بچے بیمار ہو جائیں تو والدین کی پریشانی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ لیکن یہ پریشانی اس وقت زیادہ بڑھتی ہے جبکہ آپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ آپ کا بچہ کس مرض میں مبتلا ہے۔ مرض کی تشخیص ہو جائے تو شاید والدین کو صبر آجاتا ہے، لیکن لاعلاج مرض میں جب اولاد مبتلا ہو جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔

حسین نامی کویتی شہری کا 5 سالہ بیٹا بُراق حُسین ایک ایسی بیماری میں مبتلا جو لا علاج ہے۔ ڈاکٹروں کو اس بچے کی بیماری کا کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ والد کے مطابق :
''
جب براق پیدا ہوا تو اس کو کوئی بیماری نہیں تھی اور نہ کسی قسم کا سانس لینے میں کوئی مسئلہ تھا۔ پھر ڈیڑھ سال کی عمر میں ن اسے پٹھوں کی کمزوری کا مسئلہ شروع ہوا۔ ڈھائی سال کا ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں خم ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کا بہت علاج کیا۔ طبی ٹیسٹ کروائے لیکن ان کو میرے بچے کی بیماری کا بالکل اندازہ نہیں ہے کہ اس کو کیا مرض ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔ کویتی وزراتِ صحت سے میں نے رابطہ کیا تو میرے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کیا گیا۔
''
خادم الحرمین نے کیسے مدد کی کال کی؟
سوشل میڈیا کے ذریعے براق کے والد حسین نے خادم الحرمین سے اپنے بچے ک علاج کے لیے مدد مانگی۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر جگہ سے ٹھکرایا ہوا نا امید ہوں میری مدد کی جائے۔ کویت میں سعودی سفارت خانے گیا اور رپورٹس جمع کرائی۔ جس پر سعودی شہزادے سلمان بن عبدالعزیز نے ان کی درخواست سنی اور سعودی عرب کے ہسپتال نیشنل گارڈ کے شاہ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں بچے کو لانے کے لیے خط بھیجا۔
والد بُراق مذید کہتے ہیں:
''
مجھے
اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کویتی سفارت خانے کی جانب سے بھرپور تعاون حاصل ہوا اور دو ہفتوں کے اندر بیٹے کے سعودی عرب میں سفر اور علاج کی منظوری کا جواب موصول ہوگیا۔ جس پر مجھے خوشی ہوئی۔ لیکن جب مجھے اپنے بیٹے کو طبی طیارے کے ذریعے کویت سے سعودی عرب لے جانے کے بارے میں کال موصول ہوئی تو میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے۔ میری بیوی اور میں حد سے زیادہ روئے اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوئے کہ اب ہمارے بچے کا علاج ممکن ہے۔
''

براق کے والد نے خادم الحرمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ:
''
میں ہر طرف سے نا امید تھا۔ خادم الحرمین نے میرا ہاتھ تھاما، میرے بچے کے علاج کے لیے مدد کی، مجھے یہاں تک بلایا یہی میرے لیے سب سے بڑی خوشی ہے۔ اس پر میرا بیٹا صحت یاب ہو کرپوری زندگی خادم الحرمین کی پیشانی چومتا رہے تب بھی ان کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔
''