دنیا میں ایسی کئی ویڈیوز ور تصاویر دیکھی گئی ہیں جو کہ اپنی نوعیت کی منفرد ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی ہوتی ہیں جو کہ ذہنی طور پر بہت کچھ کہہ جاتی ہیں۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔
آپ سب نے مسلمانوں کی آذان تو سنی ہوگی، جس میں 5 وقت مؤذن ہر مسلمان کو نماز کی طرف بلاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب یہودیوں کی پکار ہے جو کہ یہودیوں کو اگرچہ نماز کے لیے نہیں مگر یہ بتلاتی ہے کہ ان کا مذہب کیا کہتا ہے۔
مسلمانوں کی آذان میں اور یہودیوں کی (پکار) میں کیا مختلف بات ہے، اسی حوالے سے آپ کو بتائیں گے۔
مسلمان جب بھی آذان دیتا ہے تو اس کا لہجہ بھی دھیما ہوتا ہے اور وہ اپنے سننے والوں کو ایسا محسوس کراتا ہے کہ یہ پکار میری طرف سے نہیں ہے بلکہ میرے اور تیرے رب کی طرف سے ہے۔
آذان کو سننے والا بھی ایک پل کو محسوس کرتا ہے اسے اس طرف آنے کے لیے کوئی زور زبردستی نہیں ڈال رہا ہے۔ جبکہ مسلمان کی آذان میں ایک فلاح کی طرف بھی بلایا جاتا ہے، یعنی انسان کی بہتری کے لیے ہی پکارا جاتا ہے۔
دوسری جانب یہودی پکار میں صرف ایک چیز پر زور دیا جاتا ہے وہ ہے ہاشم ہمارا (یہودیوں) کا خدا ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پکارا جاتا ہے کہ سن لو اسرائیل، ہاشم تمہارا خدا ہے۔
یہ پکار ایسی ہوتی ہے جس میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پکارنے والا کس حد تک زور زبردستی کر رہا ہے۔ یہودی اس پکار کو دعا کا نام دیتے ہیں، جسے شیما کہا جاتا ہے۔ اکثر یوٹیوب پر یہودی آذان کے نام سے اسے یاد کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے۔ کیونکہ یہودی اسے آذان نہیں بلکہ شیما اسرائیل کہتے ہیں۔
بہرحال یہ دونوں الگ الگ مذاہب ہیں اور دونوں کے اپنے طور طریقے ہیں، لیکن جس طرح اسلام میں آذان دی جاتی ہے، وہ انسان کو بھی ایک لمحہ کے لیے راحت بخشتی ہے، جبکہ دوسری جانب اسرائیل میں دی جانے والی پکار ایک طرح سے خبردار کر رہی ہوتی ہے۔