا نے متحدہ قومی موومنٹ
کے قائد الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کی اہم قیادت پر سنگین الزامات عائد
کیے۔ الزامات میں سے ایک الزام یہ ہے کہ کے ای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد
حامد کےقتل کا حکم الطاف حسین نے صولت مرزا کو بابر غوری کے گھر پر بلاکر
بذریعہ ٹیلیفون خود دیا تھا، صولت مرزا کا یہ بھی الزام ہے کہ ایم کیو ایم
گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ذریعے اپنے حراست میں لیےگئے کارکنوں کو
تحفظ دیتی ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے صولت مرزا کی جانب
سے لگائے جانے والے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح
کا بیان ان کی جماعت کے خلاف سازشی منصوبے کا حصہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ
پہلا موقع ہے کہ سزائے موت کے قیدی کی کوئی ویڈیو سزا سے محض ایک روز قبل
جاری کی گئی ہے اور ثبوت کے بغیر ان پر اور ایم کیوایم پر الزامات نہیں
لگائے جا سکتے۔
ایم کیو ایم جسکو کراچی میں سوائے جماعت اسلامی کے کوئی چیلنج کرنے والا
نہیں تھا، اور جماعت اسلامی 1988ء کے بعد صرف اُس مرتبہ ہی کامیاب ہوئی جب
جب ایم کیو ایم نے کسی بھی انتخاب کا بایئکاٹ کیا، چاہے وہ قومی اسمبلی کے
انتخاب ہوں یا بلدیاتی، نعمت اللہ خان صاحب ایم کیو ایم کے بایئکاٹ کی وجہ
سے ہی کراچی کے میر بنے تھے۔ لیکن جب بھی ایم کیو ایم نے انتخابات میں حصہ
لیا جماعت اسلامی ذلت آمیز شکست سے دو چار ہوئی ہے۔ آج نبیل گبول کے
مطابق ایم کیو ایم پہلی دفعہ اپنے گڑھ میں تحریک انصاف کی شکل میں چیلنج
محسوس کررہی ہے، اگر این اے 246میں فوج کی موجودگی میں الیکشن ہوتا ہے تو
تحریک انصاف یہ نشست جیت سکتی ہے۔ ایسا دعوی کیوں کیا جارہا اسکی وجہ خود
الطاف حسین ہیں، الطاف حسین بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُنکی جماعت مجرمانہ
سرگرمیوں میں ملوث ہے، دوسرئے کسی نہ کسی طرح عام لوگ ایم کیو ایم سے خوف
محسوس کرتے ہیں، ایم کیو ایم کی دہشت پر پہلی ضرب لگ گئی ہے، ابھی اس ضرب
سے شاید ایم کیو ایم کا کچھ نہ بگڑئے لیکن اگر ایم کیو ایم نے اپنے طور
طریقے نہ بدلے تو ایم کیو ایم کا مستقبل تاریک ہوگا۔ اورآخری بات یہ ہے کہ
تحریک انصاف کے رہنماعمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ایم کیو
ایم کے مرکز پر چھاپے، اور صولت مرزا کے بیان کے بعد شاید یہ خیال کررہے
ہیں کہ ایم کیو ایم ختم ہوگئی ہے تو یہ اُن کی غلط فہمی ہےلہذا این اے
246کی نشست کو آسان نہ سمجھیں۔ |