اب آپ سب سے پہلے ‘‘نیا پُختونخوا’’ بنائیے

گزشتہ دنوں ہم اسلام آباد سے براستہ نوشہرہ پشاور گئے،وہاں مولانا ضیأ الرحمن کے ہاں قیام کے بعد اگلے دن شبقدر میں معہدِ عثمانؓ کی جامع مسجد ابوبکرؓ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنی تھی،جہاںسندھ، پنجاب اور بلوچستان سے دیگر حضرات بھی مدعو تھے،ان میں مولاناڈاکٹر منظور مینگل،مفتی حبیب حسین ،علامہ سعید الحسینی اور پیر یاسر عرفات خصوصی مہمانوں میں سے تھے،شبقدرکی یہ اپنی مثال آپ مسجد ومدرسہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، علاقے کے مشہور اور قابل ترین عالمِ دین شیخ شعیب کا حسنِ انتظام تعمیر وتعلیم میں باعثِ سرور تھا،بطورِ خاص عربی زبان وادب کے لئے ان کی خدمات بالکل نمایاں تھیں،ان کا اخلاص دیکھئے ،میں نےسماحۃ الامام حضرت شیخ سلیم اللہ خان صاحب زید مجدہم سے مسجد کے سنگِ بنیاد کے متعلق درخواست کی ،حضرت نے جانے سے معذرت کی ،پرساتھ ہی ایک اینٹ پر کچھ پڑھ کر فرمایا ،یہ اُس کی اساس میں رکھد یں،وہ اینٹ انہوں نے بنیاد میں رکھدی ، یوں سنگِ بنیاد حضرت کے دستِ مبارک سے پڑ گیا،بہر حال بیان کرنے کے بعد ہم چارسدہ کے علاقے تنگی گئے،جامعۃ السلیم کے اساتذہ مفتی احمد جان،مولوی حسنین اور مولانا آدم خان کے یہاں کچھ دیر کے لئےرکے،رختِ سفر باندھا،توترنگزئی بابا ؒکے مزار پر فاتحہ پڑھ کر،سخاکوٹ،درگئی،مالاکنڈ ، بٹخیلہ اور شموزئی سے ہوتے ہوئے مینگورہ پہنچے،سوات سیاحوں کا مرکز بناہواتھا، بارش ہورہی تھی،ہم بھی فضا گٹ گئے،دریائے سوات کے کنارے کچھ دیر سیر وتفریح کے بعد کارواں نے چارباغ،اورخوازہ خیلہ سے شانگلہ کا رُخ کیا،پورن میں عبدالعلیم خان اور ایم پی اے حاجی منعم نے روک لیا،ماحضر تناول کیا،گفت وشنید بھی ہوئی،مارتونگ میں اسم با مسمیٰ شیر علی خان نے خوب خاطر مدارات کی،مولانا قطب الدین ،مولانا معراج ، مولانا بشیر،مولانا صبا ح الدین ،ڈاکٹر شیر بہادر اورحکیم ولی اللہ سے علیک سلیک ہوئی،شیخ الحدیث والتصوف والمنطق مارتونگ بابا جی ؒ کی قبر پر فاتحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا،مارتونگ کےمولانا امداد اللہ کے تو کیاکہنے،ظاہری وباطنی ہر طرح نستعلیق وباوقارہیں،اشاڑو سر کے عزیز خان صحیح معنوں میں ہر دلعزیزہیں،کانڈئی کے مولانا فدا سے ان کے والد گرامی کی رحلت پر کچھ دیر محوِ غم ہوئے،کاراؤ سر میں پیر یاسر عرفات کے بڑے بھائی عبد الظاہرخان صاحب نے تو دیدہ ودل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے،ان کے والدین مرحومَین کے مزارات پر دعأ ہوئی۔ مانگا کنڈَو سے ہوکرشیر عالم خان کی والدہ کی تعزیت کے سلسلے میں چکیسر پہنچے،شیخ عزیز عظیمی ، مولوی گل محمد تالونی اور قاری عثمان والوں کے یہاں جانے کا ارادہ تھا،مگر پیدل جانے کی ہمت نہ ہوئی اورمولاناجمشیدنے اپنے گھر دعوت کی،تو خوشی سے پھل کاٹتے ہوئے اپنی نرم ونازک انگلیاں ہی کاٹ دیں، ان سب مقامات پر کچھ کچھ دیر قیام کےبعد ضلع تور غر کے مرکز جُدبا کے مزے علامہ سعید اور محمد المظفر نے خوب لئے،ہمارے بھانجے اور نو منتخب تحصیل ناظم مولانا اکرم خان نیز مفتی عزیز اللہ سے بھی حال احوال لئے، دیدل میں جناب گل سعید شاہ کے نوجوان صاحبزادے کے انتقال پر دُکھی اور رنجیدہ باپ سےتعزیت کی،چورانوں میں ڈاکٹر گل امین لطیف،قاری ابراہیم شریف،سخی خان،نذیر عمر سید ،انکل محمد عمر اور غٹ دادا محمد عثمان سے ملے،البتہ یکدم زندہ دل اور نہایت مہمان نوازخان رحیم خان کاکا کی کیا بات ہے!گبین خان باچا کی وفات پر ان کے لئے دعائے مغفرت کرائی۔گیر میں والدہ ماجدہ کی خدمت میں کچھ دن رہے، چھوٹے بھائی آکا نظام خان المظفر ،عیسیٰ، اسامہ،عدنان،حمزہ،طفیل،ادریس، بختِ روان خان،مولانا شریف الرحمن،محمد ایوب ،سلیم اللہ اورمولانا اکرام نصیب کے توساتھ ہی رہے،تیتوالان میں اورنگ زیب خان کے صاحبزادے اور نو منتخب نائب ناظم فیصل زیب سے بھی ملاقات ہوئی، ڈی سی او صاحب کے برادرِ خورداور نو منتخب ناظم عزیز بھائی سے ٹیلیفونک سلام دعا ٔ ہوئی،اورنگ زیب خان کی اس علاقے میں عظیم الشان اور تاریخی خدمات ہیں،وہ ایک نڈر، بے باک اور ایماندار شخصیت کے مالک ہیں۔وہاں سے براستہ بُنیر ،کڑاکڑ،مردان ، صوابی وجہانگیری ،اٹک وحضرو، پنڈی اسلام آبادمیں اپنے ڈاکٹر یوسف مرزا صاحب کے ہاں قرآن کمپلکس آگئے،اس سفر میں پیر یاسر کی وجہ سے پی ٹی آئی کےمفتی سعید خان اوراعجاز چودھری نے میرٹ اسلام آبادمیں ہماری پُر تکلف دعوت بھی کی ، جامعۃ الازہر کے سابق پروفیسر اور ایم کیو ایم کے سینیٹر ڈاکٹر عبد الخالق پیر زادہ سے بڑی عالمانہ وفاضلانہ صحبت وہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔

ان تمام جگہوں میں سیاسی،سرکاری،تعلیمی،حکومتی،علاقائی اورقبائلی عمائدین و عامۃ الناس سے بالمشافھہ گفتگو اور ملاقاتیں ہوئیں،زیادہ تر موضوعِ سخن تحریکِ انصاف،کپتان اور صوبائی حکومت رہا،ان کی حکومتی کارکردگی پر جتنی باتیں ہوئیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ تعلیم، صحت، پولیس،عدلیہ اور پٹوار میں اِن کی اصلاحات قدر کی نگاہوں سے دیکھی جارہی ہیں،اپنے اور مخالف دونوں ہی اِن میدانوں میں کپتان کی تعریف کر رہے ہیں،ایسے سکولز بھی اب آباد ہوگئے ہیں, جہاں برسوں سے تعینات اساتذہ نے کبھی قدم رنجائی کی زحمت گوارا نہیں کی تھی،سکول کی تعمیرات پر قوم کا پیسہ خرچ کرکے اسے