ہم 30 دن کا انتظار نہیں کرسکتے، ہمارا بچہ مر جائے گا ۔۔ امریکی جوڑے کی یوکرینی بچے کو گود لینے کی کہانی

image
ایک امریکی جوڑے نے یوکرین سے ایک بچہ رسلان گود لیا جوکہ بیمار تھا اس کو دماغی فالج تھا۔ جوڑے نے بچے کو امریکہ سے یوکرین جا کر گود لیا لیکن وہاں چونکہ حالات کی کشیدگی کی وجہ سے جوڑے کے امریکہ روانگی میں تاخیر ہوئی۔ لیکن ان کا بچہ زندہ بچ گیا۔ امریکہ پہنچ کر جوڑے نے اپنے غم کا اظہار بھی کیا اور اپنی خوشی سے یہ بھی کہا کہ اب ہم ماں باپ بن گئے ہیں۔ شکر ہے کہ ہمارا بچہ ہمارے ساتھ خیریت سے واپس لوٹ آیا۔ رسلان کو گود لینے کے لیے ہم نے سرحدوں کو نہیں دیکھا بس جب سے اس بچے کی تصویر کی ایک جھلک دیکھی اس سے اتنی محبت ہوگئی کہ اس کے بغیر رہا نہیں گیا۔ آج اس کو اپنے پاس پا کر سکون محسوس کر رہے ہیں۔
شادی شدہ جوڑے جن کے ہاں اولادِ نرینہ نہیں ہوتی وہ بچے کی خواہش پورا کرنے کے ہر ممکنہ کوشش کرنے کے بعد بچہ گود لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثریت آج کل بچہ گود لینے پر جلد رضا مند ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اب معاشرہ یکسر تبدیل ہو رہا ہے۔ لوگوں کو اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ جو بچے یتیم خانوں میں موجود ہیں ان کو اپنا نام دینے اور اپنانے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ پاکستانی معاشرے میں تو خیر بچے کو گود لینے کا رواج آج بھی کم ہے لیکن مغربی معاشروں میں یہ بہت عام ہے۔ بہرحال یہ امریکی جوڑا بھی اپنی ذاتی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے مختلف یتیم خانوں سے رابطے میں تھا۔ ایک دن خاتون کیلسی اور تھیورن نے انسٹاگرام پر ایک بچے کی تصویر دیکھی۔ وہ بچہ کیلسی کو بہت پسند آگیا۔ اس نے اپنے شوہر تھیورن سے اسی بچے کو گود لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جب معلومات کیں تو پتہ چلا کہ یہ بچہ شمالی یوکرین کے کسی یتیم خانے میں ہے۔ جس کو پیدائشی طور پر دماغی فالج ہے اور بچے کی حالت اتنی سخت خراب ہے کہ اس کو مکمل اور ایکا چھے بہترین ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔
کیلسی کی ممتا تڑپ رہی تھی اس بچے کے پاس جانےکے لیے، اس کو گود لینے کے لیے۔ دونوں میاں بیوی نے جب بچے کو گود لینے کا سوچا تو یوکرین کا ویزہ اور دیگر انتظامات کیے۔ سب کچھ ٹھیک سے ہوگیا، لیکن جب جوڑا یوکرین پہنچا تو رسلان کی حالت خراب تھی۔ اسی دوران امریکہ نے اپنے شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کا حکم دے دیا کیونکہ یوکرین اور روس کے درمیان لفظی جنگ جاری تھی۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ کیلسی اور تھیورن کا امریکہ کے لیے روانہ ہونا مشکل میں پڑ گیا۔ جب یوکرین سفارتخانے اور امریکی حکام سے بات کی گئی تو انہوں نے بچے کا ویزہ بنوانے کا کہا، چونکہ کیلسی نے اس کے انتظامات بھی پہلے سے کیے ہوئے تھے لیکن ویزہ ملنے میں تاخیر ہوگئی جس کی وجہ سے رسلان کو ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور کہا گیا کہ 30 دن انتظار کرنا ہوگا ابھی حالات اس قابل نہیں کہ یہ کام ہوسکے۔
کیلسی نے رو رو کر اس وقت جو الفاظ ادا کیے وہ سب کے دلوں میں گھر کر گئے۔ کیلسی چونکہ سالوں سے بچے کے لیے تڑپتی ایک ایسی ماں تھی جس کو بچوں سے بہت محبت ہے اور خود کی گود میں جب بچہ آیا تو وہ سب کچھ بھول گئی، بس اس کو اب اپنے رسلان کی تکلیف کا احساس اندر ہی اندر افسردہ کر رہا تھا۔ کیلسی نے کہا کہ: '' میں 30 دن تک انتظار نہیں کر سکتی، میرا بچہ مر جائے گا، میرے بچے کو دماغ کا فالج ہے۔ بہت سالوں سے تڑپتی تھی۔ اب جب میرا بچہ میری گود میں آگیا ہے تو کیسے اس کو یوں تکلیف میں مرتا ہوا دیکھوں گی؟ ہم پر رحم کرو، مجھے رسلان کو اپنے ساتھ لے جانے دو، میں اس کا علاج کرواؤں گی۔ گود لیا ہے میں نے اس کو، اس کے لیے اپنا ملک چھوڑ کر ایک ایسی جگہ بھی آگئے، جہاں سے زندہ سلامت جانے کا راستہ بھی نہیں معلوم لیکن آپ سے گزارش ہے کہ مجھے اپنے بچے اور شوہر کے ساتھ جانے دیا جائے۔ ''
اس کے بعد ضروری کاغذات اور کارروائی کی گئی اور کیلسی کے ساتھ اس کے گود لیے بچے کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔ جس پر کیلسی نے یوکرین انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ: '' یہ سب رب تھا۔ یہ سب خدا تھا۔ یہ سب خُدا کا شکر ہے۔ میں سب کا شکر ادا کرتی ہوں۔ میں رسلان کو ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔ بس آپ سب لوگ میرے بچے کی صحت اور زندگی کے لیے دعا کریں۔ ''

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts