میں نے اپنے ہاتھ سے بیٹے کی قبر کھودی، لیکن مجھے لاش نہیں دی گئی ۔۔ وہ باپ جو ایک سال سے اپنے بیٹے کی قبر کھود کر لاش کا منتظر ہے

image

ایک باپ اپنی اولاد کو پالتا ہے بڑا کرتا ہے، اگر اسے بچپن میں معمولی سی چوٹ بھی آجائے تو باپ تڑپ جاتا ہے لیکن اگرجوان بیٹا باپ کی آنکھوں کے سامنے شہید کر دیا جائے تو اس کے لیے وہ وقت کسی قیامت خیز منظر سے کم نہیں ہوتا ہوگا۔

آج ایک والد کی دکھ بھری کہانی کے بارے میں آپ کو بتانے جا رہے ہیں جس کا جن کا 16 سالہ بیٹا اطہر ایک مبینہ پولیس مقابلے (انکاؤنٹر) میں دسمبر 2020 میں ہلاک ہو گیا تھا۔

مشتاق احمد وانی (بی بی سی اردو) کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سارے واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں۔

مشتاق کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اپنے بیٹے کی قبر کھودی۔ میں نے انڈیا کی حکومت سے اپیل کی کہ مجھے میرا بچہ واپس دے دو۔ 11 ماہ گزرنے کے باوجود میں آج بھی انتظار کر رہا ہوں۔

اطہر کی ہلاکت کے چند روز بعد جب 11ویں جماعت کے امتحانات کے نتائج آئے تو وہ صرف ایک مضمون یعنی اُردو میں فیل تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اُردو کا پیپر دینے سے ایک روز قبل ان کی انکاؤنٹر میں ہلاکت ہو چکی تھی۔

والد کے مطابق آخری پیپر دینے سے صرف ’ایک روز قبل اسے قتل کیا جا چکا تھا۔

انھوں نے اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ’اس روز میں اپنے گھر کے پہنچا تو وہاں لوگوں کی بھیڑ تھی۔ بڑا بھائی میری بانہوں میں چھول گیا اور کہا اطہر ’شہید‘ ہو گیا ہے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’گرفتاری کے بعد پہلے میرے بیٹے سے تفتیش کی گئی اور پھر اسے انکاؤنٹر کے مقام پر لے جایا گیا۔ 18 گھنٹے زیر حراست رکھنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ جس عمارت میں پولیس مقابلے میں اطہر ہلاک ہوا وہاں اس سمیت بڑے بڑے دہشتگرد موجود تھے۔ میرا بچہ تو 16 سال کا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔‘

اطہر کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد انڈین فوجی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اطہر ایک شدت پسند تھے۔ اس موقع پر ہونے والی پریس کانفرنس میں اعلیٰ پولیس حکام نے دعویٰ کیا کہ اطہر سمیت تین نوجوان ہائی وے پر ایک بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور ایک خفیہ اطلاع پر اُس عمارت پر چھاپہ مارا گیا جہاں وہ موجود تھے۔

پولیس کے مطابق اس عمارت میں ہونے والے پولیس مقابلے میں یہ تینوں ’شدت پسند‘ مارے گئے۔

مگر مشتاق احمد وانی آج بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

وہ پوچھتے ہیں کہ ’آپ کو وہ شکل سے دہشتگرد لگ رہا ہے؟ 16 سال کے بچے نے کیسے گینگ بنائی؟ مجھے کچھ پتا نہیں کہ اسے دوران تفتیش مارا گیا یا بعد میں انکاؤنٹر کی جگہ لے جا کر مارا گیا؟‘

مشتاق وانی کے مطابق ان کے بیٹے اطہر کی لاش اُن کے گھر سے 140 کلومیٹر دور سونا مرگ کے مقام پر دفنائی گئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ مبینہ انکاؤنٹر کے بعد انھوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ ’مجھے میرے بیٹے کا چہرہ دیکھنے دو یا کم از کم مجھے اپنے بچے کی لاش ہی واپس دے دو۔ وہ بے گناہ ہے۔‘