با أثر لوگوں نے ذاتی اغراض کے لئے اپنے استعمال میں رکھاہواتھا،بغیر میرٹ کے لاکھوں روپے لے کر ایم پی ایز،ایم این ایز نے اپنے چہیتوں کو صرف سیلری وصول کر نے کے لئےبھرتی کیا ہواتھا،سکول اور ٹیچر کے یہ مردہ اور علامتی ڈھانچےنہ ہوتے ،تو لوگ بھی آس لگائے اپنے نونہالوں کو آج نہیں تو کل،اس سال نہ سہی تواگلے سال ،ان کے انتظار میں نہ بٹھاتے،انہیں دور دراز کسی دینی مدرسہ ہی میں بھیج دیتے،یا خود ہی یہ بچےکسی کے پاس کم از کم ہُنر سیکھنے چلے جاتے،قوم کے نام پر سیاست وسیادت کرنے والے ظالموں نےخیبر پختونخوا کے پھول جیسے بچوں کو کہیں کانہ رہنے دیا،پھر جن سرکاری سکولوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا، وہاں مک مکاؤ کر کے أساتذہ باریاں لگاتے تھے،دو ایک ہفتے یا مہینے کے لئے ،تو دو اس سے آگے کے لئے اور بقیہ دو اس سے بھی آگے کے لئے،بہت بری صورتِ حال تھی،حرام خوری کی ایک چھوٹی قسم یہ ہے کہ کوئی کسی کا مال چُرائے اور کھا بیٹھے،لیکن اس بڑی حرام خوری میں سب کے سامنے دھڑلے سےقوم کا مستقبل چوری ہورہاتھا،گویا تعلیم یا تو سرے سے دی ہی نہیں جارہی تھی،یا پھر اس طرح کہ اس سے جہالت بہترتھی،بد قسمتی سےاس وقت ہمارے ملک بالخصوص پختونخوا میں بیشتر تعلیم یافتہ کچھ اسی قسم کے ہیں،بزعم خویش وہ تعلیم یافتہ ہیں، مگر گردن میں سریا اور ناپختہ فکر ونظران کی جہالت کی غمازی کررہے ہو تے ہیں،اس کیفیت میں تعلیم کے نام پر صنعتیں لگانے والے نجی سکولز مالکان کی چاندی ہوجاتی ہے،اِدہر غریب نان نفقے کے لئے ترس رہا ہوتا ہے، تواُ دہر آنجناب کے لامتناہی نخرے بچوں کے والدین سے مطالبوں پر مطالبے کر رہے ہوتے ہیں،بہر حال کپتان نے اس میدان میں اس حد تک پختونخوا میں کامیابی حاصل کی ہے کہ لوگ اب اپنے بچے نجی سکولوں سے نکال کرسرکاری سکولوں میں داخل کر رہے ہیں،سکولوں میں کم سے کم حاضری طلبہ توو اساتذہ دونوں کی ہور ہی ہےاورغیر حاضری پر اچھی خاصی سرزنش اور پوچھ تاچھ ہوجاتی ہے۔

محکمۂ پولیس میں بھی پہلے کی طرح رشوت خوری ،گالم گلوچ اور غُرّاناعام وتام نہیں ہے،سیکورٹی فورسز کا لب ولہجہ بھی سندھ پنجاب والوں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے،پولیس حکام سے ایک دو جگہ ملاقاتوں میں اندازہ ہو ا کہ اخلاقیات کا پہلو کچھ نمایاں ہوا ہے۔ پٹواری عام لوگوں کی کھال اتارنے پر تُلے ہوتے تھے، ان میں بھی حلال خوری کی جستجو پیدا ہوئی ہے،یا یوں کہ دیجئے کہ حرام خوری سے وہ اب تھوڑے سے خائف اور گھبرائےہوئےنظر آ تے ہیں۔