مٹھو کو جو کچھ سکھاؤ یا اس کے سامنے جو بھی بات کی جائے مٹھو وہ سیکھ جاتا ہے اور ویسے ہی بولنے لگتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ مٹھو کو نہ تو انسانوں کی بات سمجھ آتی ہے اور نہ ہی وہ ہماری زبان کی سیکھ سکتا ہے۔ دراصل طوطوں کی سننے اور سمجھنے کی حس انسان کی طرح تیز ہوتی ہے جیسے انسان سب کچھ سیکھ لیتا ہے۔ جو زبان سنتا ہے، سمجھتا ہے اس کو بولنے لگتا ہے بالکل اسی طرح طوطے بھی سیکھ جاتے ہیں۔

آسٹریلوی ماہرین کے مطابق طوطوں کی جینز انسانی مقابلے میں زیادہ تیز ہوتی ہے۔ یہ صرف ذہنی اعتبار سے نہیں بلکہ تخلیقی اعتبار سے بھی تیز ہوتے ہیں۔ طوطے ہمیشہ وہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو مشکل لگتا ہے۔ یہ ان کی فطرت ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہم طوطوں کو مشاہدے کے لیے دیکھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ایک روبوٹ اور طوطے کو سامنے رکھ دیا جائے، روبوٹ کے دماغ میں اپنے طور سے زیادہ سے زیادہ عقل بھر دی جائے اور طوطے کو پاس بٹھا دیا جائے، دونوں میں مہارت سے کام صرف طوطا ہی کرے گا کیونکہ اس کی جینز اسے خبردار رکھتی ہے۔ طوطے کی چھٹی حس زیادہ سے زیادہ کام کرتی ہے۔ اگر آپ کسی طوطے کو پنجرے میں قید کرلیں اور یہ سوچیں کہ طوطا زندگی بھر اسی میں رہے گا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے اس قید سے نکل کر بھاگنے کی۔

طوطے کی سونگھنے کی حس تمام انسانوں میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ناک میں قدرتی طور پر آلفیکٹری گلیڈز پائے جاتے ہیں جو اس کو اپنے اطراف میں موجود ہر چیز کو جلد سے جلد سونگھنے میں مدد دیتے ہیں۔ آپ اگر کسی جنگل یا پیڑوں والی جگہ پر جائیں جہاں طوطے بھی موجود ہوتے ہیں۔ اکثر پھلوں کے پیڑوں کے نیچے کچھ پھل زمین پر پڑے دکھائی دیتے ہیں جو ایسا لگتا ہے کہ کسی نے کھا کر پھینک دیئے ہوں۔ دراصل طوطے وہ پھل کھاتے ہیں۔ یہ بات گاؤں دیہاتوں میں لوگوں کو معلوم ہوتی ہے کہ جو پھل طوطا کھاتے ہیں وہ ذائقے میں سب سے زیادہ مزیدار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ان طوطوں میں موجود آلفیکٹری گلینڈز ہی ہیں۔

ویسے تو زیادہ تر پرندے آنے والے خطرات اور خدشات سے قدرتی طور پر واقف ہوتے ہیں لیکن طوطا اس میں بھی مہارت رکھتا ہے یہی وجہ ہے آپ نے اکثر سڑکوں پر دیکھا ہوگا کہ لوگ طوطے کو پرچیاں دکھاتے ہیں کہ طوطا اس میں سے ایک کا انتخاب کرے، اکثر بھارت اور پاکستان کے میچ سے قبل بھی طوطے سے پرچیاں اٹھوائی جاتی ہیں۔ دراصل یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے۔ طوطا چونکہ مستقبل میں ہونے والے معاملات کو پہلے سے جانچ لیتا ہے۔ لیکن عام زندگی کے معاملات میں طوطے سے پرچیاں نہ اٹھوائیں کیونکہ یہ صرف اندازہ لگاتا ہے وہ بات حتمی طور پر درست نہیں ہوتی۔