“آج بھی زبان کھینچی گئی ہے ناں، تاریں وغیرہ کاٹ کر۔ جو بھی جو سچ بولے غائب کر دیا جاتا ہے، یا قید کر دیا جاتا ہے یا پھر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آپ جانتے ہیں، گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ اخبارات میں کالمز بند کرا دیے جاتے ہیں اور نوکریوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے“
یہ الفاظ ہیں ملک کے تین بار منتخب ہونے والے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے جو سابق وزیرِ اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان عدلیہ کی جانب سے نااہل بھی قرار دیے جاچکے ہیں اور اس وقت ایک مفرور ملزم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نواز شریف نے یہ الفاظ گزشتہ ہفتے ہونے والی دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ادا کیے جس کا موضوع “انسانی حقوق“ اور “قانون اور عدلیہ کی حکمرانی“ تھا۔ نواز شریف کے خطاب کے دوران کئی بار انٹرنیٹ سروس معطل ہوئی جس کو انھوں نے اپنی زبان بندی قرار دیا۔
انتشار مت پھیلائیں
اسی کانفرنس کے پہلے دن مختلف صحافیوں اور سنئیر وکلاء نے خطاب کیا اور اداروں کے کردار پر سوال اٹھایا۔ سینئیر وکیل علی احمد کرد کے عدلیہ پر کیے جانے والے حملوں اور فیصلوں کے خلاف جب موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے خطاب کیا تو ان کا کہنا تھا کہ “انتشار مت پھیلائیں۔ عدالت نے کبھی کسی اور کی بات نہیں سنی۔ نہ کسی کی جرات ہے کہ مجھ سے کوئی کچھ کہے۔ ہم کیس کا فیصلہ اپنے ضمیر اور قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ کبھی کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی، نہ کبھی ایسا دیکھا، نہ سنا“
ججز سے من پسند فیصلے کروائے جارہے ہیں
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کانفرنس غالباً اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا کی سب سے انوکھی کانفرنس ہوگی جس میں مجرموں اور مفرور افراد نے ججز کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ کانفرنس میں شامل لوگوں نے عدالت اور ملکی سالمیت کے اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ جیف جسٹس گلزار احمد کے خطاب کے اگلے دن کانفرنس کے اختتام میں نواز شریف نے ایک بار پھر عدالت پر الزام لگایا گیا کہ “ آج بھی من پسند ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لیے جاتے رہے ہیں۔ انھیں بلیک میل کر کے سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے دلوائے جاتے ہیں۔۔۔ فون پر ضمانت نہ دلوانے اور سزائیں دلوانے کے حکم صادر کیے جاتے ہیں۔‘
کیا حکومت کا صرف تنقید کرنا ہی کافی ہے؟
سمجھ سے باہر ہے کہ ایسی کانفرنس کا کیا مقصد ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو اپنے کردار اور فیصلوں کے حوالے سے صفائی دینی پڑے اوروہ نااہل افراد جو ملک میں سزاؤں کے خوف سے کسی دوسرے ملک مفرور ہو کر بھی اداروں پر الزامات تھوپنے کے لئے آزاد ہوں۔ اگرچہ حکومتی وزراء اس کانفرنس میں نواز شریف کی تقریر پر تنقید کررہے ہیں لیکن کیا یہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ اداروں کے خلاف بات کرنے والے مجرموں کو روکتے؟ کیا ایک طرف کھڑا ہو کر تماشہ دیکھنا اور ملک میں جو جس طرح ہورہا ہے ہونے دینا ایک صحیح طرزِ عمل ہے؟ اور اگر یہ رویہ آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے ذمرے میں آتا ہے تو عوام کے لوٹے گئے ان پیسوں کا حساب کون دے گا جو ان فرار ہونے والے ملزموں کی غیر ملکی تجوریوں میں دفن ہے؟