سننے میں آیا کہ عدلیہ میں بھی انصاف کی جھلکیاں نظر آتی ہیں،تاخیر جو ہوتی تھی اب اُتنی نہیں ہوتی،با أثر حضرات کا بلا وجہ مخالفین کو اب پسِ زنداں کرنا اُتنا آساں نہیں ہے جتنا پہلے ہوا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے،صحت کے شعبے کا برا حال تھا ،بڑے ہسپتالوں میں ڈاکٹر اتنے چکر لگواتے تھے کہ مریض تو مریض ہے،تیماردار کا کلیجہ بھی منہ کو آجاتا تھا،ذاتی کلینک میں اِن کی خوش اخلاقی اور سرکاری ہسپتال میں اِن کی بد تمیزی دیدنی ہوتی ہے،پھر یہاں کی نرسیں اور کمپاؤنڈر،بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان َاللہ۔چھوٹے ہسپتالوں اور گاؤں دیہات میں یکدم اَن پڑھ یاکہیں نرسنگ کا نا مکمل کورس کئے ہوئے ‘‘بیطارڈاکٹر’’ لوگوں کا جو حشر کرتے تھے، وہ ناقابلِ دید ہوتا،بغیر سُن کئے جب وہ کسی کا دانت نکالتے،یا ٹوٹےہوئے ہاتھ پاؤں کو جوڑتے،یا ظاہری زخم کی وجہ سے کسی کے چمڑے کو سیتے،تو ہمارے جیسےکمزور دل صرف دیکھنے سے ہی بےہوش ہوجاتے،اگر کہیں نا موافق یا اکثر وبیشتر آؤٹ آف ڈیٹ دوا کی وجہ سےری ایکشن ہوجاتا، تو مریض کو تو چھوڑئیے ‘‘ڈاکٹر جی ’’کے اپنے ہاتھ پیر کانپنے لگتے،اب حکیم جی کا دور آتا ،تو وہ ایک دو خوراک ہی سے مریض کا کام ‘‘تمام’’ کر دیتے۔

اس طرح کی اصلاحات کے نام پربہت کچھ ہوا ہے ، اس پر بھی اللہ کا شکر ہے، مگر کپتان صاحب!یہ سب آٹی فیشل کام ہوا ہے،سر سری یا ہنگامی طور پر یہ اصلاحات کی گئی ہیں،بالکل اسی طرح جس طرح کہتے ہیں کہ ایم ایم اے کی حکومت میں اصل بیماری کی پہچان نہ ہونے کے باعث سائن بورڈز پر لڑکیوں کی بغیر نقاب والی تصویروں پر کالک مل دی جاتی تھی،یا مسافر بسوں میں ٹیپ ریکارڈر چلانے پر چالان ہو جا تاتھا۔اب 2013 کے انتخابات شفاف قرار دیئے جانے کے بعدآپ کو اگر ‘‘نیا پاکستان’’پھر بھی بنانا ہے اور اس نعرے میں آپ واقعی مخلص ہیں،توخدارا ، پختونخوا کی اس نرسری پر توجہ دیجئے،اِدہر اپنی صلاحیتیں بروئے کار لایئے،نمل یونی ورسٹی کے مانند کالج اور یونی ورسٹیوں کا یہاں جال پھیلایئے،آغاخان یونی ورسٹی ہسپتال کی طرح پشاورمیں’’ شوکت خانم یونی ورسٹی ہسپتال‘‘ بنایئے،ڈیموں اور سڑکوں کا بندوبست کیجئے،تعلیمی اداروں میں عربی اور انگریزی کو فروغ دیجئے،صوبے کی سیاسیات میں اخلاقیات متعارف کرائیں۔۔۔۔گویا قوم عرض گزار ہے کہ پہلے ’’نیا پختونخوا‘‘ بنادیجئے ،تب پوری قوم آپ اور آپ کی ٹیم کی صلاحیتوں کی معترف ہوجائیگی اور یوں اگلے مرحلے میں آپ کو پورا ملک دے دیگی،طیب اردگان نے جب استنبول میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ،تو تُرک قوم نےپھر کہیں جاکر اسے پورا ملک دے دیا اور ایک بار نہیں بار بار دیا۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877714 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More