یورپی ممالک میں مسلمانوں کو آج بھی مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ
مسلم خواتین بھی اپنے مسلمان ہونے کی وجہ سے دیگر مسائل کا سامنا ہے۔
اسی طرح برطانیہ کی رکن اسمبلی نصرت غنی جو کہ بتاتی ہیں کہ کنزرویٹو حکومت نے انہیں فروری 2020 میں صرف مسلمان ہونے کے باعث وزارت سے برطرف کر دیا تھا۔
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کے مطابق سابق جونیئر ٹرانسپورٹ منسٹر نصرت غنی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ 2 سال قبل ان سے وزارت کا عہدہ صرف اس لیے لے چھین لیا گیا تھا کیوں کہ کابینہ کے کچھ ارکان کو میرے مسلمان ہونے سے مسئلہ تھا۔
39 سالہ نصرت غنی کے مطابق پارلیمنٹ میں نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی ذمہ داری نبھانے والے چیف وہپ مارک اسپینسر نے بتایا تھا کہ کابینہ کے دیگر ارکان آپ کے مسلمان عقیدے سے خاصے پریشان تھے۔
مسلمان رکن اسمبلی نے نصرت غنی نے کہا کہ مجھے اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ وزارتوں کی تبدیلی اور ردوبدل کے اجلاس کے دوران باقاعدہ طور میرے مسلمان ہونے کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا۔ میری اپنی پارٹی کے اس رویے سے میرا اعتماد متزلزل ہوا اور میں نے بعض اوقات سنجیدگی سے اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے پر بھی غور کیا۔
خیال رہے کہ نصرت غنی کا مذکورہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ان کے ایک کنزرویٹو ساتھی ولیم ریگ نے پارلیمانی وہپس پر ممبران پارلیمنٹ کو بلیک میل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا۔