’میں وہاں چلا کر بولا کہ کیا اس کے خلاف کسی تھانے میں ایف آئی آر درج ہے؟ تو مجھے بتاؤ آپ نے اسے مارا کیوں؟ وہاں بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ انھوں نے (تھانے کا) گیٹ ہی بند کر دیا۔‘

آج بھی وہ اپنے بیٹے کی جدائی میں غمگین ہیں۔ ’میں نے اسے 16، 17 سال پالا پوسا۔ بڑے سکول میں پڑھایا۔ تو آج دیکھو ہندوستان نے مجھے کیا انعام دیا۔‘

اپنے بیٹے کو آخری بار دیکھنا ان کے لیے مزید دُکھ کا باعث بنا تھا۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میں نے جب اپنے بچے کو دیکھا تو اس کے سینے میں دل کی جگہ پر دو گولیوں کے نشان تھے۔ جیسے ہی میں نے اسے گلے سے لگانے کی کوشش کی تو پولیس والوں نے اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا، وہ بھی گاڑی کے فرش پر، جوتوں کے نیچے۔‘

’ہم گونڈ کیمپ تک پہنچے وہاں تک چار، پانچ ناکے تھے۔ انھوں نے ہمیں جانے بھی نہیں دیا۔ وہاں سے ہمیں اتارا، ڈنڈے دکھائے۔ میں نے کہا میں دیکھنا چاہتا ہوں آپ میرے بچے کو کہاں دفن کرو گے، آگے تو برف ہے۔ اس کو پانی میں ڈالو گے یا برف میں دفناؤ گے۔ کم از کم ماں باپ کو تو یہ حق ہے۔ تو انھوں نے مجھے روکا اور ڈنڈے دکھائے۔‘

’میں اپنے خاندان کو لے کر وہاں سے پیدل چلا گیا، دو کلومیٹر تک دوڑتا رہا۔ ایک گاؤں میں لوگوں نے پوچھا آپ کیوں دوڑ رہے ہو، میں نے کہا میرا اکلوتا بیٹا تھا ان ظالموں نے آگے لے جا کر کسی جگہ دفنایا ہے۔ تو انھوں نے کہا یہاں سے سونا مرگ مزید 30 کلومیٹر دور ہے آپ اس وقت کہاں جاؤ گے؟ ابھی تو شام کے چھ بجے ہیں۔ دسمبر میں یہاں چھ بجے سونا مرگ میں منفی 10، 15 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔‘

پھر انھیں بتایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنی خواہش کے مطابق خود وہیں دفن کریں۔

’رات کے نو بجے انھوں نے بتایا کہ یہ لو تمھارا بیٹا، گاڑی میں ہے، خود اتارو، اس کو دفن کرو یہاں۔ میں نے کہا مجھے کوئی ٹرالی دے دو لاش لے جانے کے لیے، تو وہ مجھ پر ہنسنے لگے۔ میں نے اسے گود میں اٹھایا، دوسری طرف اس کے انکل تھے۔ ہم جب اسے باہر لے آئے، میں نے پوچھا جنازہ پڑھ سکتے ہیں تو بتایا گیا ہاں پڑھ سکتے ہیں روڈ پر۔‘

’میرے بھائی نے وہاں اس کا جنازہ پڑھایا۔ جیسے ہی جنازہ پڑھا تو انھوں نے کہا چلو جلدی اس کو دفن کرو وہاں۔ میں نے کہا یہاں پہاڑی ہے، برف بھی ہے، ہم کیسے اٹھا سکتے ہیں۔ کم از کم ٹرالی دے دو اور دو، چار بندے دے دو۔ تو انھوں نے کہا آپ کے پاس صرف 10 منٹ ہیں۔ 10 منٹ کے اندر اندر اس کو دفناؤ۔‘

مشتاق کے مطابق انھوں نے اپنے نوجوان بیٹے کی لاش اپنے کندھے پر اٹھائی اور وہیں دفن کرنے چل پڑے۔ ’جب میں برف پر چل رہا تھا تو وہ پیچھے سے ہنس رہے تھے۔ ہمارے پیر پھسل رہے تھے، ہمارے کندھے سے اطہر گِر رہا تھا۔ وہ پیچھے سے اتنا ہنس رہے تھے اور کہہ رہے تھے جلدی کرو۔ ہم یہیں آپ کو بھی دفنائیں گے۔‘


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts