دہشت گردی کا خاتمہ ۔۔۔۔۔؟

ایک بار پھر دشمن نے گھات لگا کر وار کیا ہے تعلیم پر دوسرا حملہ کیا ہے اب کی بار کے پی کے میں چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی نشانہ بنی ۔۔۔۔؟ مسلسل دو روز میں کے پی کے میں دوسرا دہشت گردی کا واقعہ پہلا پشاور کارخانو مارکیٹ میں جبکہ دوسرا گزشتہ روز چارسدہ میں جس میں مجموعی طور پر 50سے زاہد افراد جان بحق جبکہ متعدد ذخمی ہوئے۔۔۔۔ایک بار پھر عسکری اور سول قیادت کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھنے پر اتفاق کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کی جانب سے ایک روزہ سوگ کا اعلان قومی پرچم سرنگوں رکھا جائے گا،باچا خان یونیورسٹی پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے بے رحم بدلہ لیا جائے گا وہ وقت دور نہیں جب دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا،آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد ایک سال گزرنے کے بعد دہشت گردوں نے کاری وار کیا ہے ہمیں نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اور انٹیلی جنس شئیرنگ کو از سر نو منظم کرنے کی ضرورت ہے ،پاکستان کی مسلح افواج ملکی سلامتی کی ضامن ہے جس کے بہادر فوجی وطن پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔۔۔۔قوم جب سکون کی نیند سوتی ہے تو یہ جوان سرحدوں کی حفاظت پر مامور رہتے پیں ۔۔اور مادروطن کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔۔کراچی میں ابھی حالیہ آرمی کی ملٹری پولیس کے جوان شہید کئے گئے ۔۔۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر بڑی دہشت گردی کی کاروائی کے بعد ہی بڑے فیصلے کیوں کئے جاتے ہیں۔۔؟ ہم اس کے لئے اپنے آپ کو ایسی دہشت گردی سے نمبٹنے کے لئے پہلے سے کیوں نہیں تیار رہتے ہیں ۔۔۔؟۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کیپٹن محمد سرور،میجر محمد طفیل،میجر عزیز بھٹی،پائلٹ آفیسر راشد منہاس،میجر شبیر شریف،سوار محمد حسین،میجر محمد اکرم، میجر محمد محفوظ،کیپٹن شیر خان، اور لالک جان ـؒنشان حیدر ‘‘ سے سر فرازاور ہزاروں نڈر اور بہادر شہیدوں سے بھری پڑی ہے ‘‘جس کی دینا میں کہیں اور مشال نہیں ملتی ہے پاکستانی قوم کی ماؤں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہانہیوں نے ایسے بہادر سپوت پیدا کئے جو اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر اور بم باندھ کر وطن پر قربان ہوگئے ۔۔۔اور ہمارے آنے والے کل پر اپنا آج قربان کر دیا۔۔۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا تعلق بھی شہیدوں کے خاندان سے ہے جنکی والدہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کا بھائی میجر راجہ عزیز بھٹی شہید اور ان کا بیٹا میجر شبیر شہید ؒنشان حیدر‘‘ سے سرفراز ہوئے۔۔۔۔۔میں جب اپنے شہدا کا موازنہ بیرون ممالک سے کرتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے شہید کو وہ مقام نہیں دیا جاتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے اور خاص طور پر ہمارا میڈیا کسی فوجی کی شہادت کی خبر کو اس طرح شہ سرخیوں یا بریکنگ نیوز نہیں دیتا ہے بلکہ شہید فوجی کو محض ؒ فوجی اہلکار‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔جبکہ آپریشن ؒ ضرب عضب‘‘ میں شریک فوجی جوانوں کی سلامتی و کامیابی کے لئے سعودی عرب کی طرح پاکستان کی مساجد میں دعایئں نہیں کی جاتی ہمارے اخبارات بالی وڈ کی خبروں کے لئے تو صفحہ مختص کرتے ہیں مگر وطن کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدا ؒنشان حیدر‘‘ کا اعزاز رکھنے والے کی ’’برسیوں ‘‘پران کی سوانح عمری شائع کرنے کے لئے شاہد جگہ نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔قدرتی آفات ہیں جان بحق ہونے والون کے لئے تو مالی امداد کا اعلان ہوتا ہے مگر شہیدا کے لئے ایسا نہیں ہوتا ہے ۔۔۔۔جبکہ ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات کے حصول اور کرپشن ،اور جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے آئے دن ہماری فوج کو بدنام اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں بلا جواز تنقید سے نہ صرف شہیدا کے لواحقین کی دل آزاری ہوتی ہے بلکہ وہ سوچنے پر حق بجانب ہوتے ہیں کہ ان کے پیاروں نے وطن پر جان قربان کر کے شاہد کوئی بڑی غلطی یا بے وقوفی تو نہیں کی ہے ۔۔۔؟مماز سیاسی شخصیت خلیل الرحمن خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ اب ملک میں ایسے قانون واضح کئے جائیں کہ جن کی رو سے فوج پر یا سلامتی کے دیگر اداروں پر تنوید کرنے والوں اور عوام کو فوج کے خلاف ا’کسانے والوں پر پابندی عائد کی جائے گی۔۔۔۔زندہ قومیں اپنے شہیدا کو اور ان کے اہل خانہ کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں اور ان کو ہیروز کا درجہ دیتی ہیں ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی مسلح افواج کے سہیدوں اور ان کے اہل خانہ کو اسی طرح عزت و احترام دیں جس طرح دنیا کے دیگر ممالک اور زندہ قومین دیا کرتی ہیں۔۔۔کیوں کہ یہ شہیدا ہمای قوم کے ہیرو ہیں ۔۔۔ان کی عزت وا حترام اور ان کے لواحقین کی کفالت کرنا ہم سب پاکستانیوں پر قرض ہے۔۔ جنرل راحیل شریف سے پہلے فوجی کمان کا رویہ مختلف تھا ۔۔۔کیوں کہ ہم دیکھتے تھے کہ فوجی کمان انتہا پسندوں سے مختلف معادے کر رہی تھیسرمایہ کاری اور کاروبار سرگرمیاں بڑھانے کے لئے امن پہلی شرط ہے ،بدامنی اور معاشرتی انتشار سرمایہ کاری کے لئے زہر قاتل ہے،جہاں لوٹ مار ہو رہی ہو ،لوگوں کی جان ومال عزت وآبرو محفوظ نہ ہو وہاں کوئی سرمایہ کار اپنا سرمایہ سامنے لانے اور کاروبار میں لگانا کسی طور پر پسند نہیں کرتا ،پاکستان بد قسمتی سے گزشتہ کئی برسوں سے بد امنی کی گرفت میں چلا آرہا ہے کراچی کے صنعت کاروں نے اپنے کارخانے ،فیکٹریاں اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا شروع کردیا تھا 2015ء میں وزیر اعظم نے تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کا اجلاس بلوایا اور امن کی کی زبوں حالی پر غور کیا گیا جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی کراچی میں امن آپریشن کی منطوری دی گئی ۔۔۔۔۔بھتہ خوروں ،ٹارگٹ کلرز اور مارکیٹں بند کرانے والوں کے خلاف رینجرز کا آپریشن جاری ہے اور جس کے اب تک نتائج حوصلہ افزاء ہیں ،اب مارکیٹں وقت پر کھلتی ہیں کسی کا خوف یا ڈر نہیں ۔۔۔۔جبکہ اب ڈر اور خوف ’’بھتہ خوروں ‘‘ کو ہے ۔۔۔۔۔اب غیر ملکی بزنس مین کاروباری بات چیت کے لئے دئبی نہیں بلاتے بلکہ بلاخوف وخطر کراچی آتے ہیں ۔جو کہ بے شک سول و ملٹری قیادت کا آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہو رہے ہیں،یہ راقم پاکستان کے ماتحت عدالتی نظام پر خصوصی طور پر لکھنا چاہ رہا ہے تا کہ فاضل چیف جسٹس صاحب ہائی کورٹ اور خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں تحریر ہو گا اور ان دنوں راقم خود اس اذیت سے گزر رہا ہے انشاء اﷲ آئندہ کالم ’’پاکستان میں ماتحت عدلیہ،اور اس کی کارکردگی ‘‘ہو گا قارئین اگر رابطہ کرناتو راابطہ کریں،
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.